پاکستان تحریک انصاف کا ترنول کا جلسہ ملتوی ہونے کے بعد سے ہی یہ سرگوشیاں ہو رہی ہیں کہ تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان سرگوشیوں کی وجہ سے میاں نواز شریف ایک بار پھر گہری سوچ میں پڑ گئے ہیں۔ انہیں سیاست کے رموز و اوقاف کا مکمل ادراک ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ فروری کے عام انتخابات کے بعد سے وہ جب بھی سیاست میں متحرک ہوتے ہیں تو صحافیوں کے ایک حلقے کی جانب سے ان کے حلقۂ انتخاب این اے 130کے نتائج پر بحث شروع ہو جاتی ہے اور ان کے سیاسی مستقبل کو الیکشن ٹربیونل کے فیصلے سے منسلک کرتے ہوئے انہیں بیک فُٹ پر بھیجنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بظاہر اس سے لگتا ہے کہ میاں صاحب خود بھی این اے 130کے حقیقی نتائج سے بخوبی آگاہ ہیں۔
مقتدرہ اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کی بازگشت سے حکومتی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ استحکام کی خاطر اگر تحریک انصاف سے کوئی بات چیت ہو رہی ہے تو اس سے حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہونا چاہیے۔ نجانے مسلم لیگ (ن) بالخصوص اس جماعت کے حکومت میں موجود رہنماؤں کو پی ٹی آئی سے کیا مسئلہ ہے کہ ان کی طرف سے پی ٹی آئی پر پابندی کی کوشش بھی کی جا چکی ہے لیکن اتحادی جماعتوں کے پیچھے ہٹنے اور عوامی ردِ عمل کے بعد انہیں اپنے اس فیصلے سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ بہرحال‘ ایک بات طے ہے کہ تحریک انصاف اس وقت ملکی مفادات نہیں بلکہ ذاتی مفادات کی سیاست کر رہی ہے۔ جماعت کی قیادت کو اس امر سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کی اس پالیسی سے ملکی مفادات کس حد تک متاثر ہو رہے ہیں۔
سیاست سے ہٹ کر اگر ملک کو درپیش بجلی کے مسائل کی بات کی جائے تو اس بحران کی ساری ذمہ داری آئی پی پیز پر ڈالی جانی چاہیے۔ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی پاسداری کرتے کرتے حکومت نے عوام کو بے حال کر دیا ہے۔ شنید ہے کہ بعض وزرا آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں کیونکہ ان معاہدوں میں آئی پی پیز کی طرف سے ایسی شقیں شامل کی گئی ہیں کہ حکومت انہیں بآسانی ختم نہیں کر سکتی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ آئی پی پیز نے تو آنے والے کئی سالوں کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے یہ معاہدے کیے لیکن جن حکومتوں نے یہ معاہدے کیے اُنہوں نے آنے والے وقت کی منصوبہ بندی کیوں نہ کی۔
آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کا آغاز محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ان کے مشیر توانائی شاہد صدیقی نے کیا تھا۔ اُن دنوں مرکز اور پنجاب میں شدید سیاسی محاذ آرائی جاری تھی لیکن سردار یوسف نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو عملی شکل دینے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ذاتی خرچ پر ایک این جی او بنائی جس میں ملک کے معاشی اور توانائی کے شعبے کے ماہرین شامل کیے گئے ۔ جن کی ذمہ داری عوام کو یہ باور کرانا تھا کہ آئی پی پیز معاہدے ملک کے لیے کتنے اہم ہیں۔ بعد ازاں1997ء میں جب میاں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کے وزیر توانائی نے مزید کئی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کرلیے۔ یوں ملک کے بڑے بڑے سرمایہ کار اس شعبے میں سرمایہ کاری کرتے چلے گئے۔ اب سابق نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز آئی پی پیز کے خلاف کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور اس حوالے سے کئی ایک انکشافات کر چکے ہیں کہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے ملکی معیشت اورعوام کی جیبوں پر کیسے بوجھ پڑ رہا ہے۔ واضح رہے کہ گوہر اعجاز کا نام شروع میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور بعد ازاں نگران وزیراعظم پاکستان کیلئے بھی زیرِغور آیا تھا لیکن محلاتی سازشوں نے ان کو آگے نہیں آنے دیا۔ گوہر اعجاز کے ہمدم دیرینہ ایس ایم تنویر بھی ان کے ساتھ آئی پی پیز کے خلاف کھڑے ہیں جو نگران حکومت پنجاب کا اہم ترین حصہ تھے اور پنجاب کے وزیر توانائی بھی رہے۔صرف یہ دو شخصیات ہی نہیں بلکہ اب تو عوام بھی آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کا از سرنو جائزہ لینے کے حوالے سے آواز اٹھا رہے ہیں۔ اگر عوام توانائی کے مسئلہ کو لے کر سڑکوں پر نکل آئے تو حکومت کیلئے انہیں سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ بہتر ہے کہ اس سے قبل ہی اس معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا جائے۔
اب کچھ بات کچے کے ڈاکوؤں کی جنہوں نے گزشتہ دنوں پولیس کی گاڑیوں پر حملہ کرکے 12پولیس اہلکاروں کو شہید اور متعدد کو زخمی کر دیا جبکہ ایک اہلکار کو یرغمال بھی بنا لیا۔ شنید ہے کہ یرغمال اہلکار کی بازیابی کے لیے سزائے موت کے قیدی ڈاکو کو رہا کرنا پڑا ہے۔ اس واقعہ کے بعد پنجاب حکومت کی طرف سے کچے کے نامی گرامی ڈاکوؤں کے سر کی قیمت کروڑوں میں لگا دی گئی ہے جبکہ ملک کی معاشی حالت پہلے ہی بہت کمزور ہے۔اس قسم کے اعلانات کرنے کے بجائے کچے کے علاقے کو مستقل بنیادوں پر ڈاکوؤں کے نرخے سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ متعدد آپریشن کے باوجود کچے کے ڈاکوؤں کے مضبوط ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انہیں سندھ اور جنوبی پنجاب کے مقامی وڈیروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ مرحوم غلام مصطفی جتوئی نے برملا اعتراف کیا تھا کہ سندھ میں ڈاکوؤں اور تاوان لینے والوں کے پیچھے صوبے کی اہم شخصیات کھڑی ہیں۔اس لیے اگر کچے کے ڈاکوؤں کا خاتمہ مطلوب سے تو پہلے ان کے سرپرستوں کی سرکوبی کی جانی چاہیے۔
اگر ملک میں سول ایوارڈز کی بندر بانٹ کی بات کی جائے تو اس کاآغازملک کے پہلے قانون (1956ء) کے نفاذ کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ بعد ازاں سقوط ِ ڈھاکہ کے بعد مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971ء کو انتظامی اصلاحات ایکٹ کے تحت سول ایوارڈ منسوخ کر دیے تھے۔ میں یہاں ایک واقعہ بیان کرنے جا رہا ہوں۔میں نے فروری 2008ء کے انتخابات میں بطور سیکرٹری الیکشن کمیشن خدمات انجام دیں۔ یورپی یونین کمیشن‘ اقوامِ متحدہ کمیشن اور برطانوی اور امریکی مشن نے فروری 2008ء کے عام انتخابات کو فرسٹ ورلڈ ڈیموکریسی کے انتخابات قرار دیا تھا۔ صدر مملکت آصف علی زرادری نے ان انتخابات میں میری خدمات پر مجھے سول ایوارڈ دینے کیلئے میرانام وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھجوا دیا۔ بعد ازاں آٹھ اگست 2008ء کو صدرِ مملکت آصف علی زرادری کا مجھے فون آیا تو وہ کہنے لگے کہ میں نے آپ کا نام سول ایوارڈ کیلئے وزیراعظم کو بھیجا تھا مگر ان کی پرنسپل سیکرٹری نرگس سیٹھی کی طرف سے یہ اعتراض آ رہا ہے کہ 1973ء میں وزیراعظم بھٹو نے یہ پالیسی بنائی تھی کہ حاضر سروس سول سرونٹس کو ایوارڈ نہیں دیے جائیں گے۔میں بطور صدر آپ کا کیس ڈیفر کر رہا ہوں‘ اب یہ ایوارڈ آپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد مل سکتا ہے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ دو سال بعد جب نرگس سیٹھی سیکرٹری کیبنٹ تھیں تو انہوں نے اپنے سول ایوارڈ کیلئے رولز میں ترمیم کی اور حاضر سروس سول ملازمین کیلئے ایوارڈز کا دروازہ کھول دیا۔ جب نرگس سیٹھی کو ایوارڈ ملا تو میں نے انہیں مبارکباد کا پیغام بھیجا اور اپنا کیس ان کو بتایا۔ انہوں نے میرے خط کا جواب نہیں دیا۔