تاک جھانک والی تخلیقی ونڈو شاپنگ

ہماری جیب تو اتنی بھاری نہیں ہے کہ تفریحی شاپنگ کے ذریعے اپنی خواہشات کی تسکین‘ جسے شاپنگ تھراپی بھی کہا جاتا ہے‘ کر سکیں‘ لیکن بھلا ہو مالز اور بڑے سپر سٹورز کا جہاں گھوم پھر کر نت نئی چیزوں کو دیکھنے اور ان سے محظوظ ہونے پر کوئی پابندی نہیں۔ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں اب نئے شاپنگ مالز کی موجودگی خاصی نمایاں ہوتی جا رہی ہے‘ لیکن اکثر پاکستانی اب بھی خلیجی ممالک خصوصاً دبئی کے عظیم الشان مالز کے فراق میں آہیں بھرتے یا قربت کی ڈینگیں مارتے نظر آتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ شاپنگ پاکستان کی ہو یا دبئی کی‘ اصل میں فخر سے سینہ پھولانا تو چینیوں کا حق بنتا ہے‘ جو یہاں موجود اکثر چیزوں کو تیار کرتے ہیں‘ باقی سب تو دکاندار ہیں یا خریدار‘ یا پھر ہماری طرح مفت کے تماشائی۔ بنیادی طور پر خریداری کا اصل کریز خواتین سے منسوب کیا جاتا ہے‘ لیکن اگر بات الیکٹرانک کے آلات‘ کمپیوٹرز‘ نت نئے سمارٹ فونز یا اسی قبیل کی مشینوں کی ہو تو پھر مرد بھی باگیں سنبھالنے میں دیر نہیں لگاتے اور اس اعتبار سے دس‘ پندرہ فیصد مردانگی ہم میں بھی پائی جاتی ہے۔ شدید محنت‘ ہنرمندی اور انکساری سے ہر قسم کی مصنوعات تیار کرنے والے اس ملک میں شاپنگ کے بڑے مراکز گھومنے کے دوران اکثر ایسی نت نئی چیزیں نظر آتی ہیں جو قدموں کو کچھ دیر کے لئے روک لیتی ہیں۔ چینیوں کی 'بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘ والی شہرت تو معروف برانڈز کی ایک‘ دو‘ تین یا چار نمبر تک کی مصنوعات بنانے سے شروع ہوئی تھی‘ لیکن بات اب کافی آگے نکل چکی ہے اور کس حد تک آگے گئی ہے اس کے لئے تھوڑی سی ونڈو شاپنگ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ایک ایسے پلازہ کا رخ کرتے ہیں جو الیکٹرونکس کی مصنوعات کے لئے معروف ہے۔ اس مارکیٹ میں جہازی سائز والی ٹی وی سکرینوں‘ کمپیوٹرز‘ موبائل فونز وغیرہ کے دلکش سٹالز کو چھوڑتے ہوئے کہ یہ تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں‘ ایک نہایت دلچسپ سیکشن کا رخ کرتے ہیں‘ جہاں گھروں کی دیکھ بھال سے متعلق آلات پائے جاتے ہیں۔ غیر ملکی اور چینی کمپنیوں کے بنائے ہوئے روبوٹک ویکیوم کلینرز کو دیکھنا اور سمجھنا خاصا انوکھا کام ہے۔ فرش‘ میزوں‘ صوفوں اور قالین سب ہی کی گرد اور گندگی کا صفایا کرنے والے ان کلینرز کو ایک بار چلا دیا جائے تو ان جگہوں پر خود ہی گھوم پھر کر کام شروع کر دیتے ہیں‘ رکاوٹ یا دیوار سامنے آنے پر اپنا رخ بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اگر کسی اونچی جگہ پر ہوں تو کنارے پر پہنچ کر رک جاتے ہیں‘ یعنی ان کو کام پر لگا کر آپ اپنے دیگر کام کر سکتے ہیں۔ گول یا چوکور چپٹی سی ان مشینوں کو آپ برقی لٹو سمجھیں یا فرش پر گھومنے والی اڑن طشتری۔ ان کے دام بھی کام کی طرح اونچے ہی ہیں اور سچ بات تو یہ ہے کہ ہمیں آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی یہ یقین نہیں آ رہا کہ یہ سمارٹ مشین واقعی اتنی تیز طرار ہے۔ اب اگلے سٹاپ پر چل کر باتھ روم کے الیکٹرونک آئٹمز میں سے ایک ایسے نمونے کو دیکھتے ہیں جو ہے تو ٹوائلٹ کموڈ لیکن اس میں لگے بٹن اور آٹومیٹک نظام دیکھ کر یہ کسی اور سیارے کے لوگوں کی طرف سے بھیجا گیا آئٹم معلوم ہوتا ہے۔ کم ازکم ہم تو اس کمپیوٹر نما کموڈ کی قیمت افورڈ نہیں کر سکتے‘ لیکن بہرحال یہ ہے اتنا سمارٹ کہ سوائے سب سے ضروری کام کے باقی سب کچھ اسی کی ذمہ داری ہے۔ باتھ روم کے آئٹمز میں میرے پسندیدہ وہ حساس یعنی سینسرز والے نلکے ہیں جن کے نیچے ہاتھ دیں تو پانی آتا ہے اور ہٹانے پر بند ہو جاتا ہے۔ یہ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کا اچھا طریقہ ہے۔ اسی طرح وہ شاورز ہیں جن کی نابز گھماتے جائیں اور پانی کی پھوار چار پانچ طریقوں سے آپ کے نہانے کو بھی ایڈونچر بنا دیتی ہے۔ عام شاور کا مزا لینا ہے تو پانی اسی طرح نکلے گا۔ اگر نہایت باریک پھوار چاہیے تو ناب گھمانے پر وہ حاضر ہے۔ اور مزید دائیں بائیں سرکائیں تو کہیں تند و تیز پائپ کی دھار ملے گی‘ اور کہیں سوئیوں کی طرح چبھو کر شرابور کر دے گی۔ اسے کہتے ہیں نہانے کا فن۔ پاکستان میں بھی یقیناً یہ آئٹمز دستیاب ہوں گے‘ لیکن دو باتیں کرتا چلوں‘ ایک تو یہ لوگ صرف نہاتے ہی نہیں بلکہ یہ چیزیں بناتے بھی ہیں اور دوسری کراچی کا اصلاً اور نسلاً رہائشی ہونے کے باعث ان شاورز کا کوئی فائدہ وہاں ممکن نظر نہیں آتا‘ کیونکہ ان سب کرتبوں کے لئے پیچھے کی پائپ لائن میں پانی بھی درکار ہوتا ہے۔
یہاں گھومنے کے دوران وہ آئٹمز بھی ملیں گے‘ جن کی عام طور پر پاکستان میں کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ان میں صف اول میں ہوا کو صاف کرنے والی مشین ہے۔ یہاں کی فضائی آلودگی کے پیش نظر اکثر لوگ ایئر پیوری فائر (Air Purifier) رکھتے ہیں‘ جو گھر یا کمروں میں موجود ہوا کی صاف ری سائکلنگ کا کام کرتے ہیں۔ جب ہوا میں آلودگی بہت بڑھ جاتی ہے تو ایک درمیانے سائز کی روم کولر نما مشین ہم بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ اس کے فلٹرز کی صفائی بہرحال اپنے ہاتھوں سے ہی کرنا پڑتی ہے۔ گرم الیکٹرک کمبل اور چادریں بھی عام نظر آئیں گی کیونکہ شدید سردی میں ان کا سہارا غنیمت ہوتا ہے۔ شنگھائی کے لوگ مہنگی گیس ہیٹنگ سے اجتناب ہی برتتے ہیں۔ اسی جگہ پر الیکٹرک سکوٹی بھی نظر آ جائے گی کہ اکثر نوجوان اور کھلنڈرے اس کو پسند کرتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ بالکل عام مینوئل سکوٹی کی طرح دو چھوٹے سے پہیوں اور پکڑنے کے لئے ایک ڈنڈے نما ہینڈل پر مشتمل ہوتی ہے۔ بس پیروں سے دھکیلنے کے بجائے بیٹری سے چلتی ہے اور ہموار سڑکوں اور فرش کے لئے ہی زیادہ مناسب ہے۔ الیکٹرونک مارکیٹ کے اس سیکشن میں ایک مزے کی چیز وہ ٹیبل فین ہیں جو دیکھنے میں بالکل ایک روایتی چھوٹے سے گول پنکھے کی طرح ہوتے ہیں‘ لیکن ان کے اندر سے گرم ہوا آتی ہے اور کسی قسم کے پر موجود نہیں ہوتے‘ بس سردی میں ان کو میز پر یا قریب کہیں رکھ کر گرم ہوا سے اپنے آپ کو سینکتے رہیں۔
اب فی الحال اس جگہ کی مٹر گشت سے وقفہ لے کر اس سوچ پر بات ہو جائے‘ جس کے تحت چینی کمپنیاں نت نئی اشیا کو مارکیٹ میں تیزی سے متعارف کروا رہی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سوئی دھاگے سے لے کر لائٹرز‘کھلونے‘ بٹن‘ نیل کٹرز‘ ٹارچ‘ جوتوں کے تسمے غرض کہ عام استعمال میں آنے والی ہر قابل تصور چیز تو یہاں سے بن کر دنیا بھر میں پہنچ گئی ہے‘ لیکن محض اس مینوفیکچرنگ سے ترقی کا پہیہ نہیں گھوم سکتا۔ روزمرہ کے استعمال کی اشیا اور خصوصاً الیکٹرونکس کی مصنوعات ہمہ وقت جدت اور سہولت مانگتی ہیں۔ چینی ادارے ان چند برسوں میں انڈسٹریل پروڈکشن کر کے اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ اب وہ سخت مسابقت والی مارکیٹ کو نت نئے آپشنز کے ساتھ قابو کرنا چاہتے ہیں مثلاً یہاں الیکٹرونکس کی اشیا تیار کرنے والی ایک بہت بڑی کمپنی کے ریسرچ کے شعبے میں سو افراد کی ٹیم تو صرف چاولوں کے خود کار ککرز بہتر بنانے میں مصروف ہے۔ رائس ککرز اس کمپنی کی مصنوعات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے‘ جس میں وہ چاولوں کو ابالنے والے آٹومیٹ ککرز کی کارکردگی کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں‘ اور جلد ہی اس کو چاولوں کے علاوہ سوپ بنانے کی مشین میں بھی تبدیل کر دیں گے۔ صرف اس ایک پروڈکٹ سے اس کمپنی نے گزشتہ سال کی آخری ششماہی میں ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے کمائے۔
اس طرح کی چینی کمپنیاں تسلسل سے کنزیومرز کے لئے عام استعمال کی چیزیں نت نئے ڈیزائنز اور فیچرز کے ساتھ فراہم کر رہی ہیں‘ بلکہ حال تو یہ ہوتا جا رہا ہے کہ چھ ماہ قبل خریدی جانے والی پروڈکٹ اسی کا نیا ماڈل دیکھ کر برسوں پرانی لگنے لگتی ہے۔ چینی سمارٹ فون بنانے والوں نے تو یہ معاملہ کر دیا ہے کہ سال میں ایک ہی ماڈل کے تین چار ورژن آجاتے ہیں۔ پاکستان کے ٹی وی پر سمارٹ فونوں کے کثیر تعداد میں اشتہارات انہی اداروں کی پھرتیوں کا نتیجہ ہیں‘ اور صرف پاکستان ہی نہیں انڈیا کی سمارٹ فون مارکیٹ کا بڑا حصہ بھی انہی کے پاس ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ چین میں صنعتی پیداوار کا پینتس برس قبل شروع ہونے والا سفر اب جدت کی شاہراہ پر چھلانگیں لگا رہا ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں