"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی عذر داریاں‘ امکانات اور نتائج؟؟

سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدرِ مملکت کے خطاب کے دوران ہنگامہ آرائی کرنے پر اپوزیشن کے دو اراکین جمشید دستی اور اقبال محمد خان کے خلاف قومی اسمبلی کے ایکٹ کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے باقی ماندہ اجلاس کیلئے دونوں اراکین کی رکنیت معطل کر دی۔ (جسے اب سپیکر ایاز صادق نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد کی کثرتِ رائے سے منظوری کے بعد بحال کر دیا ہے) پارلیمنٹ کے رولز آف بزنس کے تحت یہ علامتی سزا تصور کی جاتی ہے اور ماضی میں بھی یہ روایت رہی ہے۔ ایسے اراکینِ اسمبلی جو حدود کو عبور کر جائیں‘ ان کو اس قسم کی سزا دی جاتی ہے۔صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے پارلیمنٹ کے پہلے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران اپوزیشن کے احتجاج‘ شور شرابے اور نعرے بازی سے عوام میں بڑا غلط تاثر قائم ہوا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اپوزیشن اور پیپلزپارٹی کے اراکین کے درمیان ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ پارلیمنٹ ایک قانون ساز ادارہ ہے جہاں کھڑے ہو کر ہلڑ بازی کرنا کسی کو زیب نہیں دیتا۔ دیکھا جائے تو صدرِ مملکت کے خطاب کے دوران ہنگامہ آرائی کا سلسلہ پیپلز پارٹی ہی نے شروع کیا تھا۔ پہلی بار بے نظیر بھٹو نے صدر غلام اسحاق خان کے خطاب کے دوران 1990ء میں احتجاج کیا تھا۔ اگرچہ صدر جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران بھی چند آزاد ارکینِ اسمبلی نے ہلکا سا احتجاج ضرور کیا تھا لیکن اس گستاخی کو نظر انداز کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں صدر غلام اسحاق خان کے پارلیمانی سال 1990ء کے خطاب کے دوران شدید ترین احتجاج ہوا۔ ہوا کچھ یوں کہ ان دنوں صدر غلام اسحاق خان کے داماد کا ایک سکینڈل منظرِ عام پر آیا تھا اور اس کے خلاف احتجاج کی زد میں صدر غلام اسحاق خان بھی آ گئے تھے۔ اسی طرح سردار فاروق لغاری کے صدارتی خطاب کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) نے شدید احتجاج کیا تھا اور اس احتجاج میں لیگی رکن تہمینہ دولتانہ پیش پیش تھیں۔ پرویز مشرف کو دسمبر2002ء میں پارلیمان سے خطاب کرنا پڑا تو ان کے خلاف بھی شدید ہنگامہ آرائی ہوئی۔ اس کے بعد صدر مشرف آئندہ سالوں میں پارلیمان سے خطاب کرنے نہیں آئے بلکہ پارلیمنٹ کو بدتمیزی کا خطاب دیتے ہوئے انہوں نے جمہوری و پارلیمانی روایت کو نظر انداز کرتے ہوئے مشترکہ ایوان سے خطاب کرنے سے گریز کیا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک اور حیران کن منظر بھی دیکھنے میں آیا۔ جب صدر زرداری کے خطاب کے دوران شدید ہنگامہ آرائی ہو رہی تھی تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی اکثریت پارلیمان میں موجود تھی مگر تمام اراکین خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے جبکہ صرف پیپلزپارٹی نے صدرِ مملکت کی حمایت میں مزاحمت کی۔ صدر زرداری نے بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے انتہائی بیزاری کے عالم میں خطاب کیا‘ روایت کے مطابق اعلیٰ ریاستی مہمانوں کی اکثریت بھی اس تقریب میں شریک نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان اور سروسز چیف کے علاوہ پنجاب کی وزیراعلیٰ اور چاروں صوبوں کے گورنرز بھی مشترکہ اجلاس میں شامل نہ ہوئے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان‘ وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر بھی اجلاس کی کارروائی دیکھنے نہیں آئے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف بھی مشترکہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ اپوزیشن رہنما مولانا فضل الرحمن‘ محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل بھی اس اجلاس سے لاتعلق رہے۔ صدرِ مملکت کی تقریر شوروغل کا شکار رہی اور اپوزیشن نے پورے خطاب کے دوران بھرپور احتجاج اور شور شرابہ کیا۔
