"KDC" (space) message & send to 7575

مذاکرات کی بازگشت اور ممکنہ نتائج

وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے اپنے دورۂ کراچی کے دوران جب ایک تقریب میں تاجروں اور کاروباری شخصیات سے ملاقات کی تو تاجروں نے انہیں تحریک انصاف کے بانی چیئرمین سے بات چیت کرنے اور بھارت کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنے کا مشورہ دیا۔ ویسے تو حکومت اور بانی پی ٹی آئی کے مابین مذاکرات کی بازگشت پارلیمانی راہداریوں میں بھی گونج رہی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں تجاویز قابلِ عمل نہیں ہیں۔ اگر حکومت عمران خان کے ساتھ بات چیت کی کوشش کرتی بھی ہے تو وہ اپنے ممکنہ سیاسی نقصان سے بچنے کے لیے حکومت سے ہاتھ نہیں ملائیں گے کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی مزاحمتی تحریک دم توڑ جائے گی۔ 2018ء میں جب عمران خان برسر اقتدار آئے تھے تو شہباز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر پی ٹی آئی حکومت کو میثاقِ معیشت کا مشورہ دیا تھا جسے عمران خان نے نظر انداز کر دیا تھا۔ اب جبکہ وہ جیل میں ہیں‘ اور اس کا ذمہ دار وہ اِنہی سیاسی جماعتوں کو ٹھہراتے ہیں جو اس وقت حکومت میں ہیں‘ تو ان سے بات چیت یا ہاتھ ملانے کے لیے وہ کیسے تیار ہوں گے؟ جہاں تک بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی کی بات ہے تو موجودہ حکومت جس کمزور ترین پوزیشن پر کھڑی ہے‘ وہاں سے وہ اتنا بولڈ فیصلہ نہیں کر سکتی کیونکہ اس فیصلے کی ایک سیاسی قیمت چکانا پڑے گی اور موجودہ حکومت یہ قیمت نہیں چکا سکتی۔
مبینہ طور پراس وقت بانی پی ٹی آئی سے مذاکرات کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بھی اپنے مخصوص انداز میں کام کر رہی ہے جس میں اہم سابق بیورو کریٹس‘ ملک کے ممتاز پارلیمنٹیرینز‘ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج صاحبان‘ سابق ممتاز عسکری شخصیات اور صحافتی حلقوں سے بھی کچھ اہم شخصیات شامل ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام کوششوں سے بھی کچھ برآمد نہیں ہو گا کیونکہ بانی تحریک انصاف اس وقت وکلا کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں اہم ترین نشستوں سے اپنی حکمت عملی اور بیانیے کے سبب ہی پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پارٹی میں آئے دن کے اختلافی بیانات سے ووٹرز کو احساس ہو چکا ہے کہ پارٹی اس وقت وکلا کے نرغے میں ہے جن کا عوامی مشکلات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے مبینہ طور پر2021ء تک جو 1100 سوشل میڈیا ماہرین بھرتی کیے تھے‘ ان کو 25 ہزار روپے ماہانہ دیے جاتے تھے اور بعض سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے بلاگرز اور سوشل میڈیا کے ماہرین کو ایک لاکھ روپے تک ماہانہ بھی دیے جاتے تھے۔یہ پروجیکٹ ایک ترقیاتی بینک کی طرف سے نوجوانوں کو آئی ٹی سکلز میں مہارت دلانے کیلئے شروع کیا گیا تھا مگر حکومت نے ان افراد کو اپنی تشہیر پر لگا دیا۔ ان ایکٹوسٹس کا بنیادی کام یہ تھا کہ پی ٹی آئی مخالفین کے خلاف سوشل میڈیا کی طاقت استعمال کی جائے۔ اُنہی دنوں بلوچستان کے سدرن کمانڈر اپنے ساتھیوں سمیت لسبیلہ کے پہاڑی سلسلے میں ہیلی کاپٹر کے حادثے میں شہید ہوئے تو نام نہاد سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے طوفانِ بدتمیزی برپا کر دیا جس پر اُس وقت کی پی ڈی ایم حکومت نے بیانات کی حد تک تو سخت ردِعمل ظاہر کیا لیکن متعلقہ افراد کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کرنے سے گریز کیا۔ حالانکہ مقتدر حلقوں کی طرف پریس بریفنگ میں متعلقہ افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس خود کو ریاست سے بھی زیادہ پاور فل سمجھ رہے تھے‘ سرکاری عہدوں سے فارغ ہونے والے چند افراد بھی ریاست مخالف پالیسی کو آگے لے جانے میں پیش پیش تھے مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پی ڈی ایم کے بعدنگران حکومتوں نے بھی ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے سے گریز کیا اور اسی دوران نو مئی کا تاریک دن آن پہنچا۔ تب ان سوشل میڈیا صارفین کے ذریعے ملک بھر میں جس قسم کا فساد برپا کیا گیا‘ عمران خان اور ان کی پارٹی آج اسی کے نتائج بھگت رہی ہے۔اب موجودہ حکومت نے ڈیجیٹل پاکستان کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے غیرملکی شہریت کی حامل تانیہ ایدروس کو اس کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا ہے۔ وزیراعظم کی منظوری کے بعد ڈیجیٹل کمیٹی کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ تانیہ ایدروس کینیڈین شہری ہیں اور انہیں پی ٹی آئی دور میں یہ اہم ترین اور حساس ذمہ داری تفویض کی گئی تھی اور اس وقت ان کی تعیناتی کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا اور ان کی دہری شہریت کی گونج سنائی دی تھی اور پھر وہ ملک کو خیرباد کہہ گئیں۔ لہٰذا یہ حیران کن امر ہے کہ اُس وقت جو جماعتیں ان کی تعیناتی کو متنازع بنا رہی تھیں اب انہوں نے ہی ان کو ڈیجیٹل پاکستان کمیٹی کا کنوینر تعینات کر دیا ہے۔
اُدھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور وکلا بھی ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس وقت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی تعیناتی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن نے ان کی سفارش کرتے ہوئے ان کے سیاسی رجحانات‘ اخبارات میں ان کے کالموں اور ان کے فکری ارتقا پر غور و خوض نہیں کیا‘ حالانکہ جسٹس بابر ستار کی آزادانہ سوچ سے اعلیٰ اختیارات کے حامل سبھی پالیسی ساز باخبر تھے۔ وہ اعلیٰ وژن کے حامل‘ دانشور‘ محب وطن اور اعلیٰ کردار کے حامل جج ہیں۔ بطور جج انہوں نے بیورو کریسی کی کارکردگی پر بھی نظر رکھی ہوئی ہے۔
دوسری طرف ایسے وقت میں جب مقتدر حلقے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ذریعے ملک میں معاشی استحکام کی بنیاد رکھ رہے ہیں تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے حکام کو عدالت کے روبرو پیش کرنے کی مہم بھی چلائی جانی چاہیے کہ سٹیٹ بینک نے 628 افراد کو 2200 ارب روپے کے جو بلا سود قرضے دیے تھے‘ ان افراد کے نام ظاہر کیے جائیں تاکہ 25کروڑ عوام کے سامنے ملک لوٹنے والوں کا اصل چہرہ بے نقاب ہو سکے اور اس وقت کے فیصلہ ساز بھی بے نقاب ہوں۔
جہاں تک میاں نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدارت واپس ملنے کی بات ہے تو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے فروری 2018ء میں نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے نااہل قرار دیتے ہوئے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 205 کو نظرانداز کر کے سابق صدر پرویز مشرف کے جاری کردہ پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء کے آرٹیکل 3 اور 4 کو مدنظررکھ کر یہ فیصلہ سنایا تھا کہ نواز شریف پارٹی صدارت نہیں سنبھال سکتے۔ یہ ایک متنازع فیصلہ تھا کیونکہ پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002ء الیکشن ایکٹ 2017ء کے نفاذ کے بعد کالعدم اور منسوخ ہو چکا تھااور الیکشن ایکٹ 2017ء میں ایسی کوئی شق نہیں تھی کہ کسی شخص کے نااہل ہونے کی صورت میں اسے پارٹی عہدے سے بھی محروم کیا جا سکے۔ اُس وقت کے چیف جسٹس کا فیصلہ قانون کے برعکس تھا۔ مسلم لیگی رہنمائوں کو چاہیے کہ اُس وقت کے چیف جسٹس کے فیصلے کے خلاف اُسی طرح سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا جائے جس طرح آصف زرداری نے سابق دورِ صدارت میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمۂ قتل کے بارے میں ریفرنس دائر کیا۔ اب نواز شریف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدارت دوبارہ سنبھالنے پر آمادہ ہو چکے ہیں اور ان کے حق میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے قرارداد بھی منظور ہو چکی ہے۔ آئندہ چند ہفتوں میں ملک کا سیاسی نقشہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ پارٹی کی صدارت سے محروم ہونے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی سیاسی قوت برائے نام رہ جائے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لارجر بنچ کے فیصلے اور عدلیہ میں مداخلت کے حوالے سے اہم فیصلہ سامنے آنے کے بعد نواز شریف اگست 2017ء والی پوزیشن پر کھڑے ہو جائیں اور پارٹی کے خاموش اور ناراض اراکین سمیت محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر ایک نئے سیاسی محاذ کی طرف جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں