قدیم چینی گائوں کے اشتہاری باراتی

سر سبز پہاڑوں کے دامن میں گائوں کی چھوٹی سی میدان نما کھلی جگہ کے اطراف میں قدیم مکانات اور تنگ گلیوں کے ساتھ چند ایک دکانیں بھی تھیں۔ زرق برق سرخ‘ پیلے ریشمی گائون نما کپڑے پہنے‘ سر پر کڑھی ہوئی ٹوپیاں سجائے سازندوں کا گروپ آگے تھا‘ جبکہ اس کے پیچھے نیلے کڑھائی والے پاجامے کرتے اور لال واسکٹوں میں ملبوس افراد بینرز تھامے اس طرح آ رہے تھے‘ جیسے کسی میلے کی پریڈ میں مختلف گروپس قطار در قطار آتے ہیں۔ ان رنگ برنگے علم نما بینرز کے ساتھ ہی چار لوگوں نے دلہن کی ڈولی اٹھا رکھی تھی‘ جس کے سرخ پردوں پر ڈریگن سمیت انواع و اقسام کی تصویریں کڑھی ہوئی تھیں۔ اس ڈولی کے ہمراہ سجی سنوری خواتین اور بچے بھی قدیم روایتی لباسوں میں چلے آ رہے تھے۔ ان باراتیوں کے بیچ میں تاج پہنے دولہا صاحب بھی خراماں خراماں دلہن کی ڈولی کا تعاقب کر رہے تھے۔ بارات کے ہمراہ ہم سیاحوں کا گروپ بھی ایک چھوٹی سی حویلی نما گھر کے صحن میں داخل ہو گیا‘ جس کے اطراف میں کمرے اور اوپر پرانی لکڑیوں کے منقّش دالان تھے۔ ڈولی صحن میں رکھ دی گئی‘ جس میں سے دلہن‘ جو سر تا پا سرخ جوڑے اور پردے میں ملبوس تھی‘ نکل کر سامنے ہی ایک چھوٹے سے کمرے میں دولہا کے ہمراہ داخل ہو گئی۔ صحن میں صرف غیر ملکی ہی نہیں بلکہ درجنوں چینی باشندے بھی یہ سب کچھ بڑی حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ کیمرا سنبھالے ان لوگوں کے درمیان سے جگہ بناتے ہمیں بھی اس کمرے کا دیدار نصیب ہوا‘ جہاں ایک چھت والے تخت پر دولہا دلہن براجمان تھے اور سامنے دو موم بتیاں جل رہیں تھیں۔ ایک بوڑھی خاتون روایتی نکاح ٹائپ کی رسومات میں مصروف تھی‘ اور نوبیاہتا جوڑا ایک ہی پیالے سے گھونٹ بھر کر کچھ پی رہا تھا‘ کمرے میں ایک پُراسرار سی تاریکی تھی‘ لیکن وہاں کی سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ دولہا اور دلہن دونوں یورپی باشندے تھے۔ دراصل اس قدیم چینی شادی کا یہ پورا میلہ ایک تشہیری مہم کا حصہ تھا‘ جس کے تحت آنے والے جون‘ جولائی کے سیزن کے دوران یہاں مقامی یا غیر ملکی جوڑے اپنی شادی بالکل اسی انداز میں کر سکتے ہیں‘ جیسے صدیوں قبل اس مقام پر ہوتی تھیں۔ میں غیر ملکی سیاحوں کے ایک گروپ کے ہمراہ شنگھائی کے جنوب میں تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع (Wuyi) کائونٹی کے ایک سرے پر موجود 'ایو یوآن‘ نامی اس گائوں کی سیاحت کے لئے یہاں موجود تھا‘ جسے حکومت کی خصوصی سرپرستی میں ایک تہذیبی ورثے کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے۔ آخر اس گائوں میں ایسی کیا خاص بات ہے‘ جو اس کو اتنی ہمیت دی گئی ہے‘ یہ جاننے کے لئے یہاں کی مزید مٹر گشت کر لیتے ہیں۔
