’گوانگ چو‘ شہر کے مسلم تاریخی مقامات

جنوبی چین کے سب سے معروف شہر اور اکنامک پاور ہائوس 'گوانگ چو‘ میں پہنچنے کے فوراً بعد ہی ہم میٹرو ٹرین کے سٹیشنوں کا نقشہ ہاتھ میں لئے وہاں کے سب سے اہم مسلم تاریخی مقام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ درحقیقت ہمارے اس شہر میں آنے کی ایک بڑی وجہ اس تاریخی مقبرے کی زیارت تھی جو جلیل القدر صحابیٔ رسولﷺ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لئے ہمارا ہوم ورک مکمل تھا‘ یعنی قریبی میٹرو سٹیشن اور اس کا وہ گیٹ جو اس مقام سے قریب ترین سمجھا جاتا ہے‘ لیکن اس جگہ پہنچنے میں کافی وقت لگ گیا۔ اس تاخیر کی دو وجوہ تھیں۔ پہلی وجہ: غیر ضروری خود اعتمادی کہ ہمارے پاس ساری ضروری معلومات ہیں‘ اور دوسری: اس شہر کے لوگوں کی مختلف زبان اور لہجہ تھا جو 'کنٹونیز‘ کہلاتا ہے‘ اور چینی زبان سے خاصا مختلف ہے۔ میٹرو سٹیشن سے نکل کر ہم یہ سمجھے کہ بس اب چند منٹ چلنے پر یہ مقام مل جائے گا؛ چنانچہ قریب ہی موجود ایک مسلم ریسٹورنٹ دیکھ کر اس سوچ کے ساتھ وہاں پہنچ گئے کہ کھانا بھی کھا لیں گے اور یقیناً ان لوگوں کو اس مقبرے کے صحیح مقام کا اندازہ بھی ہو گا۔ یہاں بیٹھ کر اطمینان سے نوڈلز کھانے کے بعد جب ہاتھ میں موجود ایڈریس کارڈ دکھا کر اس مقام کے بارے میں دریافت کیا‘ تو حیرت ہوئی کہ اس مسلم ریسٹورنٹ کے عملے کو ہمارے چینی زبان کے ورژن کی زیادہ سمجھ نہیں تھی۔ بہرحال انہوں نے سامنے کی مصروف شاہراہ کے پار جانے کا اشارہ کیا‘ جس کے لئے ہمیں پھر سٹیشن کے ذریعے زیر زمین روڈ کراس کرنا تھی۔ نیچے کا چکر لگا کر 'اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے‘ کے مصداق جب دوسری طرف نظر دوڑائی تو چو ڑی سڑکیں‘ نہایت تیز ٹریفک اور بلند عمارتیں تو نظر آئیں‘ لیکن مطلوبہ روڈ ندارد۔ یوں ہماری گلابی چینی اور مقامی 'کنٹونیز‘ زبان کا تقریباً چالیس منٹ تک جاری رہنے والا وہ مقابلہ شروع ہوا‘ جس میں ہم اس مقام کے ارد گرد مختلف راہ گیروں کے مختلف اشاروں پر آگے پیچھے دوڑ لگاتے رہے‘ لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ وقت تیزی سے نکلا جا رہا تھا‘ اور اس بے چینی میں کہ کہیں اس جگہ کے دروازے ہی نہ بند ہو جائیں‘ ہم نے بالآخر ایک ٹیکسی روک کر اس میں بیٹھنے کی کوشش کی‘ تو ڈرائیور نے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے جانے سے انکاری ہو‘ جبکہ دراصل وہ یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ یہ جگہ اتنی قریب ہے کہ ٹیکسی کی ضرورت نہیں۔ اس مرتبہ اس کے بتائے ہوئے اشارے کام آ گئے‘ اور بالآخر ہم مرکزی سڑک سے اس ذیلی گلی میں داخل ہوئے‘ جس کے ایک سرے پر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے مقبرے والے مقام کا داخلی دروازہ موجود تھا۔
اس ساری بھاگ دوڑ میں شام کا وقت قریب آ گیا تھا۔ جیسے ہی ہم اندر داخل ہوئے تو اس جگہ کو ایک نہایت پُرسکون‘ خوبصورت گارڈن کی طرح پایا‘ جس پر پتھروں کی ایک طویل راہداری کے اطراف میں درخت اور سبزہ ہی سبزہ تھا۔ اس جگہ کی خوبصورتی نے پچھلے پون گھنٹے کی بھاگ دوڑ اور تھکن دور کر دی‘ اور ہم تیزی سے اس پُرفضا باغ کی پگڈنڈی پر چلتے گئے‘ جہاں چینی اور عربی میں اس مقبرے تک پہنچنے کے اشارے موجود تھے۔ تقریباً پانچ منٹ چل کر جب اس مقام تک پہنچے‘ تو اس کے داخلی دروازے پر تین لوگوں پر مشتمل ایک پاکستانی خاندان یہاں کی زیارت کرکے واپس جانے کے لئے تیار بیٹھا تھا‘ اور دروازہ بند ہو چکا تھا۔ وہاں بیٹھی بزرگ خاتون نے ہمدردی سے کہا کہ آپ داخلی دروازے کو کھٹکھٹا کر دیکھ لیں‘ شاید متولی اندر جانے دے۔ خوش قسمتی سے دروازہ بجانے پر متولی نے نہ صرف اسے کھول دیا‘ بلکہ اس مسجد نما جگہ کے صحن کی دوسری طرف اس چھوٹے سے کمرے کا دروازہ بھی کھول دیا جہاں عشرہء مبشرہ میں شامل ان صحابیؓ کی قبر مبارک موجود تھی۔ اس کمرے میں داخل ہو کر ہم نے فاتحہ خوانی کی‘ اور کچھ دیر یہاں ٹھہرنے کے بعد باہر آ گئے۔ شام کے جھٹ پٹے میں اس باغ اور ارد گرد کے ماحول پر ایک خوشگوار سا سکوت طاری تھا۔ اس مقبرے سے منسلک چند مزید قبریں بھی چادروں سے ڈھکی ہوئی موجود تھیں‘ جو مقامی روایات کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے ہمراہ آنے والے ان صحابہ کی تھیں‘ جو اسلام کے انتہائی اوّلین دور میں ایک سفارتی وفد کے طور پر 'گوانگ چو‘ پہنچے تھے۔ تاریخی حقائق اور واقعات کی صحت سے قطع نظر‘ یہ مقام اور اس کی تعمیرات اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ چین کے جنوبی ساحل سے نزدیک اور مشہور پرل ریور کے کنارے آباد 'گوانگ چو‘ شہر چین میں مسلمانوں کی اولین منزل تھی۔ 
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے مزار کی حاضری کے اگلے روز ہم چین کی ایک قدیم ترین 'ہوئی شنگ‘ مسجد میں حاضر تھے جو پہلی مرتبہ 627ء یعنی آج سے کوئی تیرہ سو نوے برس قبل تعمیر کی گئی تھی۔ گزشتہ روز کے تجربے کے برعکس ہم اس مقام کے صحیح پتے اور نقشے کے ساتھ یہاں بآسانی پہنچ گئے تھے۔ قدیم اور مصروف بازار کے عین درمیان واقع اس جگہ داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہوا‘ جیسے ایک قدم کے فرق نے ہمیں چین سے مشرق وسطیٰ یا عرب دنیا کی قدیم مسجد میں پہنچا دیا ہو۔ مسجد میں داخلے کی ایک نسبتاً تنگ سی راہداری ہے۔ اس جگہ سے گزرنے کے بعد سامنے مسجد کا کھلا صحن اور اطراف کے چوڑی راہداریاں ہیں۔ مسجد کے ایک سرے پر چھتیس میٹر بلند تاریخی مینار ہے‘ جو چین میں مسلمانوں کا قدیم ترین آرکیٹیکچر سمجھا جا سکتا ہے۔ صدیوں سے کھڑا سادہ سا مینار قدیم وقتوں میں اس مسجد کے قریب سے گزرنے والے دریا کے لئے واچ ٹاور کا کام بھی کرتا تھا‘ جبکہ اس وقت مقامی چینی اس کو 'سادہ پگوڈا‘ بھی کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ مسجد یہاں آنے والے اوّلین عرب باشندوں اور ملاحوں نے تعمیر کی تھی‘ جو عرب اور چینی طرز تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ ہزار برس سے زائد عرصے کے بعد بھی نہ صرف یہ ایک تاریخی ورثے کے طور پر موجود ہے‘ بلکہ اس کے کشادہ ہال میں پانچ وقت کی باجماعت نماز کا انتظام بھی ہے۔ ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کمیونٹی ہال اور اسلامی نوادرات کی ایک دکان بھی موجود ہے۔ مسجد کے اندر ایک مربع (Square) کی صورت میں ایک عمارت مون ٹاور کے نام سے پائی جاتی ہے‘ جس پر چڑھ کر لوگ رمضان اور عید کے چاند دیکھا کرتے تھے۔ 
مسجد کے صحن کے ساتھ ہی اطراف میں قدیم درختوں اور کیاریوں کے ساتھ ایک کنواں اب بھی دیکھا جا سکتا ہے‘ جو قدرتی طور پر شفاف میٹھے پانی کا ذریعہ تھا۔ مسجد کے صحن میں موجود منڈیر سے ٹیک لگا کر جب میں نے مسجد کے اطراف اور بلند و بالا کھجور کے درختوں کی اوٹ میں سفید رنگ کے مینار کو دیکھا‘ تو بالکل ایسا محسوس ہوا جیسے وقت صدیوں پیچھے جا چکا ہو‘ اور میں بھی عرب ملاحوں یا تاجروں کی کسی ٹیم کا حصہ ہوں‘ جنہوں نے یہ مسجد تعمیر کی تھی۔ یہاں کی فضاء میں ایک سکون‘ ٹھہرائو اور وقار ہے۔ مسجد میں ایک عدد مکتب بھی موجود تھا‘ جہاں ایک افریقی نژاد مسلمان عرب نقوش کے حامل سات آٹھ سالہ بچے کو قرآن پاک پڑھا رہا تھا۔ بچے نے مجھے متوجہ پا کر ایک شرارتی مسکراہٹ سے دیکھا‘ اور میں نے اس خیال سے اپنا منہ موڑ لیا کہ کہیں اسے استاد کی ڈانٹ نہ سننا پڑ جائے۔ مسجد کی دیوارں پر آویزاں تصاویر میں اس کی صدیوں پرانی شکل بھی دیکھی جا سکتی تھی اور موجودہ مینار ارد گرد کی موجودہ تعمیرات کی عدم موجودگی میں خاصا بلند دکھائی دیتا تھا۔ باہر نکلے تو سڑک پر روایتی بازار اور اس کی گہماگہمی تھی اور سامنے سنکیانگ کے مسلمانوں کے ریسٹورنٹ کے باہر بھونے جانے والے تکوں کا دھواں اڑ رہا تھا۔ 
ہانگ کانگ سے محض دو گھنٹے کی ٹرین مسافت پر واقع 'گوانگ چو‘ شہر چین کے صف اوّل کے اقتصادی شہروں میں سے ایک ہے جس کی جدید سڑکیں‘ مشہور پرل دریا کے گرد بلند و بالا نہایت دلکش ٹاورز اور عمارتیں یہاں کی خوشحالی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ گزشتہ ہفتے میں نے ہانگ کانگ اور یہاں کے دیگر مشہور مقامات اور تفریح گاہیں بھی دیکھیں اور لطف اندوز ہوا‘ لیکن ان دو تاریخی مقامات کا تاثر سب سے جدا اور منفرد تھا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں