آج کے شنگھائی میں رہتے ہوئے یہ تصور کرنا بہت عجیب سا لگتا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں یہ ایک پر رونق بندرگاہ اور غیرملکیوں کا تو مسکن تھی ہی لیکن بد امنی ‘ افرا تفری اور جرائم کا گڑھ بھی بن چکی تھی۔ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی یہ شہر کئی متوازی جرائم مافیاز میں تقسیم ہو چکا تھا اور 1949ء سے پہلے تک کی تین دہائیاں اس پر رونق شہر کے باسیوں کے لئے بڑی آزمائش ثابت ہوئیں۔ مغربی اقوام افیون کی مشہور جنگوں میں چین کو شکست دے کر نہایت نا منصفانہ معاہدوں کے ذریعے یہاں اپنی تجارتی کالونیاں بنا کر براجمان تھیں۔ چین کی نئی قومی حکومت کمزور اور بدعنوان ثابت ہو رہی تھی اور انہیں کمیو نسٹوں کے سیاسی چیلنج کا بھی سامنا تھا۔ ایک اہم بندرگاہ ہونے کے باعث یہاں تجارتی سر گرمیاں تو بہت زور و شور سے جاری رہتیں لیکن اس کے ساتھ ہی شہر میں کوئی مرکزی عملداری نظر نہیں آتی تھی ‘ یورپین کالونیاں وہ خو دمختار علاقے تھے جہاں چینی پر نہیں مار سکتے تھے سوائے ان کے جو ان طاقتوں کے ٹائوٹ تھے۔ ان خصوصی آبادیوں کے علاوہ جو شہر کے پوش ترین علاقے تھے باقی چینی غربت اور خستہ حالی کا شکار تھے۔ شہر میں ہوٹل‘ نائٹ کلبوں اور دیگر تفریحات تو بہت تھیں ‘ بلکہ شہر مشہور ہی ان کے لئے تھا‘لیکن ان سے لطف اندوز صرف ایک مخصوص استحصالی طبقہ ہی ہوتا تھا۔ اس کشمکش ‘ بد انتظامی نے جو خلاء پیدا کیا وہی شہر میں منظم جرائم کی بنیاد بنا اور پھر یہ شہر کئی عشروں تک ان مافیاز اور ان کے لیڈروں کے شکنجے میں کسا رہا۔اس سے پہلے کہ اس دور میں وہاں کے بدنام مافیا ڈانز کا ذکر ہو شہر کی عمومی حالت کا جائزہ لے لیتے ہیں۔
برطانیہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک سے چین نے دو مشہور جنگیں لڑیں جو تاریخ میں افیون کی جنگوں کے نام سے مشہور ہیں اور ان دونوں جنگوں میں چین کی شاہی افواج کو بری طر ح شکست ہوئی تھی۔ان کو افیون کی جنگوں کا نام بھی اس لئے دیا گیا تھا کہ چینی حکمرانوں نے بر طانیہ کی ہندوستان سے اپنے ملک میں افیون کی درآمد روکنے کی کوشش کی تھی۔ ان شکستوں کے نتیجے میں شنگھائی کی بندرگاہ ایک معاہدے کے تحت ان قوتوں کی عملدآری میں آگئی اور انہوں نے شہر کو اپنی تجارتی کالونیوں میںجو (Concessions) کے نام سے معروف ہوئے تقسیم کرلیا۔ہر محلے کی اپنی ہی پولیس فورس وجود میں آگئی تھی جس کا دوسرے علاقوں میں کوئی عمل دخل نہ تھا ‘ یہ سمجھ لیں کہ شہر میں کئی نو گو ایریاز وجود میں آچکے تھے۔یہ بکھرا اور غیر منظم ماحول جرائم کے لئے بہت ساز گار ثابت ہوا بلکہ اتنا بہترین تھا کہ انڈر گر ائونڈ جرائم کا نیٹ ورک بنانے کی بھی زحمت نہیں کرنی پڑتی تھی۔گو کہ شہر میں سیاسی تحریکوں نے بھی زور پکڑا ہواتھا لیکن اس ماحول میں کسی مؤثر اتھارٹی کے نہ ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ کریمینل گینگز نے اٹھایا۔شہر میں ہوٹلوں ‘ نائٹ کلبوں‘ جوئے کے اڈوں اور افیون کی کھلے عام تجارت سمیت بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان یا اغوا برائے اغوا سب کچھ ہی اس بظاہر چمکتے شہر کے تاریک باطن کا حصہ تھا۔ ان گروپوں میں سب سے طاقتور مافیا گرین گینگ کے نام سے جانی جاتی تھی اور اس کا سب سے طاقتور ڈان ' دو یوئے شنگ‘ نامی ایک چینی باشندہ تھا جسے بڑے کانوں والا شخص بھی کہا جاتا تھا۔ یہ کردار بھی منظم جرائم میں داخل ہونے والے اکثر لوگوں کی طرح ایک نہایت ہی غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ ' دو‘ چودہ برس کی عمر میں شنگھائی آیا اور پھلوں کے ایک اسٹال پر بحیثیت مزدور کام کرنا شروع کیا لیکن جلد ہی گرین گینگ میں شامل ہو کر اپنے جرائم پیشہ کیریئر کا آغاز کر دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ موصوف کی صلاحیتیں نکھرتی گئیں اور اسے بحیثیت لیڈر عروج اس وقت نصیب ہوا جب' فرنچ کنسیشن‘ نامی علاقے کے پولیس چیف کی طاقتور بیوی ' لن گوئی شینگ‘ نے اس کی سرپرستی کا فیصلہ کیا۔پولیس چیف خود بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ یوں مافیا ڈان اور پولیس چیف نے مل کر یہاں اختیارات اور دولت کے خوب مزے لوٹے۔جہاں یہ دور جرائم کے لئے ساز گار ٹھہرا تو وہیں سیاسی انتشار اور جنگوں کا زمانہ بھی تھا ‘ جب شنگھائی میں چین کے سربراہ اور قوم پرست رہنما 'چیانگ کائی شیک‘ اور کمیونسٹوں کی کشمکش شروع ہوئی تو مافیا ڈان جو شہر کی ایک طاقتور اور معزز شخصیت بن چکے تھے ‘ کمیونسٹوں کے خلاف صف آرا ہوئے۔ اس خدمت کے صلے میں چیانگ کائی شیک نے انہیں افیون کی تجارت پر کنٹرول کے قومی بیورو کا صدر مقر ر کردیا یعنی بلی کو دودھ کی رکھوالی کا کام سپرد کر دیا گیا۔
شنگھائی میں منظم جرائم کے اس بادشاہ کا زوال اس وقت شروع ہوا جب جاپان کی فوجیں یہاں قابض ہو گئیں کچھ عرصے مزاحمت کرنے کے بعدیہ بھاگ کر ہانگ کانگ چلا گیا اور جب واپس آیا تو پھر اس کو پرانا اثر و رسوخ نہ مل سکا اور با لآخر یہ واپس ہانگ کانگ چلا گیاجہاں 1951 ء میں اس نے اپنی آخری سانسیں لیں۔ ' دو یوئے شینگ‘ ایک کلاسیک مافیا ڈان تھا بالکل امریکہ کے ان اطالوی نژاد مافیا لیڈروں کی طرح جن پر ناول لکھے گئے اور مشہورفلمیں بنیں۔ اس نے اپنے کالے پیسے کے زور پر نہ صرف شہر کوکنٹرول کیا بلکہ معززین کی صف میں شامل ہو گیا‘ یہ اپنے مخالفین کو نہایت دہشت میں رکھتا‘ لوگوں کے گھر کفن بھجواتا‘ تاجروں کو مٹھی میں رکھتا اور ایک زمانے میں شہر کی سٹاک مارکیٹ اس کے اشارے کے تابع تھی۔ چین میں مجرموں کوبڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا کوئی رواج نہیں لیکن پھر بھی ہانگ کانگ کی فلم انڈسٹری ان موضوعات پر فلمیں بنا چکی ہے۔ اسی طرح کے چند ایک مزید کردار بھی شنگھائی کے اس دور میں جرائم پیشہ گروہوں کے لیڈر بنے رہے۔ گرین گینگ کا ہی ایک نمایاں کردار' ہوآن جن رونگ‘ بھی تھا جو طویل عرصے تک یہاں منظم جرائم کے اس نیٹ ورک کا حصہ رہا۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد اس عمر رسیدہ گینگ لیڈر کو اسی جگہ کی جھاڑو لگاتے دیکھا گیا جو کبھی اس کے کنٹرول میں ہوتی تھی لیکن اس نے تمام سزائوں اور تضحیک کے باوجود شنگھائی نہ چھوڑا اور 85 برس کا ہو کرمفلسی کی حالت میںفوت ہوا۔
سیاسی ابتلاء اور سماجی انحطاط کے اس دور میں شنگھائی میں ہونے والے نمایاں جرائم میں تشدد‘ قتل اور اغوا کی وارداتیں روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھیں۔ہزاروں عورتوں کو اغواء کر کے جسم فروشی اور بچوں کر جبری مشقت کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ وارداتیں اتنی کثرت سے ہوتیں کہ ' کڈ نیپنگ‘ (Kidnapping) کو (Shanghaiing) کہا جانے لگا تھا۔ اسی دوران یہاں چند غیر ملکی باشندوں نے بھی ان دھندوں میں بڑا مال اور مقام بنایا۔ایک امریکی جرائم پیشہ شخص 'جان رائلی‘جو اوکلاہاما امریکہ کی جیل سے فرار ہوا تھا یہاں پہنچ کر جوئے کے اڈے چلاتا رہا اور سلاٹ کنگ کے نام سے مشہور تھا۔ اسی طرح افیون کے تاجر ایک عراقی نژاد شخص نے تو یہاں رئیل اسٹیٹ سے اتنی دولت جمع کرلی تھی کہ اسے ایشیا کا دولت مند ترین شخص سمجھا جانے لگا تھا۔ ان سب جرائم پیشہ لوگوں نے اپنے کالے دھن سے ایک متوازی معیشت کھڑی کر لی تھی جو تمام جنگوں اور عدم استحکام کے باوجود ایک عرصے تک قائم و دائم رہی۔ چین میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد نہ ان لوگوں کے دھندوں کی گنجائش بچی اور نہ ہی ان لوگوں کی ‘ جو بچا کھچا مال سمیٹ کر بھاگ سکتا تھا وہ چلتا بنا اور جو نہیں گیا وہ جھاڑو پھیرتا نظر آیا۔
آج کا شنگھائی کمیونسٹ دور کی بلیک اینڈ وائٹ پکچر سے نکل کر پھر سے رنگین تو ہو گیاہے لیکن ماضی کی بد امنی اور گینگز کا تصور بھی محال ہے۔ کسی بھی میگاسٹی کو جرائم سے پاک قرار دینا ایک معصوم سی خواہش ہی ہو سکتی ہے اور اس اعتبارسے یہاں بھی کچھ نہ کچھ نوسر بازیاںہوتی ہیںلیکن مجموعی طور پر دن رات جاگنے والا چین کا یہ فنانشل مرکز ماضی کی افرا تفری سے دور ایک پر امن اور خوشگوار شہر بن چکا ہے اور اس تاریک ماضی کو گزرے آٹھ دہائیاں ہو چکی ہیں ‘ ریاست نے سب کو یہ کر دکھلایاہے کہ اس کے اندر کوئی بھی اتنا طاقتور نہیں ہو سکتا کہ ریاست اور اس کی اتھارٹی کو چیلنج کرتا پھرے۔