چند روز قبل وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کے کاغذات اور رجسٹریشن کی جانچ پڑتال کی ہدایت کی تھی۔ اب حکومت نے ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کو ملنے والی فارن فنڈنگ کی نگرانی کا بھی فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں وزیر قانون کی سربراہی میں چھ رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جواین جی اوز کو ملنے والی فنڈنگ کا تفصیلی جائزہ لے گی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق یہ کمیٹی مشکوک اور گرے چینل سے ہونے والی فنڈنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات تجویز کرے گی اور جانچ پڑتال کے بعد این جی اوز کو ملنے والی مشکوک فنڈنگ بلاک کردی جائے گی۔ علاوہ ازیں این جی اوز کے فارن فنڈنگ کے استعمال کی مکمل نگرانی کی جائے گی۔ اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ نے انٹرنیشنل این جی اوز کی رجسٹریشن مسترد ہونے اور ایم او یوز کی تجدید نہ ہونے کے ضمن میں درخواستوں کا جائزہ لیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ہر درخواست کا فردا ًفردا ًتفصیلی جائزہ لینے کے بعد 15 دن کے اندر سکروٹنی کا عمل مکمل کرکے تمام درخواست دہندگان کو آگاہ کیا جائے گا۔ این جی اوز کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ وزارتِ داخلہ کی معاونت کریں اور متعلقہ دستاویزارت بروقت فراہم کریں۔ یہ درخواستیں اُن این جی اوز کی طرف سے دی گئی ہیں جنہیں پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے یا انہیں دوبارہ رجسٹریشن کے لیے کہا گیا ہے یا پھر وہ جن کے معاہدے حکومت کے ساتھ ختم ہوگئے ہیں اور اب انہوں نے معاہدے کی تجدید کے لیے درخواست دی ہے۔میں ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کے طریقۂ کار کو بخوبی جانتا ہوں۔ میں نے اس ضمن میں ایک مقتدر شخصیت کو تجویز دی تھی کہ این جی اوز کو ملنے والی امداد کو سٹیٹ بینک آف پاکستان سے منسلک کر دیا جائے جس سے ان کی فنڈنگ کی نگرانی آسان ہو جائے گی۔ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور نیپال میں غیر ملکی این جی اوز کو اُن ممالک کے مرکزی بینکوں سے منسلک کیا گیا ہے جو ان کو ملنے والی فنڈنگ پر مکمل چیک اینڈ بیلنس رکھتے ہیں۔ 2017ء میں ایک غیرملکی این جی او کی معاونت سے پاکستان کے حساس مقامات کے سروے کی کوشش کی گئی تھی جس پر میں نے اس وقت کے سکیورٹی امور کے مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کو رپورٹ بھجوائی تھی اور ان کی بروقت کارروائی پر اس غیر ملکی تنظیم کے منصوبے کو ناکام بنا دیا گیا تھا۔این جی اوز کو ملنے والی غیرقانونی فنڈنگ کا راستہ روکنے کے لیے وزارتِ اقتصادی امور سے بھی معاونت حاصل کرنی چاہیے۔ اندرونِ ملک فعال ملکی و غیرملکی این جی اوز کے آڈٹ کو پبلک کرنے کے لیے تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کرایا جانا چاہیے تاکہ یہ فنڈنگ ملک میں شدت پسندی یا دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو سکے۔
امن و امان کی صورتحال بالخصوص بلوچستان کے حالات کی بات کی جائے تو دہشت گردی کے بڑھتے واقعات پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بلوچستان کے حالات اربابِ اختیار کے تصور سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔ بلوچستان میں شدت پسندتنظیمیں پسپا ہونے کے بجائے مضبوط ہورہی ہیں اور اس کا ثبوت ان تنظیموں کے پاس جدید ترین مواصلاتی نظام‘ جدید ہتھیار اور نائٹ ویژن دوربینوں کی موجودگی ہے۔شاید یہ وہی ہیں جو امریکی جاتے ہوئے افغانستان میں چھوڑ گئے تھے۔ ان تنظیموں کے دائرہ کار کے پھیلاؤ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اب اپنے مذموم مقاصد کیلئے خواتین کو خود کش حملوں میں استعمال کرنے لگی ہیں۔ پاکستان اور بلوچستان کی ترقی کے دشمن ان تنظیموں کو فنڈزفراہم کر رہے ہیں لہٰذا ان تنظیموں کے خاتمے کیلئے ان کی بیرونی فنڈنگ کا راستہ روکنا ازحد ضروری ہے۔ بدترین معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کی موجودگی میں بلوچستان سے دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ ایک مشکل ٹاسک ہے۔گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اسی جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ فوج کا کام دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کو کلیئر اور عارضی طور پر ہولڈ کرنا ہے۔ اس فیز کے بعد بنیادی کردار صوبائی اور مقامی حکومتوں کا ہے جنہوں نے وہاں معاشی اور سماجی منصوبے لانے ہیں۔پاکستان کی بہادر افواج ان تنظیموں کے خلاف لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں اور 70ء کی دہائی سے اب تک انہیں ہمیشہ پسپا کیا ہے لیکن ان ملک دشمن عناصر کے خاتمے کیلئے تمام سیاسی و سماجی جماعتوں کو متحد اور افواجِ پاکستان کی پشت پر کھڑا ہونا ہوگا۔
