کر پشن کے آئٹم نمبر والے گانے

کمرشل فلموں میں جہاں مشہور فلمی اسٹارز کی بڑی اہمیت ہوتی ہے وہیںچند کامیاب فارمولے بھی ان فلموں کا حصہ ہوتے ہیں۔ آٹھ دس سال قبل ہندوستان کی بہت بڑی اور منافع بخش فلم انڈسٹری کی ایک فلم میں ایک تھرکتی ہوئی رقاصہ کے ہیجان انگیز گانے اور اس کے ارد گرد خوشی میں مست ناچتے پولیس والوں کو کیا دکھایا گیا‘ اسی نوعیت کے گانے فلموں کی کامیابی کے لئے لازمی سمجھے جانے لگے۔ سمجھیں ایک فارمولا فلمسازوں کے ہاتھ آگیا اور 'منی بدنام ہوئی‘ نے تو اسے عامیانہ زبان کے ایک محاورے کی شکل دے ڈالی۔ پاکستان کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی چند ایک فلموں(سب نہیں) نے بھی آئٹم سونگ سے ملتے جلتے تجربات کرنے کی کوشش کی ہے۔ شو بزنس کی دنیا میں چکا چوند اور نمائش کا پہلو کوئی انہونی بات نہیں البتہ ابتدائی آئٹم نمبر والے گانے میں پولیس کو ناچتا دیکھ کر نہ جانے کیوں‘ یہ خیال ضرور آتا ہے کہ اسے پہلے پہل بنانے والوں کے ذہن کے کسی گوشے میں کرپشن اور گلیمر کے گٹھ جوڑ کا کوئی نہ کوئی خاکہ ضرور تھا‘ جس کو تماش بینوں نے زبردست قبولیت بخشی‘ لیکن جیسے لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اسی طرح کمزور کہانی لیکن زبردست آئٹم نمبر والی فلم کا جواب بھی اچھے اسکرپٹ والی فلم ہی دیتی ہے۔ بالی وڈ کی مقبول اور معقول فلم ' رنگ دے بسنتی‘ کا ایک مکالمہ میری یادداشت کا حصہ بن گیا ہے‘ جس میں اداکار انوپم کھیر‘ جو ایک بد عنوان کاروباری کا کر دار ادا کر رہے تھے‘ فون پر ناجائز کمیشن کی رقم طے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ' یہ ہندوستان ہے‘ یہاں دولہا کے ساتھ پوری بارات کو کھلانا پڑتا ہے‘ ممکن ہے مکالمہ الفاظ میں مختلف ہو لیکن مفہوم کچھ ایسا ہی تھا ۔ بہرحال ہندوستان ہو پاکستان ہو یا چین کرپشن کی بلا سب کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ چین میں کرپشن کی آئٹم نمبر والے گانے کے انداز میں تشہیر نہیں ہوتی‘ بس پکڑے جانے والے کا نام‘ عہدہ یا حیثیت‘ جرم اور سزا کا تذکرہ کافی سمجھا جاتا ہے۔
بدعنوانی اور خصوصاً بڑے پیمانے پر مالی کرپشن مو جودہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرایت کر چکی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی گاڑی کرپشن کے انجن آئل کے بغیر آواز دینے لگتی ہے‘ توکچھ غلط نہ ہو گا۔ چند ماہ قبل ایک کالم میں چین میں جاری کرپشن کے خلاف ایک مہم کا تذکرہ کیا جا چکا ہے‘ جس میں کئی بڑی مچھلیاں پکڑی جا چکی ہیں۔ اسی مہم کے تحت چینی حکام بیرون ملک فرار ہونے والوں کو بھی پکڑ کر لا نے میں مصروف ہیں اور بدعنوانی کرکے بھاگنے والوں کا مختلف ممالک میں تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اب تک کینیڈا‘ آسٹریلیا اور امریکہ کے تعاون سے پانچ سو کے قریب مفرور چینی باشندے پکڑ کرلائے جا چکے ہیں۔ بدعنوانی کے خلاف سخت قوانین اور سزائوں کے عمل سے چینی باشندے کسی حد تک خوش اور مطمئن ہوئے ہیں ۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے لئے بھی یہ ایک ایسا سلگتا مسئلہ تھا جس کو اگر بجھانے کی کوشش نہ کی جاتی تو پارٹی کی ساکھ بری طرح متاثر ہونا تھی۔دنیا کے سب سے بڑے ملک اور دوسری بڑی معیشت نے ریکارڈ ساز ترقی بہت کم مدت میں حاصل کی اور اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی معاشی سر گرمیوں کے دوران ایک اقلیت نے مالی بد عنوانیوں کے گل بھی کھلائے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خوشحالی او ر ترقی کے ثمرات تو عوام تک پہنچے اور ایک بہت مضبوط اور خوشحال مڈل کلاس بھی وجود میں آئی لیکن اسی طبقے کو یہ بھی محسوس ہونا شروع ہوا کہ اسی نظام سے ایک با رسوخ طبقہ کچھ زیادہ ہی مالی فوائد بٹورنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اس طبقے کے اللوں تللوں کی خبریں جب زبان زد عام ہوئیں تو موجودہ چینی صدر شی چن پھنگ کی زیر قیادت بدعنوانی کے خلاف ایک بہت جارحانہ مہم شروع کی گئی جس کی زد میںبہت بڑے نام آئے اور ہرسطح پر کھلبلی بھی مچی۔
