ایوان زیریں تین دن کی دھینگا مشتی کے بعد گزشتہ روز پُرسکون رہا۔ تین دن بعد اپوزیشن لیڈر بجٹ پر رد عمل دینے میں کامیاب ہوئے‘ طویل ترین خطاب میں۔ بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ بجٹ کو منظور نہ ہونے دینے کا اعلان بھی کر دیا۔ ایوان کی تین دن کی کشاکش رات گئے میثاق خطابت میں بدلی تو ایوان میں میثاق معیشت کی پیش کش سامنے آ گئی۔ تاریخ کا یہ سبق، سب کیلئے کہ دایاں ہاتھ ہی بائیں ہاتھ کو دھوتا ہے۔ ایوان تب تک چل نہیں سکتا جب تک حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اختلافات کم نہیں ہوتے۔ بجٹ منظور کروا لینے کا، بلا کا اعتماد اپنی جگہ درست لیکن جناب اپوزیشن کے اعتراضات جمہوریت کا حقیقی حسن‘ برداشت، تحمل اور بردباری حکومت کی میراث ہوتی ہے۔ تدبر سے عاری حزب اقتدار کے سامنے‘ معاملہ محض میثاقِ بجٹ کا ہی نہیں میثاقِ معیشت کا ہے‘ میثاقِ جمہوریت کا بھی اور چیئرمین سینیٹ پر عدم اعتماد کے خدشات کا بھی۔ المیہ سیاسی سمجھ بوجھ کا فقدان نہیں‘ معمہ اس مذاق کا ہے جو اس ملک و قوم کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ ہمارے زوال‘ جو کرکٹ سے روپے کی ناقدری تک پھیلا ہوا ہے‘ کی وجہ کسی کی نظرِ بد ہے؟ ''یہود و نصاریٰ‘‘ کی سازش ہے؟ یا پھر ہماری قسمت خراب ہے؟ یقینا ہمارے زوال زدہ حال اور‘ خاکم بدہن‘ زوال آمادہ مستقبل کی بھی وجہ ان تینوں میں سے ایک بھی نہیں۔ تو پھر کیا ہے؟ آپ نے کبھی سوچا؟ سوچیں گے تو جو پہلی وجہ ملے گی‘ وہ مذاق کرنے کی عادت ہو گی۔ مذاق کرنے کی عادت ہم عوام الناس کی رگ رگ میں ہے تو طبقۂ اشرافیہ کی نس نس میں‘ لہو بن کے دوڑتی ہے۔ حیران مت ہوں۔ مذاق کی یہ عادت حسِ مزاح والی نہیں‘ بلکہ اپنے کام کو مذاق سمجھنے والی ہے۔ چلیں اس کو اور سادہ کرتے ہیں۔ آپ کے محافظ کو جب کیشئر بنا کر آپ کے کھاتے دیکھنے میں مصروف کر دیا جائے‘ جب محتسب مبلغ بن جائے‘ مبلغ تاجر بننے لگے‘ حاکم کو منصف بن کر فیصلے سنانے کا شوقین ہو‘ اور منصف کا جی راہنما بننے کے لئے چرانے لگے تو پھر نیا پاکستان نہیں ملتا۔ پاکستان میں نوکریوں کے لئے آنے والے غیر ملکی بھی کہیں کھو جاتے ہیں؟ جب مختلف کیسوں کی تحقیقات مکمل کرنے والے کو عہدے سے ہٹا دیا جائے‘ جب وزرا کی کرپشن سے پردہ اٹھانے والوں کو گھر بھیج دیا جائے‘ بد عنوانی کی تحقیقات کرنے والے افسران کو فارغ کر دیا جائے تو تبدیلی اس ڈھول کی مانند نظر آتی ہے‘ جو صرف دور سے سہانے لگتے ہیں۔ تبدیلی کے اس بد نما چہرے کے ساتھ کب تک خوش فہمیوں میں جیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ جس کے لئے چندہ مہم چلائی گئی تھی وہ ڈیم کہاں ہے؟ اپنے کام کو چھوڑ کر دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانا دراصل قوم کے ساتھ مذاق ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں مذاق کی عادت کتنی گہری ہے‘ اس پر بات چھڑ گئی‘ تو بہت دور نکل جائے گی۔ جو ریاستی عہدیدار ایسا مذاق نہ کرتا ہو‘ اپنے کام سے کام رکھتا ہو بلکہ کام کو درجۂ کمال تک لے جانے کی تگ و دو میں ہو‘ اس کو سراہنا، ضرور چاہئے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس مذاق والی عادت نہیں اپنائی‘ مذاق والوں کی اس بھیڑ میں وہ اپنا کام کر رہے ہیں پچھلے اڑتالیس دنوں میں‘ ان کی قائم کی ہوئی ماڈل کورٹس نے 5800 مقدمات نمٹائے۔ صنفی تشدد کے حوالے سے 116 عدالتیں قائم کرنے جا رہے ہیں۔ بچوں پر تشدد کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کے لئے دو عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں۔ اور جولائی کے آخر میںکوئٹہ میں، ای کورٹس کا آغاز ہو گا‘ جبکہ سپریم کورٹ کے تین جج صاحبان امریکہ جا کر ان کے نظامِ انصاف کو سٹڈی کریں گے۔ انہوں نے یہ باتیں ماڈل کورٹس کے جج صاحبان سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ وہ ججوں سے بات کر رہے تھے۔ ایک عزم کے ساتھ... درد دل کے ساتھ... سینے میں خدا کا خوف رکھتے ہوئے... دل میں سزا یافتہ مجرموں کے لواحقین کے لئے ہمدردی رکھتے ہوئے۔ ہمارے سبھی ریاستی ذمہ داروں کو چیف جسٹس کی مذاق نہ کرنے کی عادت پر غور کرنا ہو گا‘ ورنہ ہم یونہی کبھی اپنی قسمت کو کوسیں گے‘ تو کبھی نظرِ بد کو اپنے زوال کا الزام دیں گے۔ سیاسی سنجیدگی کے ساتھ مذاق کی کیفیت برابر سیاست پر طاری ہے۔ اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے موڈ میں تو ہے مگر حزب اختلاف میں یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ حکومت گرائی جائے یا اسے مدت پوری کرنے دی جائے۔ گویا اپوزیشن متحد تو ہے لیکن اتحاد ہوا میں معلق ہے۔ آصف علی زرداری نے جس چیئرمین سینیٹ کی تقرری میں اپنا سیاسی کردار خوب ادا کیا‘ اسی کو ہٹانے پر اپوزیشن سے متفق تو ہیں مگر یہ اتفاق حکومت وقت کو ڈرانے کے لیے ہے یا سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانے کے لیے؟ یہ معاملہ خبروں میں تو ہے مگر عملاً ہوا میں معلق ہے۔ ادارے حکومت کے اثرورسوخ سے آزاد ہیں۔ بیانیہ ڈنکے کی چوٹ پر‘ مگر یہ کیا کہ اپنے ہی منتخب سپیکر‘ جو کسٹوڈین آف دی ہائوس ہیں‘ کی بااختیاری کا جنازہ دھوم سے نکال رہے ہیں۔ اخبارات کی شہ سرخیاں بتا رہی ہیں... وزیر اعظم کا حکم ہے کہ شہباز شریف یا کسی اور ''چور‘‘ کو اسمبلی میں تقریر کرنے کی اجازت نہ دی جائے... سو یہ وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت ہے کہ اپوزیشن ان کی تقریر خاموشی سے سننے کی گارنٹی دے‘ مگر کوئی ملزم جیل سے آ کر پارلیمنٹ میں خطاب نہیں کر سکتا۔ گویا اب یہ بااختیاری کا معاملہ بھی ہوا میں معلق ہے۔ اختر مینگل با اصول سیاستدان‘ مگر حسِ مزاح ان کی بھی پھڑک رہی ہے۔ وہ حکومت کے ساتھ بھی ہیں اور انہیں اپوزیشن کی طرف سے بھیجی گئی ہر دعوت بھی قبول ہے۔ ملکی معاملات پر سنجیدگی، میچورٹی گئی تیل لینے‘ یہاں حکومت کے اتحادی بھی برابر مزاح کے موڈ میں ہیں۔ ایم کیو ایم نے حکومت کے سامنے 9 مطالبات رکھے ہیں۔ حکومت نے طے یہ کیا ہے کہ ایوان میں سات ممبران پر مشتمل ایم کیو ایم پاکستان کو ایک اور وزارت سونپ دی جائے۔ دوسرا اتحادی‘ ق لیگ ہے۔ جس کے چند مطالبات ہیں۔ انہیں بھی ایک نئی وزارت کی پیشکش متوقع ہے۔ بی این پی کے سات مطالبات ہیں۔ جن کے جواب میں حکومت اختر مینگل صاحب کو 15 کروڑ بطور ترقیاتی فنڈ کی پیشکش کر چکی ہے۔ سو آنکھ مچولی کا کھیل ابھی مزید مطالبات اور خواہشات تک چلے گا۔ ایم کیو ایم اس کھیل میں تجربہ اور مہارت برابر رکھتی ہے۔ ممکن ہے‘ اس کھیل کا فائدہ وہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اٹھائے۔ حسِ مزاح کا ایک مظاہرہ ہم ان نو مہینوں میں تسلسل سے دیکھ رہے ہیں۔ جن جاگتی آنکھوں سے ہم خوشحالی کے خواب دیکھ رہے ہیں‘ وہ شیخ چلی کے خوابوں کی طرح ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹوٹ رہے ہیں۔ مرغیوں‘ انڈوں‘ کٹوں کا کاروبار تو ابھی شروع نہیں ہوا‘ جو پھلے پھولے؛ البتہ خوشحالی کے تمام پلان ایک ایک کرکے شیخ چلی کی ٹوکری سے دھڑام سے نیچے گر کر ٹوٹ رہے ہیں۔ ایمنسٹی سکیم ٹھیک نو دن بعد ختم ہو جائے گی۔ وزیر اعظم کی پُر زور اپیل کے باوجود اب تک صرف 250 لوگ اس سکیم کے شراکت دار بنے ہیں جبکہ نواز شریف کی حکومت میں ایمنسٹی سکیم میں چوراسی ہزار لوگ رجسٹرڈ ہوئے‘ دو اعشاریہ چار کھرب کے اثاثے ظاہر کیے گئے۔ ریاست نے ایک سو چوبیس ارب کا ٹیکس اکٹھا کیا۔ حکومتِ وقت کی نیک نامی‘ ایمانداری اور عوامی مقبولیت کے باوجود ایمنسٹی سکیم ناکام نظر آ رہی ہے۔ دوسرا بڑا خواب ملک کی لوٹی ہوئی دولت ملک واپس لانے کا ہے۔ دو بڑی جماعتوں کے لیڈران کے جیل میں جانے اور کڑے احتساب کے باوجود، ابھی تک ایک پائی بھی وصول نہیں ہو سکی۔ اب حکومت کے اعلان کے مطابق ملکی قرضوں کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنا دیا گیا ہے۔ بلین ٹری، ایک کروڑ نوکریاں‘ پچاس لاکھ گھر جیسے سنجیدہ مذاق سے ابھی کچھ دن میں عوام محظوظ ہو سکیں گے۔ اس کیفیتِ مزاح میں جو معاملہ سب سے سنجیدہ اور میچورٹی دکھا رہا ہے‘ وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک پیج پر ایک ہونے کا ہے‘ جو کہ ان غیر معمولی حالات میں حسب معمول لگ رہا ہے۔ حکومت خارجی معاملات دیکھ رہی ہے تو سابق بریگیڈیر اعجاز شاہ داخلی معاملات دیکھ رہے ہیں۔ حکومت معیشت کی سنبھال کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہے‘ اور اب قومی ترقیاتی کونسل قائم کی گئی ہے‘ جس کے سربراہ وزیر اعظم ہوں گے اور دیگر ممبران کے ساتھ چیف آف آرمی سٹاف بھی ممبر ہیں۔ قومی ترقیاتی کونسل سپریم باڈی ہو گی۔ فیصلے بھی سپریم ہوں گے۔ سی پیک سے لے کر دیگر معاشی اہداف تک کے فیصلے اس کونسل کا استحقاق ہو گا۔ (باقی صفحہ 11 پر)
یہاں نہ تو اتحاد ہوا میں معلق ہے نہ اختیار۔ حکومتِ وقت کی حس مزاح اتنی تیز ہے کہ ہر دن ایک نیا مذاق عوام کو محظوظ کر رہا ہے۔ ہم اتنے خوشحال ہونے والے ہیں کہ ایک رکشے والا بھی خود ٹیکس دینے کی پیشکش کرے گا۔ کم و بیش پانچ لاکھ لوگوں کی قربانی پیش کرنا ہو گی۔ یہ چھوٹے موٹے مذاق ہیں‘ عوام کا دل بہلانے کے لیے۔ مزاح کی اس کیفیت کو مختصراً بیان کرنے کے ساتھ ایک سنجیدہ نوٹ۔ اہلِ سیاست کا نظام اور عوام کے ساتھ یونہی مذاق چلتا رہا تو نظام کو لے ڈوبے گا‘ جس کی ایک سنجیدہ اور کڑوی حقیقت ہو گی‘ مگر اہلِ جمہور اس کا حصہ نہیں ہوں گے۔
حکومت اتنی مزاحیہ ہو چکی ہے کہ خارجی معاملات بھی حکومتی جگت بازی سے محفوظ نہیں۔ صبح ٹی وی پر پٹی چلتی ہے کہ بھارت مذاکرات کے لیے تیار ہو گیا۔ بھارت سے تردید آتی اور خبر اور خبر دینے والے‘ دونوں بائونس ہو جاتے ہیں۔ وزیر اطلاعات خبر دیتی ہیں کہ ایم او یوز سائن ہو چکے‘ اسحاق ڈار کی سپردگی آج ہوئی یا کل۔ برطانوی فارن سیکرٹری وزیر خارجہ شاہ محمود کی موجودگی میں حکومت پاکستان کو مطلع کرتے ہیں کہ پولیٹیکل وکٹم کے لیے نہ پاکستان برطانیہ کے مابین حوالگی کا کوئی معاہدہ موجود ہے‘ نہ کوئی ٹریٹی سائن کی گئی ہے۔ سو اس مذاق سے پہلے غیر ملک محظوظ ہوئے‘ پھر عوام نے لطف اٹھایا۔