اپوزیشن کو صدر کے خطاب کے دوران احتجاج کی غلط روایت کو ختم کر دینا چاہیے۔ صدر آصف علی زرداری کا انتخاب جمہوری طریقے سے عمل میں آیا ہے اور ان کے مد مقابل محمود خان اچکزئی نے بھی صدر کے انتخاب کو غیر جانبدار قرار دیا تھا اور اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری کو مبارکباد پیش کی تھی‘ لہٰذا اپوزیشن کی جانب سے صدر کے خطاب کے دوران ہنگامہ آرائی کا کوئی جواز نہیں تھا۔البتہ میں سمجھتا ہوں کہ صدرِ مملکت کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران فارم 45اور فارم 47کے تنازع کے حل کیلئے پارلیمانی کمیشن بنانے کی تجویز دے کر سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ الیکشن کے حوالے سے پارلیمانی کمیشن میں سب پارلیمانی جماعتوں کو مساوی حقوق دے کر الیکشن تنازعات کا حل نکالا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ نوازشریف کے حلقہ 130کے بارے میں ڈاکٹر یاسمین راشد کی انتخابی عذر داری بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اب فارم 45اور فارم 47کا موازنہ الیکشن ٹربیونل کرے گا اور تمام حقائق جلد سامنے آ جائیں گے۔ ان حالات میں اگر نوازشریف کے خلاف فیصلہ سامنے آتا ہے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس اگرچہ سپریم کورٹ میں اپیل کا حق موجود ہو گا لیکن اس جماعت کی سیاسی قوت اس سے ضرور کمزور ہو جائے گی۔ اسی طرح عون چودھری کے حلقہ کو سلمان اکرم راجہ نے چیلنج کر رکھا ہے جبکہ صوبائی سطح پر مریم نواز صاحبہ کے خلاف بھی انتخابی عذر داری داخل ہو چکی ہے۔ ان سب کی سماعت26 اپریل سے شروع ہونے کے امکانات ہیں۔ دوسری جانب اعلیٰ عدلیہ میں مداخلت کے کیس پر فل کورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانا ہے‘ اور امکان ہے کہ اس میں عدالتوں کی کارکردگی‘ دبائو اور متنازع فیصلوں کے حوالے سے کئی واقعات منظرِ عام پر آئیں گے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اتحادی حکومت کو اس صورتحال سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ ہی حکومت مقتدر حلقوں کا دفاع کرے گی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے مطالبات سے بھی حکومت دبائو کا شکار ہو چکی ہے۔
دوسری جانب ایک ہائوسنگ سوسائٹی کے منصرم کنور معیز الدین کی شکایت پر لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف پنڈورا باکس کھل چکا ہے۔ میں اس کی حقیقت سے اُس وقت سے واقف ہوں جب مذکورہ سوسائٹی پر سکیورٹی کے ایک ادارے نے دھاوا بولا تھا اور اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں کی مداخلت پر اس کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ اندرونی طور پر جو شرمناک واقعات پیش آئے تھے‘ کنور قطب الدین خان نے ان کی بابت بھی آگاہ کیا تھا۔ یہ انکوائری جوں جوں آگے بڑھے گی اور عوام کو جب حقیقت کا علم ہو گا تو مقتدر حلقوں کو فیض حمید کے دفاع میں کوئی گواہی نہیں ملے گی۔ اس وقت بھی وفاقی وزرا بالخصوص احسن اقبال اور وزیر دفاع خواجہ آصف سمیت سابق سیکرٹری داخلہ فیض آباد دھرنے کے حوالے سے فیض حمید کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی‘ جو اُس وقت ملک کے وزیراعظم تھے‘ کے تاثرات بھی فیض حمیدکے حوالے سے منفی تاثر پیش کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ اور فیض حمید کے خلاف انکوائری کیس میں وفاقی حکومت لاتعلق نظر آتی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ صدرِ مملکت بھی اس معاملے سے الگ تھلگ رہیں گے جبکہ پارلیمنٹ میں بھی حکومتی حلقے خاموشی اختیار کیے رکھیں گے۔
صدرِ مملکت کے خطاب پر اپوزیشن کے احتجاج سے متعلق غیر ملکی سفارتکاروں نے اپنے اپنے ممالک میں رپورٹس بھجوا دی ہیں کہ 8فروری کے الیکشن کو اپوزیشن نے اَنا کا مسئلہ بنا کر سسٹم کو فلاپ کرنے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے اور ملک میں انتشار اور انارکی کی فضا زور پکڑتی جا رہی ہے جس سے آئی ایم ایف‘ عالمی بینک اور دوست ممالک کے سرمایہ کاریہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ملک میں عدم استحکام کی فضا تب تک برقرار رہے گی جب تک الیکشن کے بارے میں تھرڈ پارٹی سے آڈٹ نہیں کرایا جاتا۔ پنجاب کی حکومت اس وقت مکمل طور پر بیورو کریسی کے کنٹرول میں ہے جبکہ صدرِ مملکت نے اپنے خطاب میں بھی یہ بات کہہ دی ہے کہ ''وقت کم رہ گیا ہے‘‘۔ ان کا اشارہ غالباً ملک کے موجودہ سسٹم کی طرف تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں