معیشت مقروض، تبدیلی مخدوش اور خوش بختی ابھی کوسوں دور ہے۔ سو حکومت وقت کی سیاسی بقا شاید اسی میں ہے کہ کرپشن کے بیانیے کو زندہ رکھا جائے۔ ''نہیں چھوڑوں گا‘‘ کا بیانیہ حکومت کے گرد وہ حصار ہے جو حکومت کو غیر معروف ہونے سے ایک وقت تک بچا سکتا ہے۔ کیونکہ حکومت کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر حکومت کے معاشی امیج کا وہ بھاری نقصان کر گئے ہیں کہ اگر معجزاتی طور پر حکومت معیشت کی سمت درست کر بھی لیتی ہے تو اس کی اس کاوش کو پذیرائی نہیں ملے گی‘ ممکن ہے کریڈٹ آئی ایم ایف کو چلا جائے۔ سسلین مافیا کے قصے‘ پکڑ دھکڑ، گرفتاریاں، غرض احتسابی محاذ ابھی زوروں پر ہی تھا کہ حکومت ایک اور دریا عبور کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ دس سال کے دوران بیرونی قرضوں کی تحقیقات کے لیے قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے۔ یہ کمیشن پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور میں لیے گئے بیرونی قرضوں کے استعمال سے متعلق تحقیقات چھ ماہ میں مکمل کرکے رپورٹ حکومت کو بھجوائے گا۔ ایف بی آر، سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور آئی ایس آئی کی نمائندگی اس کمیشن کا اہم حصہ ہے۔ اس کمیشن کی خدوخال پر اپوزیشن کے کچھ اہم تحفظات ہیں۔ نمبر ایک‘ یہ کمیشن پچھلے دس سالوں یعنی دو جمہوری ادوار کی تحقیقات کرے گا‘ مشرف کے دور میں لیے گئے قرضوں کی کیوں نہیں؟ نمبر دو‘ اس کمیشن کے ممبران میں حساس ادارے کی شمولیت کیوں اور کس تجربے کی بنیاد پر؟ یہ کمیشن عدالت عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں قائم نہیں کیا گیا بلکہ وزیر اعظم عمران خان خود اس کمیشن کی نگرانی کریں گے تو پھر اس کمیشن کو اثرورسوخ استعمال ہونے، ذاتی عناد اور سیاست جیسے الزامات سے کیسے محفوظ رکھا جائے گا؟ اس کمیشن کے خدوخال کو سمجھنے کے لیے چند نکات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ نمبر ایک‘ قرضوں کی دو اقسام ہیں، مخصوص پروجیکٹس یعنی ڈیموں، سڑکوں اور ہوائی اڈوں کی تعمیر۔ نمبر دو‘ عمومی پروجیکٹس، جنرل قرضے بشمول ری فنانسنگ یعنی پاکستان بانڈز، آئی ایم ایف قرض وغیرہ۔ مذکورہ مثال سے ٹیکسز اور دیگر وسائل سے جمع ہونے والے مالی اخراجات کو علیحدہ کرنا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ ان تمام فنڈز میں تفریق ناقابل حساب ہے۔ اقتصادی سروے ہمیں ہمارے فنڈز کی سالانہ تفصیلات بتاتا ہے اور (قرض سمیت) اخراجات بھی۔ ہم جان سکتے ہیں کہ کیا ہوا تھا، قرض کس طرح لیا گیا اور ہم نے مجموعی طور پر کتنا خرچ کیا، لیکن ہم ان فنڈز کی نشاندہی نہیں کر سکتے جن کا تعلق ان مخصوص منصوبوں سے نہیں۔ نکتہ نمبر دو‘ دوسرے ممالک یا مالیاتی اداروں سے لیے جانے والے قرضوں کی تفصیلات وزارت خزانہ کے پاس ہوتی ہے۔ اس وزارت کے پاس ان منصوبوں کی تمام تفصیلات موجود ہیں‘ جو بیرونی قرضوں کے استعمال سے مکمل کیے گئے یا وہ تکمیل کے مراحل میں ہیں‘ جیسا کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں امریکہ سے جو رقم موصول ہوئی ہے‘ اس کا تمام ریکارڈ بھی موجود ہے۔ نکتہ نمبر تین‘ کمیشن کے 9 اراکین میں سے چھ اقتصادی سرمایہ کاری کے فیصلوں کو پرکھنے اور جانچنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ کمی یا کوتاہی کمیشن کو اپنے مینڈیٹ سے ہٹا سکتی ہے‘ بالخصوص یہ تعین کرنے میں سن دو ہزار آٹھ سے دو ہزار اٹھارہ تک کون سا پروجیکٹ اور کون سے عوامی ترقیاتی کام کس اہمیت کے حامل تھے‘ اور بعد ازاں پھر ان کو قرضے میں اضافے سے لنک بھی کرنا۔ دوسرا یہ تعین کرنا بھی مشکل ہو گا کہ کون سے کنٹریکٹس یا پروجیکٹس کے ایوارڈ اور عمل درآمد میں کیا پیچیدگیاں تھی اور ان کا وہ قرض جو براہ راست خرچ ہوا یا نہیں‘ فسکل رسپانسبلٹی اینڈ ڈیٹ لیمیٹیشن ایکٹ دو ہزار پانچ کی مجوزہ حد عبور ہوئی یا نہیں اور اس کی وجوہات تلاش کرنا بھی ایک کٹھن مرحلہ ثابت ہو گا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ کمیشن کا بجٹ کیا ہے۔ کمیشن کے دو ایسے نکات ہیں جو مکمل طور پر قانونی سوالات معلوم ہوتے ہیں‘ جن میں کمیشن کو قانون دانوں کی مدد درکار ہو گی۔ مثال کے طور پر کمیشن کا ایک نکتہ کوہ ہمالیہ سر کرنے سے کم نہیں‘ جو کہتا ہے کہ پچھلے دس سالوں کی وفاقی حکومتوں کی ہر سرمایہ کاری اور اخراجات کی حقیقی روح، سکوپ، ہیئت، قیمت اور مکمل ٹریل، کا فرانزک آڈٹ ہو گا۔ اس کام کے لیے بجٹ کی کثیر رقم درکار ہو گی‘ وہ کہاں سے آئے گی‘ اللہ ہی جانتا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان اس قسم کی تحقیقات کو بالخصوص جن کا تعلق بین الاقوامی کنٹریکٹس سے ہے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مقامی فرانزک ٹیسٹ کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ایک سرسری نظر دنیا پر ڈالی جائے تو ملائیشیا نے پانچ ارب کے اثاثوں اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کیں۔ اسی طر ح چائنہ نے کرپشن کے خلاف کمیشن بنا کر کریمینل تحقیقات کیں اور گیمبیا نے سابق صدر یحییٰ جامع کے دور حکومت میں ہونے والی بدعنوانی، تشدد اور جرائم کے خلاف تحقیقات کیں‘ مگر یہ تحقیقات ایک مخصوص دائرے میں رہ کر کی گئیں‘ نہ کہ اس کمیشن کی طرح لا محدود اہداف کا تعین کیا گیا۔ کمیشن کی تحقیقات جیسے جیسے آگے بڑھیں گی‘ بے یقینی کی صورتحال بھی اسی رفتار سے سرمایہ کاری اور کاروباری حلقے میں اپنے قدم جمائے گی۔ اس کمیشن کا مینڈیٹ اتنا وسیع ہو گا کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کی تحقیقات کر سکے گا‘ جس نے گزشتہ 10 سالوں کے دوران حکومت کے ساتھ کام کیا ہو گا۔ مقامی سرمایہ کار اس وقت تک اپنی دلچسپی ظاہر نہیں کریں گے جب تک وہ یقین نہیں رکھتے کہ اس کا کوئی منفی تاثر نہ ہو‘ ان چاہے تجربات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا یہ اطمینان ضروری ہے کہ وہ بحفاظت کاروبار کر سکتے ہیں۔ پچھلے دس ماہ میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری میں باون فیصد کمی آئی ہے۔ کیا حکومت اس کمی میں مزید اضافہ کرنے کے موڈ میں ہے؟ وسیع تر اختیارات اور مینڈیٹ رکھنے والے ایسے کمیشن کو نالائقی، کمزور فیصلہ سازی اور جائز‘ ناجائز الیگیلیٹیز کا تعین کرنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ کیا یہ حفیظ شیخ جیسے ذہین فطین اور قابل معاشی منیجر نہیں جانتے؟ یا تو حفیظ شیخ دل ہی دل میں خان صاحب کی ذہانت سے محظوظ ہو رہے ہوں گے یا پھر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ ان کا اپنا دور اقتدار بھی زیر تفتیش ہے کہ کچھ گلہ کیا تو لال جھنڈی کھڑی ہو سکتی ہے۔ میرا دل یہ نہیں مانتا کہ حفیظ شیخ جیسے وسیع تر تجربہ رکھنے والے اکنامک ایڈوائزری کونسل میں بیٹھے اشخاص یہ نہیں جانتے کہ قومی معاشی رپورٹ ایک ایک روپے کا حساب رکھتی ہے، کوئی شک نہیں کہ پیسہ کہاں خرچ ہوا۔ اور رہی بات پیسہ خرچنے کی تو منتخب حکومتوں کی صوابدید اور سیاسی فیصلہ سازی ہوتی ہے جس پہ بابوں کا حتمی رائے دینا ویسے ہی نا قابل فہم ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے غلطی کہاں کی اور بدنیتی کہاں تھی؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ طے کرے کے خان صاحب کا آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا عہد غلطی تھی یا بد نیتی تھی۔ یہ حکومت مسلسل نالائقی کو بدعنوانی سے تشبیہ دے کر غلطی کی مرتکب ہے۔ غلطی کیا تھی؟ کرپشن کیا تھی؟ نا معقولیت ہرگز کرپشن نہیں لیکن خان صاحب کو کون سمجھائے؟ یہ کمیشن فقط سیاسی حربہ دکھائی دے رہی ہے کیونکہ پچھلی حکومتوں کی غلطیوں پر پیسے اور وقت کا ضیاع سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر تو حزب اختلاف کو بیک فٹ پہ رکھ کے معیشت کو سنبھالنے کے لیے وقت خریدنے کا حربہ ہے تو چال اچھی ہے لیکن بے یقینی کی قیمت کے بغیر نہیں۔ حکومت نے ایک ایسے وقت میں کمیشن کی تشکیل کا اعلان کیا ہے جب حکومت کی اپنی شہرت ''سلیکٹڈ‘‘ کی ہے اور اس کے فیصلوں میں اثرورسوخ کا تاثر گہرا ہے۔ حکومت وقت کا دوسرا اعلان اس کونسل سے متعلق ہے جس کی تشکیل سے متعلق اپوزیشن کے سوال کم اور تحفظات زیادہ ہیں۔ وزیر اعظم نے ملک کی معاشی صورتحال کے تناظر میں قومی ترقیاتی کونسل کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ 12 رکنی کونسل کی سربراہی وزیرِ اعظم عمران خان اور اراکین میں فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ، چاروں وزرائے اعلیٰ، تجارت، خزانہ، خارجہ کے علاوہ منصوبہ بندی کے وزرا بھی شامل ہوں گے۔ (باقی صفحہ 11 پر)
قرضوں کے تحقیقاتی کمیشن کے بعد ترقیاتی کونسل حکومت کا وہ بڑا فیصلہ ہے‘ جس میں اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اور قومی سلامتی کونسل کے بعد یہ دوسرا ادارہ ہے جس میں فوج کے سربراہ براہ راست شامل ہوں گے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ بگڑتی ہوئی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ترقیاتی کونسل کی تشکیل کا معاملہ کیا پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں ہونا چاہیے تھا۔ وزیر اعظم اپوزیشن کی رائے کے پابند نہیں مگر کیا یہ جمہوری تقاضا نہیں کہ اہم قومی معاملات پر اپوزیشن کی رائے کو لازم سمجھا جائے۔ مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنمائوں کا اس کمیشن پر تبصرہ ہے کہ کیا قومی ترقیاتی کونسل قومی معاشی کونسل کی جگہ لے گا جو ایک آئینی فورم ہے؟ ایک شہری ہونے کے ناتے ان کے کچھ خدشات ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ اقدامات کے ذریعے ریاست کے واحد غیر متنازع اور شفاف ادارے کو تنازعات میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے خدشات کا اظہار بلاول بھٹو ایوان میں اور مریم نواز ایوان کے باہر کر چکے ہیں۔ ملکی کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور معیشت کے استحکام کے لیے حکومت جو قدم اٹھا رہی بلا شبہ وہ غیر روایتی بھی ہے اور خطرناک بھی۔ قرضوں کی تحقیقات کے لیے بننے والا کمیشن‘ جس کی سربراہی خود خان صاحب کے پاس ہے‘ ذرا بھر بھی غیر جانبداری سے ہٹا تو حکومت کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ اور رہا معاملہ قومی ترقیاتی کونسل کا تو اس کی سربراہی کا منصب بھی وزیر اعظم کے پاس ہے۔ مگر یہاں ایک اور قدآور شخصیت بھی ممبران کا حصہ ہے۔ سو اس پل صراط سے خیر و عافیت سے حکومت گزرے تو مانیں!