حالیہ دنوں کا ایک اور اہم واقعہ معروف ماہرِ اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا تین حکومتی کمیٹیوں سے استعفیٰ ہے جو انہوں نے حکومتی فیصلوں پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے دیا ۔ قیصر بنگالی کفایت شعاری‘ رائٹ سائزنگ اور اخراجات میں کمی کی کمیٹیوں کے رکن تھے۔ اپنے استعفے میں انہوں نے اخراجات میں کمی کے حکومتی عزم کے فقدان کا حوالہ دیتے ہوئے حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے ان تینوں کمیٹیوں کو اہم قرار دیا۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق تینوں کمیٹیوں نے 70 سرکاری اداروں اور 17 سرکاری کارپوریشنز کا جائزہ لیا اور اخراجات میں کمی کے لیے 17 ڈویژن اور 50 سرکاری محکمے بندکرنے کی تجویز دی لیکن حکومت ان تجاویز کے برخلاف اقدامات کر تی رہی۔ ان کے مطابق سرکاری محکموں سے بڑے افسران کو ہٹایا جائے توسالانہ 30 ارب روپے کے اخراجات کم ہوسکتے ہیں لیکن حکومت گریڈ ایک سے 16 کے چھوٹے ملازمین کو فارغ کر رہی ہے اور گریڈ 17 سے 22 کے افسروں کی نوکریوں کو بچایا جا رہا ہے۔یہ طرزِ عمل واضح کرتا ہے کہ حکومت کفایت شعاری پالیسی بنانے میں کس حد تک سنجیدہ ہے اور یہ کہ اس ضمن میں عملی اقدامات اس کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ انہی اقدامات کی وجہ سے معیشت وینٹی لیٹر پر پڑی ہے اور آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے مزید قرض کے لیے تگ و دو کرنا پڑ رہی ہے۔ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کے اعتراضات سنجیدہ نوعیت کے ہیں‘میاں نواز شریف کو چاہیے کہ وہ ان سے تحریری رپورٹ حاصل کریں اور یہ رپورٹ اپنی سفارشات کے ہمراہ وزیراعظم شہباز شریف کو بھجوائیں اور ان کی توجہ ان سفارشات پر عملدرآمد کی طرف دلائیں۔ڈاکٹر قیصر بنگالی معروف ماہرِ اقتصادیات ہیں۔ وہ 1990ء کے الیکشن میں عمر اصغر خان مرحوم کی ٹیم کا حصہ تھے۔ انہوں نے 1990ء کے الیکشن پر ایک وائٹ پیپر بھی شائع کیا تھا جسے اُن انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نواز شریف حکومت اور اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) نعیم الدین احمد نے مسترد کر دیا تھا۔ اُس وقت کے صدرِ مملکت غلام اسحاق خان نے بھی الیکشن کمیشن کی حمایت کرتے ہوئے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا تھا۔ قیصر بنگالی 1993ء میں سندھ میں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے مالی امور کے مشیر بھی رہے۔ بعد ازاں ان کی ایمانداری اور غیرجانبداری کو دیکھتے ہوئے وفاقی حکومت نے بھی ان کی خدمات حاصل کیں۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کی کفایت شعاری کے لیے حکومت کو دی جانے والی تجاویز حقیقت پر مبنی نظر آتی ہیں‘ لیکن ان تجاویز پر عملدرآمد کے بجائے حکومت نے افسر شاہی کو بچاتے ہوئے گریڈ 16 تک کے ملازمین کی چھٹی کرانے کی تیاری کر لی ہے۔ حکومت نے کفایت شعاری کے نام پر یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو ختم کر دیا ہے اور اب اس کارپوریشن کے ہزاروں ملازمین اپنی نوکریاں بچانے کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ چھوٹے ملازمین کے بجائے بڑے افسران کو نوکریوں سے نکالنا اس لیے ضروری ہے کہ ایک بڑا افسر حکومت کو ماہانہ دسیوں لاکھ روپوں میں پڑتا ہے۔ شنید ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک کی تنخواہ 40 لاکھ روپے ماہانہ ہے جبکہ مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ حکومت اگر کفایت شعاری کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو اعلیٰ عہدیداروں کی تنخواہوں اور مراعات کا از سرنو جائزہ لینا چاہیے۔ موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں ضروری ہے کہ اخراجات میں کمی کے لیے کفایت شعاری کمیٹی نے جو سفارشات پیش کی ہیں اُن پر من وعن عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