چین میں بدعنوانی کے خلاف مہم اور پاکستان میں کرپشن کے برسوں سے جاری آئٹم نمبر گانوں کے سطحی سے موازنے کوآگے بڑھاتے ہوئے میرا محدود مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ چین میںجو بھی پکڑا گیا ْاسے سزا ضرور ہوئی‘ جس میں موت سے لے کر قید و بند تک سب ہی طرح کی سزائیں شامل ہیں۔ میری نظروں سے ایک بھی ایسی خبر نہیں گزری کہ بد عنوانی میں پکڑے گئے افراد کوچھوٹی یا بڑی سزا ئیںنہ ہوئی ہوں۔ پاکستان میں ہائی پروفائل کرپشن کیسوں میں پکڑے جانے اور چھوٹ جانے کا تناسب برابر ہی معلوم ہوتا ہے۔ سنسنی خیز اسکینڈلز کا میڈیا پر ایک میلہ لگتا ہے اور کرپشن کے الزام میں پیش ہونے والوں کا اعتماد اور حاضر جوابی دیکھنے والی ہوتی ہے‘ بالکل ایسے دولہا کی طرح جس کی سپورٹ میں پوری بارات موجود ہو۔ چین میں ملزمان کی لٹکی ہوئی شکلیں اور سفید رنگت دیکھ کر ہی پتا چل جاتا ہے کہ سزا سنانے میں زیادہ مدت نہیں لگنے والی۔اسی طرح مقامی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کرپشن کے ان واقعات کی رپورٹنگ میں محتاط رہتے ہوئے خبر کو صرف اطلاع کا ذریعہ بناتا ہے‘ تبصرے سے گریز ہی کرتا ہے۔ چین کا میڈیا ہمارے والی آزادی کے مزے تونہیں لوٹتا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ جس کرپٹ آدمی کی خبر چھپتی ہے‘ اسے سزا مل کر ہی رہتی ہے ۔ہو سکتا ہے اس مرحلے پر آپ اپنی ران پر ہاتھ مار کر یہ کہیں کہ چین سے ہماری وسیع تر اقتصادی پارٹنر شپ کو چند لوگوں کی کرپشن گہنا نہ دے۔ ایک دلچسپ بات کا مفہوم پڑھ لیں‘ جو غالباً یوسفی صاحب نے کہی تھی کہ 'گوری میموں میں بہت کم بدصورت شکلیں دیکھی ہیں‘ لیکن نجانے ہمارے دیسی کہاں کہاں سے ڈھونڈ کر ان سے شادیاں کر لیتے ہیں‘ بس اگر چین میںکمپنیوں کو اسی اصول کے تحت ڈھو نڈا جائے گا تونتائج بھی ویسے ہی بر آمد ہوں گے۔ 
بڑے پیمانے پر منظم مالی بد عنوانیوںکا تسلسل کسی بھی ملک کی معاشی اور معاشرتی بنیادوں پر لگے وہ ٹائم بم ہیں جن کو جتنا جلدی ناکارہ بنادیا جائے‘ اتنا ہی بہتر ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کے کالے دھن کا حجم اور بے رحم لوٹ مار اب اس سطح پر آگئی ہے کہ ان پر محض آئٹم نمبر والی خبروں یا تشہیر سے بہت آگے بڑھ کر کام کرنا پڑے گا۔ ناجائز ذرائع کی آمدنی بیرون ملک منتقل کرنے اورمصنوعی کمپنیوں کے ذریعے اس کالے دھن کو سفید کرنا ایک چھوٹی موٹی راکٹ سائنس سمجھ لیں ۔ اس طرح کا مال رکھنے میں معروف دنیا کے چند مقامات اور مالیاتی اداروںکے متعلق معلومات اب ایک کھلا راز ہیں۔مالی جرائم کو ثابت کرنا خصوصی مہارت اور ٹیکنالوجی مانگتا ہے اس کے لئے ہر وقت جذباتی گفتگو سے وقتی کیتھارسس اور مستقل مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملنے والا‘ سزا دلوانے کے لئے ایسے ماہرین اور تفتیش کار تیار کرنا ہوں گے‘ جو اس پیچیدہ عمل کو تحمل سے کھو جیں۔ اس کے لئے ہمیں پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں چین سمیت دنیا کے کئی ممالک مالی جرائم کا سراغ لگانے میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں بھی ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ بات بھلا دینی چاہیے کہ کوئی ایک فرد یا چند افراد محض اپنی ایمانداری کی ساکھ سے مالیاتی جرائم کی دنیا سے نمٹ سکتے ہیں۔ اداروں کی صلاحیت میں مسلسل اضافہ اور سسٹم کو موثر بنانے کے لئے مستقل کوششیں‘ خواہ ان کی رفتار بہت تیز نہ بھی ہو‘ بہت ضروری ہیں۔ عدالتیں ناقص تفتیش پر سزائیں نہیں دے سکتیں چاہے کمرہء عدالت میں موجود ہر شخص ملزم کو دل سے قصور وار ہی کیوں نہ سمجھتا ہو۔ کرپشن کرنے والوں کو سر عام سزا پاتے دیکھنے کی خواہش بہت قوی ہی سہی‘ لیکن یاد رکھیں اربوں روپے ڈکارنے والے پوری بارات کو بھی کروڑوں کی دعوت کھلاتے ہیں۔ جب جرم اتنے وسیع پیمانے پر ہو تو اس کے کرنے والوں کی خریدنے کی طاقت بہت مہیب ہو جاتی ہے۔ اسی لئے ان جرائم پر قابو پانے میں وقت بھی لگتا ہے اور کئی ایسے مرحلے بھی آسکتے ہیں‘ جب رسی مزید زور سے کھینچنے کے لئے ڈھیلی بھی کرنا پڑ جائے۔ بڑی مچھلی پکڑنے کے لئے بڑے صبر سے کانٹا ڈال کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں