اس کالم کے عنوان سے یہ بالکل نہ سمجھیں کہ کرکٹ ورلڈ کپ کی بات ہو رہی ہے بلکہ جس ہلچل کا ذکر ہونے جا رہا ہے وہ چینیوں کے نئے قمری سال (Lunar Year) کے آغاز سے متعلق ہے جسے جشن بہاراں (Spring Festival) کہا جاتا ہے۔ اس تحریرکو آپ اس سلسلے کی پہلی قسط اور آج کل کے دنوں کی لائیو کمنٹری سمجھ سکتے ہیں ۔ یوں تو اس بار نئے سال کا آغاز 18 اور 19فروری کی درمیانی شب سے ہو گا لیکن چینیوں کے اندرون اور بیرون ملک سفر کی ہلچل کے مشہور چالیس دنوں کا آغاز چھ فروری سے ہو گیا ہے جو سولہ مارچ تک جاری رہے گی۔ اس تہوار کو اپنے خاندان کے ساتھ منانے کے لئے کروڑوںباشندے اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی سفر کے اس مصروف ترین مہینے کاآغاز ہوتا ہے جس کو اس کرۂ ارض پر اس دوران سب سے زیادہ لوگوں کے بیک وقت سفر کرنے کا عالمی ریکارڈ سمجھئے۔ ہمیں توفروری کے آغاز سے ہی فضاء میں تبدیلی کا احساس ہوگیا تھا جب ہمارے رہائشی بلاک اور اردگردکی عمارتیں سرخ رنگ کے ریشمی کپڑے اور سنہری جالیوں سے مزین بڑی بڑی لالٹینوں سے سج گئی تھیں۔ خربوزے کی شکل کی طرح نظر آنے والی یہ سرخ لالٹینیں، جن کے نیچے سنہری جھالریں لٹک رہی ہوتی ہیں چینی نئے سال کی سجاوٹ کا سب سے اہم اور نمایاں حصہ ہوتی ہیں۔ ان کے اندر عموماً بلب ہی لگے ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ روایتی اور موجودہ دونوں تقاضے ہی پوری کر تی ہیں۔ ان کا سرخ رنگ قدیم چینی روایات کے مطابق بد قسمتی اور بلائوں کو دور بھگاتا ہے۔ بازاروں اور شاپنگ مالز میں اب نئے سال کی خریداری کا موسم بھی زور پکڑ رہا ہے اور دکانیں ہر طرح کے سامان سے بھری پڑی ہیں جن میں خاص طور پر تیار کردہ مٹھائیاں، ٹافیاں ، میوہ جات اور لاتعداد اقسام کی اشیاء انتہائی دیدہ زیب پیکنگ میں نئے سال کے حوالے سے موجود ہیں۔ہر چیز اس تہوار کی مناسبت سے بنا اور سنوار کے رکھی جاتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں نہیں بلکہ کسی رنگا رنگ فیسٹیول میں گھوم رہے ہوں۔
میںاپنے گھر کی طرف آتے ہوئے انڈر گرائونڈ میٹرو ٹرین میں بھی سفری بیگ اٹھائے مسافروں کی تعداد کوہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتا ہوا دیکھ رہا ہوں کیونکہ اس روٹ کے تین آخری اسٹاپس مشہور زمانہ بلٹ ٹرین والے ہونگ چھیائوریلوے اسٹیشن اور ائیر پورٹ ٹر مینلز کے ہیں۔ جب پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ لوگ چند ہفتوں کے دوران سفر کریں گے تو سفری سہولیات فراہم کرنے والوں کے انتظامات اور مصروفیت کا اندازہ لگاناکوئی آسان کام نہیںہے۔ اس دوران ہوائی جہازوں اور ٹرینوں کے لاکھوں چکر لگنے ہیں،بسوں اور گاڑیوں کا ذکر رہنے ہی دیں کہ گنتی نا ممکن اور بے معنی ہے۔ یوں تو چینی نئے سال کے موقع پر تعطیلات کا سرکاری دورانیہ ایک ہفتے سے زیادہ نہیںہوتا لیکن تعلیمی ادارے بند ہونے اور سفر کی طوالت کے باعث بڑی تعداد زیادہ عرصے ہی ان چھٹیوں سے لطف اندوز ہوتی ہے ۔ سفر کے لئے ہفتوں پہلے بکنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اکثر آن لائن ٹکٹنگ کی ویب سائٹس غیر معمولی رش کی وجہ سے کریش بھی کر جاتی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے سفر کی وجہ یہ ہے کہ اکثر چینی باشندے اپنے آبائی علاقوں سے بہت دور کام کر رہے ہوتے ہیں اور سال کا یہ واحد موقعہ ہوتا ہے جب خاندان اکٹھے ہو سکیں۔یہاں اکثر باشندوں سے مراد کروڑوں لوگ ہیں جو بڑے شہروں ،صنعتی اور تجارتی مراکز میں کام کرتے ہیں۔ رقبے میں چین پاکستان سے تقریباً گیارہ گنا بڑا ہے، اس لئے لوگوں کی بڑی اکثریت خصوصاً کم آمدنی والے جو عام ٹرینوں یا بسوں پر سفر کر تے ہیں کئی دن کے سفر کے بعد اپنے قصبے یا گائوں تک پہنچ پاتے ہیں۔ ہمارے گھر جز وقتی کام کرنے والی ملازمہ نے ابھی سے تین ہفتے کی چھٹی کا نوٹس دے دیا ہے جس میں سے تقریباٌ آٹھ روز اس کو اپنے دور دراز کے گائوں آنے جانے میں لگ جانے ہیں اور بقول اس کے سال میں ایک مرتبہ اتنا طویل سفر طے کر کے جانے کے بعد اگر وہ دس بارہ دن وہاں نہ گزارے تو ایسی چھٹی کا فائدہ کیا؟ یہاں برق رفتار بلٹ ٹرینوں سے لے کر عام ٹرینوں سب کا ایک بہت مستعد نیٹ ورک موجود ہے جو ملک کے ہر کو نے تک پہنچا سکتا ہے لیکن بہرحال اب ہر گائوں دیہات میں ٹرین اسٹیشن تو ہونے سے رہا۔ سمجھ لیں رش کے دنوں میں سفر کرنے والوں کی کچھ ایسی ہی حالت ہو جاتی ہے جیسی معین اختر مرحوم کی بے مثال پرفارمنس والے برسوں قبل کے ایک مقبول ٹی وی ڈرامے 'عید ٹرین ‘ میں دکھائی گئی تھی ۔ البتہ یہاں ٹرینوں اور بسوں کی چھتوں پر چڑھنے کی اجازت ہرگز نہیں ہوتی جس طرح ہم پاکستان میں عید کے دنوں میں مشاہدہ کرتے ہیں۔اسی دوران چین میں کام کرنے والے غیر ملکی اور طلباء بھی چھٹیوں پر جانے کے لئے پر تولتے ہیںاور یوں صرف اندرون ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک جانے والی پروازوں پر بھی رش بڑھ جاتا ہے۔غالباً اس دوران اگر خلاء سے کوئی تصاویر لے تو چین کا علاقہ جہازوں کے پیچھے چھپا ہوانظر آئے۔
اس نئے سال کے دن کی تاریخ بھی کچھ ہماری عید بقرعید کی طرح ہی آگے پیچھے ہوتی رہتی ہے۔ عام طور پر یہ جنوری کے آخری دنوں سے لے کر فروری کی بیس پچیس تاریخ کے درمیان آتا ہے اس لئے ہر سال اس کی چھٹیوں کا تعین بھی ایک حکومتی کمیٹی ٹائپ کی چیز کرتی ہے جس میں ہمارے ہاں کی رویت ہلال کمیٹی والا سسپنس بالکل نہیں پایا جاتا، بس سیدھا سا حساب کتاب لگا کر خبر جاری کر دی جاتی ہے۔ اس سال سرکاری اعلان کے مطابق چھٹیاں 18 سے24 فروری تک کی گئی ہیں لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد خصوصاً کاروباری اور پرائیویٹ سیکٹر کے لوگ اپنی چھٹیوں کی منصو بہ بندی اپنی سفری ضروریات کے لحاظ سے کرتے ہیں مثلاً18 اور 19کی درمیانی شب نئے سال کا آغاز ہونا ہے اور اس مو قعے پر خاندان کے ساتھ رات کے کھانے کی دعوت ہی سب سے اہم روایت ہے، اس لئے طویل سفر کرنے والے ان سرکاری تاریخوں سے چند روز قبل ہی نکلنا چاہیں گے، اسی لئے اکثر لوگ اپنی سالانہ چھٹیاں اسی موقعے پر لینا مناسب خیال کرتے ہیں۔ اس تمام منصوبہ بندی کے باوجود مسافروں کا رش اس پورے مہینے اتنا زیادہ رہنا ہے کہ ائیر لائنز ابھی سے مسافروں کو کسی تاخیر کی صو رت میں تحمل سے کام لینے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ ائیر چائنا نے ان چالیس دنوں کے دوران پینتالیس ہزار کے لگ بھگ فلائٹس کے چکر لگانے ہیں۔اسی طرح چائنا سدرن ائیر لائن نے اسی دوران نوے ہزار کی تعداد میں فلائٹس کرنی ہیں اور باقی ائیر لائنز کا بھی کم وبیش یہی حال ہے۔ ٹرینوں کے تاخیر سے روانہ ہونے کا یہاں کوئی رواج نہیں کیونکہ انجن یہاں خراب ہوتے نہیں اور موسم کی خرابی کا ٹرین کے سفر پر کم ہی اثر ہوتا ہے۔
جیسے جیسے لوگ اپنے آبائی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں شنگھائی، بیجنگ اور دیگر بڑے شہروں میں سڑکوں پر ٹریفک کا رش کم ہونا شروع ہو گیا ہے اور نئے سال کی آمد والے دنوں میں تو کافی کم ہو چکا ہوگا اور اس وقت ہی پتا چلتا ہے کہ شہر وںکے مقامی باشندے کون ہیں۔آتش بازی کے سامان اور رنگ برنگے پٹاخوں سمیت نئے سال کی آرائشی چیزوں سے بھرے بازاروں میں خریداروں کا ہجوم بڑ ھتا جا رہا ہے اور ہر طرح کے تحائف کی خریداری بھی عروج پر ہے اس موقع پر کھربوں روپے کی کاروبار ی اور سفری سرگرمیاں متوقع ہیں۔ ہر نیا چینی سال روایتی کیلنڈر کے مطابق کسی نہ کسی جانور سے منسوب ہوتا ہے اوریہ سال بھیڑ (Sheep) کا قرار پایا ہے ۔ اب اس بھیڑ اور دیگر جانوروں کے چینیوں کی زندگی پر کیا اثر ات ہوتے ہیں اور اس سال جس کی تیاری کے لئے یہ ہنگامہ بپا ہے، کے پیچھے کیا فلسفہ اور روایات ہیں، ان کا ذکر آئندہ ہفتے جب اس سال کا پہلا دن شروع ہو رہا ہوگا، بس ذرا ان چینی دوستوںکو اپنے گھروں تک تو پہنچ کر دم تو لینے دیںکہ یہ خود ایک بڑی مہم ہے، پھر یہ بھی جان لیں گے کہ وہاں ہوتا کیا ہے؟