بلوچستان میں رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں نے بے گناہ شہریوں کے خون سے جو ہولی کھیلی اس کے تانے بانے نواب اکبر بگٹی کے قتل سے جوڑنا کچھ مناسب نہیں اور زمینی حقائق کے بھی منافی ہے۔ مجھے حیرانی ہے کہ ملک کے وزرا بھی تاریخ سے کس قدر نابلد ہیں۔ نواب اکبر بگٹی اگرچہ ایک ممتاز سیاستدان تھے لیکن بلوچستان میں ان کا سیاسی اثر ورسوخ برائے نام تھا۔ اکبر بگٹی ابتداً وفاقِ پاکستان کے حامی تھے مگر اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ ریاست کے خلاف ایک منظم منصوبہ بندی کا شکار ہو گئے تھے۔ بلوچستان کا مسئلہ دہشت گردی ہے اور ان دہشت گردوں کو جس طرح افغانستان سے کمک اور بھارت سے فنڈنگ مل رہی ہے یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مشیرقومی سلامتی اجیت دوول متعدد بار ان عناصر کی سپورٹ کا اعتراف کر چکے ہیں‘ لہٰذا اس معاملے کو نواب اکبر بگٹی کے قتل سے جوڑنے کے بجائے دہشت گردی کے تناظر ہی میں دیکھا جانا چاہیے۔
دوسری جانب سندھ اور جنوبی پنجاب کے کچے کے ڈاکو قانون نافذ کرنے والوں کے لیے سنگین چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ متعدد آپریشنز کے باوجود ان ڈاکوؤں کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا۔ڈاکوؤں کو کن کی سپورٹ حاصل ہے یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ گزشتہ حکومتوں کے دور میں بھی ڈاکوؤں کی سرکوبی کی گئی مگر یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکی۔ سندھ اور جنوبی پنجاب کے سرحدی علاقوں میں اب بھی ان کا غلبہ ہے اور پولیس ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ان علاقوں کے سرکردہ جاگیرداروں کی سرپرستی بھی ڈاکوئوں کو حاصل ہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے دور میں وزیراعلیٰ سندھ غلام مصطفی جتوئی کو ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کی ہدایت کی تھی اور ان کی سرپرستی کرنے والوں پر بھی کڑا ہاتھ ڈالا گیا تھا۔یہ آپریشن جاری تھا کہ مارچ 1977ء کے انتخابات کی وجہ سے اسے معطل کرنا پڑا۔
اگر ملکی سیاسی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو اس وقت صدر آصف علی زرداری ہی ایسے سیاستدان ہیں جو صوبوں کو ازسر نو اختیارات تقویض کرکے فیڈریشن کو مضبوط بنانے کے خواہش مند ہیں۔ صدر زرداری سیاست کے رموز شناس ہیں‘ ان کے برعکس میاں نواز شریف محض کاروباری معاملات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ آصف زرداری کی کامیاب سیاسی چالیں بھی سب کے سامنے ہیں۔ گزشتہ دنوں تحریک انصاف کی قیادت کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کربعد صدر زرداری متحرک ہو گئے اور انہوں نے مولانا سے ملاقات کرکے مستقبل کا ایک نقشہ تیار کیا ہے۔ شنید ہے کہ صدر زرداری سے ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمن نے تحریک انصاف کو پیغام بھیج دیا ہے کہ ان کی عوامی قوت دوسروں کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔ ویسے بھی ماضی میں عمران خان نے سالہا سال تک جس انداز میں مولانا کی تضحیک کی اس کے زخم کافی گہرے اور ابھی تک تازہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت میں بھی تحریک انصاف کی لیڈرشپ سے تعلقات پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اس وقت تحریک انصاف اندرونی طور پر تقسیم ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اگر خبروں میں زندہ ہے تو اس کی بڑی وجہ حکومت کا غیر دانشمندانہ رویہ ہے۔ وہ آئے دن کوئی نیا بیان دے کر تحریک انصاف کو سیاسی بحث کا موضوع بنا دیتی ہے۔ بانی تحریک انصاف جیل سے جو بیانیہ جاری کرتے ہیں حکومتی ارکان اس پر تنقید کرکے بانی پی ٹی آئی کا قد بڑھانے میں لگ جاتے ہیں۔
اس وقت سیاسی حلقوں میں چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی یا مدتِ ملازمت کے دورانیے سے متعلق قانون سازی کا معاملہ بھی زیر بحث ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ پارلیمنٹ کی سادہ اکثریت سے آئین میں ترمیم ناممکن ہے‘ البتہ حکومت ایک نیا ایکٹ پاس کر کے آئین کی شقوں کو بائی پاس کرنے کی کوشش کر سکتی ہے‘ ماضی میں بھی ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں اور ایسی قانون سازی سے معاملات مزید الجھ جاتے ہیں۔ شنید ہے کہ آئین میں ترمیم کرنے کی راہ نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور آزاد اراکین کو ساتھ ملانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ صدر زرداری کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا تھا۔ اگر مولانا فضل الرحمن اپوزیشن بینچوں کو چھوڑ کر حکومتی اتحاد کا حصہ بن جائیں تب بھی عددی طور پر آئین میں ترمیم ممکن نہیں ہے۔ البتہ صدر زرداری کا دائو چل گیا تو پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ اس مفاہمتی پالیسی میں مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی آفر کی جا سکتی ہے‘ کے پی کی گورنرشپ اور وزارتوں کے حوالے سے بھی کچھ خبریں زیر گردش ہیں مگر یہ دیکھنا پڑے گا کہ ایسی قانون سازی کے اثرات کیا ہوں گے۔ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے جوابی حکمت عملی بھی تیار کی جا رہی ہے اور ایسی کسی ترمیم کی صورت میں متاثرہ ججز اجتماعی طور پر مستعفی بھی ہو سکتے ہیں جس سے سپریم کورٹ تقسیم ہونے کا خدشہ ہے اور ملک کا بنیادی ڈھانچہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہے گا۔ 2006ء میں اُس وقت کے چیف جسٹس ناظم صدیقی نے بھی ججز کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی کوشش کی تھی مگر ججز میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج افتخار محمد چودھری نے شدید مزاحمت کی تھی۔ جسٹس ناظم صدیقی اور جسٹس افتخار چودھری کی اس معاملے کو لے کر تلخ کلامی بھی ہوتی تھی جس پر جسٹس تصدق جیلانی نے بینچ ہی توڑ دیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ حکومت سپریم کورٹ میں یکجہتی برقرار رکھنے کے لیے ایسی کسی ترمیم سے گریز کرے گی۔
الیکشن کے متنازع نتائج‘ ملک میں سیاسی انتشار‘ خلفشار‘ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی نمائشی کارکردگی اور کرپشن و ناقص انتظامی کارکردگی کی وجہ سے گزشتہ سال 8036 کمپنیاں پاکستان چھوڑ کر دبئی چلی گئیں۔ رواں سال جنوری سے جون تک‘ چھ ماہ میں 3968 پاکستانی کمپنیاں دبئی میں رجسٹرڈ ہوئیں۔ ملک میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا وژن تھا لیکن وفاقی حکومت کی ناقص کارکردگی اور وزرا میں مفاہمت کے فقدان کی وجہ سے اس ضمن میں مثبت کام نہیں ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اب اقتدار کی راہداریوں میں یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ مقتدرہ نے وزیراعظم سے جو توقعات لگائی تھیں‘ ان پہ پورا اترنے میں حکومت ناکام رہی ہے۔ درجنوں وزرا‘ مشیران اور کوآرڈینیٹرز کے تقرر سے ملک کی معیشت آئے دن کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔
باخبر ذرائع کے مطابق اکتوبر کے وسط تک اہم فیصلے ہو جائیں گے اور ملکی حالات کو سنبھالنے کے لیے ایک نئے انتظامی بندوبست پر بھی کام ہو رہا ہے۔ مجوزہ نگران سیٹ اَپ کا سربراہ چیف ایڈوائزر ہو گا‘ نگران وزیراعظم یا نگران وزیراعلیٰ کے بجائے اب عہدوں کے نام تبدیل ہوں گے۔ ذہین بیورو کریٹس کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ ملک کا آئین ریاست کے تابع ہوتا ہے اور اگر ریاست کی بقا خطرے سے دوچار ہو تو پہلی ترجیح ریاست کو دی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں حالیہ بحران کے دوران چیف آف آرمی سٹاف نے یہی کیا تھا۔