وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں 185 ملین آبادی کا ذکر کیا۔ شعبہ مردم شماری کا اندازہ 183 ملین سے کچھ زیادہ ہے۔ میڈیا اور سیاست میں ہر کوئی’’18کروڑ عوام‘‘کی بات کرتا ہے ۔ ہماری آبادی کتنی ہے ؟ کسی کو معلوم نہیں کیونکہ 15 سال سے کسی نے گنتی ہی نہیں کرائی۔ میاں نواز شریف کو وہ پریشانی نہیں جو صدر آصف علی زرداری کو تھی۔ اس لیے وہ اسی سال مردم شماری کا حکم دے سکتے ہیں۔ پچھلی دفعہ بھی انھوں نے ہی 1998ء میں کرائی تھی، گو اس میں سات سال کی تاخیر ہو گئی تھی۔ دو سال کی تاخیر تو اب بھی ہو چکی۔ انگریزوں کے دور میں 1881ء سے ہر دہائی کے پہلے سال میں مردم شماری کرانے کا سلسلہ شروع ہوا، جیسے 1911ء، 1921ء، 1931ء، وغیرہ۔ آزادی کے بعد پہلی مردم شماری 1951ء میں ہوئی۔ (اس کی تیاری کے دوران لطیفہ یہ ہوا کہ عملہ نے صحافیوں کو \"ارباب نشاط\" میں شامل کر دیا۔ اس پر بڑا واویلا ہوا اور عملہ کو تصحیح کرنا پڑی۔) یہ پہلی اور آخری مردم شماری تھی، جو ایک سیاسی حکومت نے بروقت کرائی۔ اس کے بعد سیاست کاروں نے کبھی اسے ضروری اہمیت نہ دی۔ چنانچہ فوجی حکمران ہی بروقت مردم شماری کراتے رہے ۔ (صرف 1971ء کی بجائے 1972ء میں ہوئی کیونکہ مشرقی پاکستان کے حالات سازگار نہ تھے ۔) مردم شماری ہر قسم کی منصوبہ بندی کی بنیاد ہوتی ہے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کتنے لوگوں نے گائوں چھوڑ کر شہر کا رخ کیا ہے ، کتنے نئے مکانات درکار ہیں، پانی، بجلی، آب رسانی ،نکاسی آب، صفائی، وغیرہ کی کتنی ضرورت ہے ، کتنے سکول اور کتنے ہسپتال چاہییں۔ غرض، تمام ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی کے آبادی کے تازہ ترین کوائف ضروری ہوتے ہیں۔ سماجی، معاشی اور دوسرے امور پر تحقیق بھی اسی بنا پر ہو سکتی ہے ۔ 1991ء میں مردم شماری ملتوی کر دی گئی اور پھر سات سال تک ہر حکومت ملتوی کرتی گئی۔ مسئلہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ان ارکان نے کھڑا کیا، جو دیہی علاقوں سے منتخب ہو کر آتے تھے ۔ انھیں معلوم تھا کہ دیہات سے بہت سے لوگ روزگار، تعلیم، صحت اور دوسری ضرورتوں کے لیے شہروں کو جا رہے ہیں۔ ہر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندی ضروری ہوتی ہے ۔ اس طرح دیہی آبادی کے نمائندوں کی تعداد کم ہو جائے گی۔ چنانچہ ہر حکومت ان کے دبائو میں آ کر مردم شماری ملتوی کرتی رہی۔ آخر 1998ء میں حکومت نے اعلان کیا کہ نئی مردم شماری کے باوجود نئی حلقہ بندی نہیں ہوگی۔ تب کہیں کام شروع ہونے دیا گیا۔ مردم شماری تو ہو گئی لیکن تاخیر سے نقصان یہ ہوا کہ اس کا تقابل پچھلی دہائیوں سے ممکن نہ رہا کیوں کہ یہ 17سال کے بعد ہو رہی تھی، جب کہ تقابل کے لیے میعاد ایک سی (دس سال) ہونی چاہیئے ۔ اصولی طور پر اگلی مردم شماری 2001ء میں ہونی چاہیے تھی تاکہ ہر دہائی کے پہلے سال میں کرانے کا باقاعدہ سلسلہ پھر سے شروع ہو جائے ، لیکن صرف تین سال بعد کرانا بھی صحیح نہ ہوتا۔ اب توقع تھی کہ اگلی مردم شماری 2011ء ہی میں ہوگی۔ بعد میں ہر دس سال بعد وقت پر ہوتی رہی تو تسلسل قائم ہو جائے گا۔اچانک 2008ء میں مردم شماری کا اعلان ہوا۔ متعلقہ ادارہ کے سربراہ نے یہ نہ دیکھا کہ صحیح وقت کیا ہے ، بس یہ دیکھا کہ کئی بلین روپے کا بجٹ ہے ۔ یہ رقم بعد میں آنے والے کے لیے چھوڑنے کی بجائے خود ہی کیوں نہ خرچ کی جائے ۔ تاہم کسی نہ کسی طرح التوا ہو گیا۔ یہاں تک کہ 2011ء آ گیا۔ پروگرام کے مطابق مارچ میں خانہ شماری ہوئی۔ چھ ماہ بعد ستمبر کے آخر میں مردم شماری ہونی تھی۔ اچانک صدر آصف علی زرداری کا حکم آ گیا کہ مردم شماری روک دی جائے ۔ اس کی بجائے ووٹر لسٹوں کی تصدیق و تصحیح کا کام پہلے کیا جائے ۔ تصدیق و تصحیح تو اس سال تک ہوتی رہی لیکن مردم شماری، جو چند دنوں میں ہو جانی تھی، نہ ہو سکی۔ ہوا یہ کہ عین وقت پر کسی نے زرداری صاحب کے کان میں پھونک ماری کہ مردم شماری کے نتیجہ میں کراچی، حیدرآباد، میرپور جیسے شہری علاقوں کی آبادی زیادہ نظر آئے گی۔ چنانچہ جب نئی حلقہ بندی ہوگی تو ان کی سیٹیں قومی اور صوبائی اسمبلی میں بڑھ جائیں گی۔ اس طرح پیپلز پارٹی کو نقصان ہوگا، جسے سندھ کے دیہی علاقوں سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں۔ زرداری صاحب کی بلا جانے کہ مردم شماری کی کیا اہمیت ہے ۔ انہیں تو بس اپنے سیاسی نقصان کو روکنا تھا۔ اگر یہی مسئلہ تھا تو اعلان کر دیتے کہ قانون جو چاہے کہے ، نئی حلقہ بندی نہیں ہوگی۔ اس طرح مردم شماری تو بروقت ہو جاتی۔ اب بھی قانون میں ترمیم کر دینا بہتر ہوگا کہ حلقہ بندی مرکزی حکومت کی مرضی پر منحصر ہوا کرے گی، وہ جب چاہے کرائے ۔ مردم شماری کا اس سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اس طرح مردم شماری بروقت ہوتی رہے گی۔ التوا کے جواز میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق و تصحیح کے ساتھ سیلاب زدگان کی بحالی کو بھی شامل کر لیا گیا، حالانکہ مردم شماری میں تو جو جہاں ہو وہیں گن لیا جاتا ہے ۔ دہشت گردی کا بھی ذکر کیا گیا۔ جب ایسی وجوہ الیکشن ملتوی کرنے کا سبب نہیں بنتیں تو مردم شماری کے لیے کیوں ان کا سہارا لیا جائے ؟ یہ صحیح ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ووٹر لسٹیں درست کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اس کے لیے مارچ 2112ء تک کی مہلت دی گئی تھی۔ بعد میں اس میں اضافہ بھی ہوتا رہا کیوں کہ الیکشن بہت دور تھے ۔ مردم شماری تو چند دنوں کا کام تھا۔ رہا امن، تو کب ایسا وقت آِیا کہ ملک بھر میں ہر طرف امن اور سکون تھا؟رکاوٹ تو کسی بھی قسم کی ہو سکتی ہے ۔ 1998ء میں کوئٹہ میں مردم شماری کے دوران ہنگامے ہو گئے ۔ پشتون کہتے تھے کہ افغان مہاجرین کو بھی شامل کیا جائے جبکہ بلوچ اس کے خلاف تھے ۔ چنانچہ کوئٹہ کی آبادی صحیح طور پر شمار نہ کی گئی۔ کسی نے مشورہ دیا کہ کوئٹہ والوں کو مک مکا کر لینا چاہیے تھا، جیسے ایک عرب ملک نے کیا۔ امریکیوں نے 1930ء کی دہائی میں اس ملک کا تیل نکالنا شروع کر دیا۔ اسی دوران کسی نے سوچا کہ ملک کی آبادی معلوم کی جائے ۔ مردم شماری تو کبھی نہ ہوئی تھی اور نہ کسی نے اس کی ضرورت محسوس کی تھی ۔ ایک ماہر کو بھیجا گیا کہ ملک بھر میں گھوم پھر کر آبادی کا تخمینہ لگائے ۔ وہ کام شروع کرنے سے پہلے ملک کے سربراہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سربراہ نے اجازت بھی دی اور سار انتظام بھی کر دیا۔ ساتھ ہی ماہر کو تاکید کی واپسی پر مل کر جائے ۔امریکی ماہر کئی ماہ بعد لوٹا۔ اس نے بتایا کہ اس کے اندازہ کے مطابق آبادی چھ ملین ہے ۔سربراہ مملکت نے زور دے کر کہا، ’’نہیں، نہیں، اتنی کم نہیں ہو سکتی۔ ہماری آبادی آٹھ ملین ہے ۔‘‘ماہر رعایا میںسے تو تھا نہیں۔ ویسے بھی آداب کا زیادہ لحاظ نہ رکھتا تھا۔ وہ اپنی بات پر اڑا رہا۔ ادھر سربراہ کی نظر میں کم آبادی ملک کی شان کے خلاف تھی۔ تاہم جب دیکھا کہ امریکی اپنی بات پر اڑا ہوا ہے تو کہا، ’’چلو، نہ تمھاری بات اور نہ میری۔ سات ملین پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔‘‘