'ایو یو آن‘ نامی یہ گائوں جو تقریباً اٹھارہ سو لوگوں پر مشتمل ہے۔ سر سبز پہاڑوں کے دامن میں گزشتہ دو ہزار برس سے آباد ہے۔ یہاں کی ستر فیصد آبادی 'ایو‘ (Yu) خاندان سے تعلق رکھتی ہے‘ جس نے یہ جگہ آباد کی تھی۔ یہ آبادی ان انتہائی نایاب جگہوں میں سے ایک ہے‘ جس کو بساتے ہوئے قدیم چینی فلسفے کو مدنظر رکھا گیا تھا‘ جس میں آسمانوں (Heaven) اور زمین (Earth) کے درمیان توازن کی خوبصورتی کو قائم کیا جاتا ہے۔ یہاں کے مکانات‘ گلیاں‘ درخت‘ باغات آسمان کی کہکشاں (Galaxy) کی طرح ڈیزائن کئے گئے ہیں‘ جسے تھائی جی آسٹرولوجی (Taiji Astrology) کہا جاتا ہے۔ یہ گائوں چینی تعمیرات کے معروف ترین فلسفے 'فینگ شوئی‘ کی عملی تفسیر بھی ہے‘ جس میں ہوا کی سمت‘ پہاڑوں سے فاصلہ حتیٰ کہ باغات کی جگہوں اور بہتے پانی کی راہداری ہر چیز ایک حساب کتاب سے تشکیل دی جاتی ہے۔ فینگ شوئی کے سائنٹفک آرٹ کا ابتدائی تعارف چند ماہ قبل ایک کالم میں کیا جا چکا ہے۔
یہاں کی پتھریلی گلیوں کے اطراف میں چھوٹے بڑے قدیم گھروں میں رہائش پذیر 'ایو‘ برادری کے لوگ اب سیاحوں کے عادی ہو چکے ہیں‘ کیونکہ حکومت نے اس جگہ کو اسی مقصد کے لئے گود میں لے لیا ہے۔ گائوں کی سب سے نمایاں عمارت اس خاندان کے آبائواجداد کا وہ مرکزی ہال ہے جو در حقیقت ایک بڑی سی حویلی کی طرح ہے۔ یہ جگہ اس خاندان کے سربراہ کی ملکیت تھی۔ یہاں داخل ہوتے وقت مرکزی دروازے پر کافی بلند سی چوکھٹ تھی‘ جس کو عبور کرنے کے لئے خاصا زور لگانا پڑا۔ ہمارے گائیڈ کے بقول یہ اونچائی قدیم زمانوں میں رہائشیوں کے بلند رتبے کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ وہ تو بھلا ہو ہم نے اپنی آزمودہ سخت جان جینز پہنی ہوئی تھی ورنہ بڑے 'ایو‘ صاحب کے رتبے کے سامنے عام پتلون کی سلائی جواب بھی دے سکتی تھی۔ گائوں کے سربراہ کی شاہی حکام سے قریبی نسبت کے باعث یہ حویلی محض رہائش گاہ ہی نہیں تھی‘ بلکہ پورے گائوں کا ایک اسمبلی ہال بھی تھی۔ اس کے عین وسط میں ایک بلند سا چبوترہ بھی دیکھا جا سکتا تھا‘ جو درحقیقت مقامی آبادی کے لئے تھیٹر سمیت ہر اہم تقریب کا فریضہ انجام دیتا تھا۔ تقریباً آٹھ سے دس فٹ بلند اس سٹیج پر قدیم وقتوں میں روایتی تھیٹر اور گانا بجانا ہوتا تھا‘ جس سے یہاں کے لوگ لطف اندوز ہوتے تھے۔ ہمارے گائیڈ کے بقول سٹیج کے سامنے کرسیوں پر صرف اہم لوگ یا مرد حضرات ہی براجمان ہوتے تھے‘ جبکہ عورتیں (کم تر جنس سمجھی جانے کے باعث) اطراف میں کھڑی رہتیں۔ اس چبوترے کے آگے ایک اور کھلی جگہ تھی‘ جس کی چھتیں نہایت بلند اور لکڑی کے مضبو ط گول ستونوں کی مدد سے کھڑی تھیں۔ اس مقام پر شاہی بیوروکریسی اور فوج میں بھرتی ہونے کے لئے مقابلے کے امتحان ہوتے تھے‘ اور ان میں کامیاب ہونے والے طلبا بادشاہوں کی سول سروس یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن جاتے تھے۔ سب سے اعلیٰ درجے کے طلبا وہ ہوتے جو قلم اور تلوار دونوں کے امتحانات میں نمایاں نمبر لیتے تھے‘ یعنی یوں سمجھیں کے جج اور جرنیل دونوں کا رتبہ پا لیتے۔ اسی ہال میں 'ایو‘ خاندان کے بزرگوں کی چند پینٹنگز بھی نصب تھیں‘ اور ان کی شکلوں پر جیسے متمول اشرافیہ کا ٹھپہ سا لگا محسوس ہوتا تھا۔
اس گائوں کی کھلی اور تنگ گلیوں‘ تالابوں‘ چھوٹے پلوں‘ کائی زدہ مکانوں کے درمیان سے گزرنا ایک منفرد تجربہ تھا۔ مقامی لوگ خوش اخلاق اور مہمان نواز تھے‘ جن میں ایک معقول تعداد ان بزرگوں کی تھی جو اب اسی برس سے بھی اوپر کے تھے۔ یہاں کے لوگوں میں طویل عمری ایک عام سی بات ہے۔ حکومت نے یہاں کی دیکھ بھال اور ترقی کے لئے بہت ذہانت سے اننظامات کئے ہوئے ہیں۔ جہاں پرانی چیزوں کو ان کی اصل حالت میں برقرار رکھا ہے‘ وہیں سیاحوں کی سہولت کے لئے گائوں کے داخلی راستے پر ایک خوبصورت ریسٹو رنٹ بھی موجود ہے۔ اس گارڈن نما ریسٹورنٹ میں مقامی ڈشیں پیش کی جاتی ہیں۔ جب ہمارے گروپ کو کھانے سے پہلے لوٹس (Lotus) کا سوپ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پرانے وقتوں میں یہ صرف شاہی خاندانوں اور نوابوں کے لئے مخصوص تھا‘ تو ہم بھی کچھ دیر کے لئے خود کو اکبر اعظم سمجھ بیٹھے۔ اسی دوران یہاں کے سیاحتی کتابچے دیکھے تو یہ انکشاف ہوا کہ اس پورے خطے میں ایسے کئی قدیم گائوں ہیں‘ جن کو ورثے کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے۔ ان دیہات میں یونیورسٹیوں کے غیر ملکی طلبا سمر کیمپ کے تین ہفتے بھی گزارتے ہیں‘ جہاں وہ مقامی باشندوں کے ساتھ گھروں میں رہ کر یہاں کی طرز زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ واپسی پر چند ہی کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد اسی کائونٹی کا صنعتی زون بھی نظر آنے لگا۔ ارد گرد پہاڑوں پر چائے کے باغات بھی اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ یہ حسین خطہ‘ جس کا قدیم ورثہ اتنی محنت سے محفوظ کیا جا رہا ہے‘ چین کے بہت بڑے تجارتی مرکز 'ای وو‘ سے بمشکل تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘ جہاں لاکھوں غیر ملکی تاجر بشمول ہزاروں پاکستانیوں کے اپنے کاروبار جمائے بیٹھے ہیں۔ ایک وسیع و عریض ہول سیل مارکیٹ‘ بقول شخصے جہاں سوئی سے راکٹ تک کا لین دین ہوتا ہے‘ صنعتی زونز‘ سیاحتی مراکز‘ قدرتی گرم پانی کے چشموں والے خصوصی ریزورٹس‘ یہ سب کچھ ہی چینی میونسپلٹی 'جن ہوا‘ (Jinhua) کی مقامی حکومت کا کارنامہ ہے‘ اور یہ پوری دنیا کو خوش آمدید کہنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں