ْْْْدیسی چین کے بدیسی زمانے اور اسپائیڈر مین مودی

اکثر لوگوں کی زبانی گزرے ہوئے زمانے کا سہانا ہونا ہی سنا ہے‘ جب زندگی سادہ تھی ‘دوست مخلص اور بے غرض تھے‘ چیزیں سستی ہوتی تھیں اور سب سے بڑھ کر بڑوں کی عزت کی جاتی تھی۔ اس 'بڑوں کی عزت والی‘ آخری بات نے تو خاصا پریشان کردیا ہے کیونکہ اب ہم بھی اتنے بڑے تو ہو گئے ہیں کہ محض عمر کی بنیاد پر ہی عزت کے حقدار ٹھہرتے اگر وہی پرانا زمانہ ہوتا۔بہر حال وقت اپنی رفتار سے چلتا ہے اور بعض تبدیلیاں تو ناگزیر ہو جاتی ہیں۔ یقینا بڑوں کی عزت ایک ایسا معاملہ ہے جس میں تبدیلی کی ضرورت کوئی محسوس نہیں کرتا۔ اسی طرح جو لوگ ہر تبدیلی کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں وہ بھی اقلیت بن کے رہ جاتے ہیں۔ یہی معاملہ ممالک کا بھی ہوتا ہے اور شاید اسی وجہ سے ایران اور کیوبا اپنی تنہائی سے نکل رہے ہیں اور شمالی کوریا ابھی تک ماضی کا اسیر بن کر اپنے لوگوں کو خوار کررہاہے۔ 
چین کی پانچ ہزار سالہ تہذیب کی اپنی خوبیاں اور اپنی خوبصورتی ہے لیکن اس بات کا کیا کریں کہ اکثر چینیوں خصوصاً شہری بابو ٹائپ کے چینیوں کے نزدیک بعض بدیسی روایات بھی دیسی ہی ٹھہرتی ہیں۔ میرے رہائشی بلاک سے محض چند منٹ کے پیدل فاصلے پر ایک ہوٹل اور اس سے متصل لان میں اکثر دوپہر یا شام کو شادی کی تقاریب منعقد ہوتی ہیں ۔ دلہن نے مغربی انداز کا وہی خوبصورت سفید رنگ کا لباس پہنا ہوا ہوتا ہے جس کو پہن کر ہالی وڈ کی اداکارائیں فلموں میں گلدستہ اچھالتی نظر آتی ہیں۔ فرق بس اتنا ہوتا ہے کہ یہاں سیاہ سوٹ پہنے اور ٹائی باندھے دُلہا سفید لباس میں ملبوس دلہن کو کسی قسم کے مذہبی عہد و پیمان نہیں کرنے پڑتے کیونکہ وہ شادی کی رجسٹریشن پہلے ہی دفتر میں کروا چکے ہوتے ہیں۔ تصاویر خصوصی طور پر بنوانے کا تو یہ حال ہے کہ چاہے آندھی ہو یا طوفان نئے شادی شدہ جوڑے ماہر فوٹو گر افرز کے ہمراہ آئوٹ ڈور شوٹنگ میں ایسے مصروف نظر آتے ہیں کہ کسی فیشن میگزین کی فوٹو شوٹ معلوم ہوتی ہے۔کچھ عرصے قبل ایک قریبی شہر نان تھو نگ جانا ہوا۔ یہ مشرقی چین کا ایک مالدار ساحلی شہر ہے۔ وہاں کی سیر کے دوران ایک خوبصورت اور قدیم حویلی نما گھر دیکھا جو ایک پرانی اور معروف شخصیت کی ملکیت رہ چکا تھا۔ اس جگہ پر‘ جسے اب سیاح دیکھنے آتے ہیں‘ کئی جوڑے عروسی لباسوں میں تصاویر بنوا رہے تھے۔ ان کے ہمراہ فوٹو گرافرز اور ان کے معاونین چھتریاں اور کیمرے تھامے بھاگ دوڑ میں مصروف تھے ۔ کوئی جوڑا سیڑھیوں کے ساتھ کی دیوار پر آدھا جھکا ہوا پوز دے رہا تھا تو کسی کو خوبصورت کیاری یا درخت کی اوٹ سے مسکرا کر یہ یاد گار تصاویر بنواتے دیکھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان جوڑوں کے ہمراہ کوئی رشتہ دار یا دوست نہ تھے یعنی نہ پلو سنبھالتی سہیلیاں اور نہ کانوں میں سر گوشیاں کرتے دوست۔ اس طرح کے مناظر اب چین کے جدید شہروں کے خوبصورت مقامات پر نظر آنا ایک عام سی بات ہے۔ یہاں موجوداپنے چینی ساتھی سے جب مغربی طرز کے عروسی لباس کے متعلق دریافت کیا تو اس نے کندھا اچکا کر مسکراتے ہوئے کہا کہ اب تو یہ یہاں ایک مقبول ٹرینڈ ہے۔ مزید اضافہ کرتے ہوئے اس نے یہ بھی بتا دیا کہ خود اس کی بیوی کا بھی شادی کے موقع پر اسی لباس پر اصرار تھا۔ اتفاق سے اسی دن ایک مقامی میوزیم میں شادی کے روایتی جوڑے یعنی لباس سجے دیکھ کر اس نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس قسم کا جوڑا اس کی دادی نے اپنی شادی پر پہنا تھا۔ میں نے دیکھا کہ نسبتاً بھاری بھرکم سرخ لباس روایتی سی کڑھائی کے ساتھ وہاں آویزاں تھا۔ ان عروسی لباسوں کے بارے میں میرے سوالات سن کر اس نے بھی پاکستان میں شادی کے ملبوسات کے بارے میں سوال کر ڈالا۔ میرا جواب بڑا سادہ سا تھا کہ ہم اس معاملے میں روایتی اور جدید انداز ملا کر اپنی ہی طرز کے جوڑے بناتے ہیں البتہ ان کی لاگت سن کر لوگوں کا چہرہ اتنا ہی سفید ہو جاتا ہے جتنا ماڈرن چینی دلہن کا سفید جوڑا۔
چین کے لوگوں کے دنیا بھر سے بڑھتے ہوئے رابطوں کو بھی اب کم وبیش تین عشروں سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ ان رابطوں کے باعث 
یہاں ہر طرح کے مغربی اور بین الا قوامی رجحانات پروان چڑھ رہے ہیں۔ یہاں کے لوگوں پر کسی قسم کی مذہبی بندش نہ ہونے کے باعث اس تبدیلی کی رفتار بھی خاصی تیز ہے۔ گو کہ ایک معقول تعداد بدھ یا تائو مذہب کی پیرو کار ہے لیکن ریاست کے لا دین ہونے کی وجہ سے یہ (مذہب) ذاتی یا کسی حد تک سماجی حدود میں ہی رہتا ہے۔ کھانے پینے کا معاملہ ہو یا پہننے اوڑھنے کی بات کوئی ایسی قدغن نہیں کہ انہیں نام نہاد مغربی طرز زندگی سے کوئی الجھن محسوس ہوتی ہو۔بدلتے چین کے باشندے ذاتی اور سماجی سطح پر جس طرز زندگی میں سہولت محسوس کریں وہ اختیار کر لیتے ہیں اور اکثریت یورپی اور امریکی انداز کو زیادہ پُرکشش محسوس کرتے ہیں۔ آج اگر چین کا امیر اور مڈل کلاس طبقہ مغرب زدہ ہو رہاہے تو ا س کی زیادہ وجوہ کاروباری مفاد‘ گلیمر اور برتر ٹیکنالوجی میں مضمرہیں۔ یہ لوگ جرمنوں کی ٹیکنالوجی کے پرستار ہیں تو امریکی باسکٹ بال کے شوقین‘ فرانس والوں کے ساتھ مل کر وائن کشید کرنا چاہتے ہیں تو اٹلی والوں کے ساتھ فیشن ڈیزائننگ۔ نوجوان نسل کورین پاپ میوزک کی مداح ہے اور لاطینی رقص سالسہ اور دیگر اقسام بھی اپنی جگہ بنا رہی ہیں۔ اور تو اور پوری دنیا کو ہندوستانی یوگا کا جو بخار چڑھا ہوا ہے تو چینی اس میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔کسی مذہبی تہوار پر تعطیل تو نہیں ہوتی لیکن کرسمس کے درخت اور سجاوٹیں عام ہیں ۔چینی نام کے ہوتے ہوئے ایک انگریزی نام بھی رکھ لیا جاتا ہے‘ کوئی' ڈیوڈ چانگ ‘ہے تو کوئی 'کیتھی لی‘ اہم بات کمیونیکیشن کی آسانی ہے۔ 
ان تمام تبدیلیوں اور اثرات کے باوجود چینی ریاست اور حکمرانوں کی قوم پرستی بھی ایک منفرد ہی مثال ہے۔ ہندوستانی وزیر اعظم مودی جو آج کل اسپائیڈر مین کی طرح دنیا بھر میں چھلانگیں لگا رہے ہیں‘ چین کے حالیہ دورے میں بڑی عزت افزائی اور وی آئی پی پروٹوکول کے حقدار ٹھہرے اور اربوں ڈالر کے تجارتی معاہدے بھی کئے ‘لیکن عین ان کے دورے کے دوران چینی سرکاری ٹی وی پر دکھائے جانے والے نقشوں میں کشمیر کو ہندوستان کا حصہ نہیں دکھایا گیا‘ جس پر انڈین میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ تڑپ کر رہ گئے۔اسی طرح تبت کے مسئلے پر بھی یہ انڈیا کو کوئی رعایت دینے پر تیار نہیں البتہ اربوں ڈالر کی تجارت پر کوئی قد غن نہیں۔ اگر مودی چینی صدر کے آبائی گھر میں جا کر فوٹو سیشن کروانا چاہتے ہیں تو بڑی خوشی سے آئیں چینیوں کو کیا اعتراض‘ آخر دونوں ملکوں کی تجارت میں چین کا پلہ ہی تو بھاری ہے۔ جہاں چینی معاشرہ دنیا بھر کے اثرات کو جذب کر رہا ہے اور لوگ بدل رہے ہیں وہاں ریاست کا اپنا ایک ورلڈ ویو اور منصوبہ ہے جس کو سمجھنا راکٹ سائنس سے بھی مشکل ہے۔ ایک موٹی سی بات ضرور سمجھ آتی ہے کہ چینی سب سے بڑھ کر اپنے دوست ہیں‘ اس لئے بدلتے وقت کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں اور شاید سب کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ وقت کے ساتھ چلنے سے سب کچھ نہیں بدلتا‘ صرف زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں