"KDC" (space) message & send to 7575

الیکشن ٹربیونلز میں ججزکا تقرر ‘کس کا اختیار؟

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے قائم مقام صدر کی حیثیت سے جو الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کیا اس کے مطابق الیکشن کمیشن کو الیکشن ٹربیونلز کیلئے ریٹائر ججز کی تقرری کے اختیارات مل گئے ہیں۔ اس سے قبل الیکشن ٹربیونلز کیلئے ججز کا تقرر متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر کی مشاورت سے ہوتا تھا۔ اس آرڈیننس کا پس منظر یہ ہے کہ آٹھ فروری کے عام انتخابات کے انتخابی اعتراضات کی سماعت کیلئے الیکشن ٹربیونلز میں ججز کی تقرری کیلئے الیکشن کمیشن کو ابتدا میں لاہور ہائیکورٹ سے دو ججز کے نام موصول ہوئے۔ ان ججز کی تقرری کی الیکشن کمیشن نے منظوری دے دی۔ ایک پرنسپل سیٹ لاہور کیلئے اور ایک ملتان کیلئے۔ بعدازاں الیکشن کمیشن کو لاہور ہائی کورٹ سے ٹربیونلز کیلئے مزید چھ ججز کے نام موصول ہوئے اور الیکشن کمیشن نے پرنسپل سیٹ کیلئے مزید دو ٹربیونلز کی منظوری دے دی۔ چونکہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بہاولپور اور راولپنڈی ٹربیونلز کیلئے صرف ایک ایک نام الیکشن کمیشن کو بھیجا تھا اس لیے الیکشن کمیشن نے ان دونوں ٹربیونلز کیلئے ججز کا پینل بھیجنے کی درخواست کی۔ اس دوران سلمان اکرم راجہ کی ایک رٹ ٹیشن جسٹس شاہد کریم‘ جن کا نام الیکشن کمیشن نے الیکشن ٹربیونل کے طور پر منظور نہیں کیا تھا‘ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر ہوئی۔اس رٹ پٹیشن پر سماعت ہوئی اور فیصلہ سنا دیا گیا جس کے ذریعے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے اختیارات چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو منتقل ہو گئے۔ بعد ازاں ایک اور رٹ پٹیشن کے ذریعے موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کو بھی چیلنج کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے 16 مئی کو رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کے ذریعے اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ٹربیونلز کیلئے ججز کی تقرری چیف الیکشن کمشنر اور متعلقہ چیف جسٹس ہائی کورٹ کی مشاورت سے ہی کی جاتی ہے اور یہ قانونی روایت 1977ء سے اب تک چلی آرہی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے اپنے خط میں یہ بھی کہا کہ 1977ء کے عام انتخابات کے بعد الیکشن ٹربیونلز کیلئے اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے 41 ججز کے نام الیکشن کمیشن کو بھجوائے تھے جبکہ اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) جان محمد نے الیکشن ٹربیونلز کیلئے صرف آٹھ ججز کا تقررکیا تھا۔ اسی طرح 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات کے بعد الیکشن ٹربیونلز میں ججز کی تقرری کیلئے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) ایس اے نصرت اور اس وقت کے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت کے بعد پنجاب کیلئے پانچ ججز کا تقرر ہوا تھا۔ 2002ء کے عام انتخابات کے بعد بھی الیکشن ٹربیونلز کیلئے ججز کا تقرر اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) ارشاد حسن خان اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی باہمی مشاورت سے ہوا تھا۔2013ء کے عام انتخابات کے بعد الیکشن ٹربیونلز کیلئے ریٹائر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کا تقرر بھی متعلقہ چیف جسٹس ہائیکورٹ اور چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی مشاورت سے ہوا تھا‘تاہم الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 140 میں ترمیم کرتے ہوئے صرف حاضر سروسز ججز کو الیکشن ٹربیونلز کا جج مقرر کرنے کا فیصلہ ہوگیا‘ جس کے تحت الیکشن ٹربیونلز کیلئے ججز کا تقرر اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا اور متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے ہوا۔
اب یوسف رضا گیلانی نے جوآرڈیننس جاری کیا ہے اس کا مقصد الیکشن ٹربیونلز کیلئے ججز کے تقرر کے اختیارات چیف الیکشن کمشنر کو تفویض کرنا ہے‘ یعنی چیف الیکشن کمشنر اس معاملے میں کسی مشاورت کا پابند نہیں اور کسی بھی ریٹائرڈ جج کو اپنی مرضی سے الیکشن ٹربیونل کا جج مقرر کر سکتا ہے۔ میری رائے میں ریٹائرڈ ججز کو بھی الیکشن ٹریبونل کا جج مقرر کرنے میں حرج نہیں‘اگر یہ تقرری متعلقہ ہائیکورٹ کی مشاورت سے عمل میں آئے۔تاہم 2013ء میں ریٹائرڈ ججز کو الیکشن ٹربیونل کا جج مقرر کرنے کا جو تجربہ ہو چکا ہے وہ تجربہ ناکام ثابت ہوا ؛چنانچہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 140 کو مزید فعال بناتے ہوئے صرف حاضر سروس ججز ہی کو الیکشن ٹربیونلز میں تقرر کرنے کا قاعدہ مقرر کیا گیا۔ اُس وقت بننے والی 26 رکنی انتخابی اصلاحات کمیٹی میں سبھی پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی؛چنانچہ ان انتخابی اصلاحات اور 2018ء کے عام انتخابات کے بعد بننے والے الیکشن ٹربیونلز میں حاضر سروس ججز ہی کا تقرر ہواتھا۔اس طرح چیف الیکشن کمشنر کو متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 222 کے مطابق چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کے اختیارات کو کم یا ختم نہیں کیا جا سکتا‘ لہٰذا اس حوالے سے آنے والا فیصلہ آئین اور متعلقہ قوانین کے منافی ہے۔ اسی طرح چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کو بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘اگر یہ کرنا ہی ہو تو اس کیلئے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشنل کونسل کا فورم موجود ہے۔
دسمبر 1996ء میں اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار فخر عالم کے تقرر کو بھی ایک سیاسی جماعت نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر دیا تھا جبکہ اُس وقت صدر فاروق لغاری نے ملک میں تین فروری 1997ء کے انتخابات کیلئے شیڈول بھی جاری کر رکھاتھا۔ سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت 12 جنوری 1997ء تک جاری رہی اور غالباً 20 یا 22 جنوری 1997ء کو اس وقت کے چیف جسٹس آف نے اس مقدمہ کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے خارج کردیا۔ یہ فیصلہ غالباً پی ایل ڈی میں رپورٹ ہو چکا ہے جہاں سے اس کے مندرجات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح مارچ 2006ء میں جب چیف جسٹس(ر) قاضی محمد فاروق کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی کی شیری رحمن اور ڈاکٹر بابر اعوان نے ان کی تقرری کے خلاف عدالت میں جانے کا عندیہ دیا جسے محترمہ بینظیر بھٹو نے مسترد کردیا اور قاضی محمد فاروق پر اعتماد کا اظہار کیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے 2002ء میں جسٹس (ر)ارشاد حسن خان کی تقرری پر بھی اعتراض نہیں کیا بلکہ ان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) عبدالقیوم چودھری کے اصولوں کی پیروی کریں۔
دوسری طرف دیکھیں تو وفاقی دارالحکومت کے حلقہ این اے 48 سے مسلم لیگ(ن) کی نشست خطرے کی زد میں نظر آتی ہے۔ عدالتی کارروائی اور الیکشن ٹربیونل کے ریمارکس سے یہ محسوس کیا جاسکتا ہے۔عدالتی ریمارکس سے جو اخذ کیا جا رہا ہے اگر حتمی فیصلہ یہی آیا تو وفاقی دارالحکومت سے قومی اسمبلی کی باقی دو نشستیں بھی خطرے کی زد میں آسکتی ہیں۔ یوں بادی النظر میں اسلام آباد کی یہ تینوں نشستیں حکمران جماعت کے ہاتھ سے نکلتی نظر آ رہی ہیں۔ تاہم الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا آپشن بھی موجود ہوگا۔ 2019ء میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی قاسم سوری کو جب الیکشن ٹربیونل نے نااہل قرار دیتے ہوئے متعلقہ حلقے میں از سر نو انتخاب کا حکم جاری کیا تو قاسم سوری نے اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے اس فیصلے کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر لیا تھا۔اب 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں نئی اسمبلی بھی وجود میں آ چکی ہے لیکن اُس کیس کا کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔اب اگر یہی کچھ دیکھنے کو ملے جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے تو ان الیکشن ٹربیونلز کا کوئی فائدہ نہیں‘ جن پر آج کل بہت شور مچا ہوا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں