سیاسی حالات، آئی ایم ایف اورشوگر بر آمدات

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں ترجیحات طے کرنے ، مسائل کی نشاندہی کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے کے طریقہ کار میں واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بعض اوقات عوامی سطح پر یہ تعین کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ ملک اور عوام کے اصل مسائل کیا ہیں۔ کسی ایک تعیناتی کو ملک کو درپیش بڑے بڑے چیلنجز کے مقابلے میں غیر معمولی اہمیت دینا قطعی مناسب نہیں ہے۔ اس حوالے سے نہ صرف عوامی دلچسپی میں غیر معمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے بلکہ حکومت اور اپوزیشن بھی اسی مسئلے پربرسرِ پیکار دکھائی دیتی ہیں۔ تحریک انصاف نے مبینہ طور پر پنڈی اور اسلام آباد میں دھرنے کیلئے اہم تاریخ کا انتخاب کر رکھا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ درپیش مسائل کے حوالے سے سیاستدانوں کی توجہ کا مرکز مہنگائی، بیروزگاری اور ڈیفالٹ ہونے کے خطرے میں اضافہ ہونا چاہیے تھا مگر اس طرف کسی کی توجہ ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔
عوام کا ملکی مسائل میں دلچسپی لینا ایک صحت مند ایکٹویٹی ہے لیکن اعتدال قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ لاکھوں لوگوں کو اکٹھا کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے گی۔ حقیقی آزادی کی تحریک ختم نہیں ہو گی بلکہ نیا لائحہ عمل دیا جائے گا۔ لیکن میرے مطابق اس سارے عمل کا فوری فائدہ تحریک انصاف کو پہنچتا دکھائی نہیں دے رہا اوریہ لانگ مارچ نئی امیدوں، وعدوں اور دعووں کے ساتھ ختم کر دیا جائے گا۔ عوام کو اس نازک موقع پر اہم فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہو گیا ہے کہ عوام اب سیاسی لیڈران سے یہ سوال کریں کہ مہنگائی‘ بیروزگاری میں اضافے کی بنیاد پر لانگ مارچ کب ہوں گے کیونکہ عوام کے حقیقی مسائل یہی ہیں۔ عوام کو یہ بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو سیاسی لیڈران یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عوامی مسائل کا حل ان کی اولین ترجیح ہے‘ وہ موجودہ نازک معاشی اور سیاسی صورتحال میں کیا کر رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ یورپ کے پُر فضا مقامات پر چھٹیاں گزار رہے ہیں۔ کیا انہیں اس وقت اپنے لوگوں کے درمیان نہیں ہونا چاہیے تھا؟ وزیراعظم اور وزرا آئے روز مشاورت کے لیے لندن روانہ ہو جاتے ہیں‘ کیا یہ غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں کا ضیاع نہیں؟ عوام میں سیاسی اور معاشی شعورپیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔سیاسی صورتحال آنے والے دنوں میں کیا رخ اختیار کرتی ہے اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن معاشی صورتحال زیادہ اچھی دکھائی نہیں دے رہی۔
عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ پاکستانی کرنسی بارہ مہینوں میں کریش کر سکتی ہے۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ مزید جاری رہ سکتا ہے۔ دوسری طرف آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات فوری طور پر طے ہونے کے امکانات بھی ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے حکومتی بجٹ کے اعدادوشمار پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اعدادوشمار میں یہ بتایا جارہا ہے کہ حکومت پرائمری بجٹ سرپلس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق بجٹ خسارے میں اضافہ ہو گا۔ ذہن نشین رہے کہ موجودہ وزیر خزانہ ماضی میں بھی اعدادوشمار کی ہیرا پھیری کر چکے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو بھاری جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا تھا۔ اب پاکستان اس طرح کے کسی ایڈونچر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مبینہ طور پر سود کی ادائیگیوں کے اعدادوشمار میں ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن آئی ایم ایف اس مرتبہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا دکھائی دے رہا ہے اور کسی بھی موقع پر غیر مشروط ریلیف دینے کوتیار نظر نہیں آتا۔ اہداف کے حصول کے بغیر قرض حاصل نہیں ہو رہا اور زبانی جمع خرچ اور وعدوں پر قرض ملنے کے امکانات نہیں ہیں۔ کرنسی کی صورتحال بھی نازک ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر ختم ہو چکا ہے اور دو سو ساٹھ سے اوپر کی خریداری کی جا رہی ہے۔ گرے مارکیٹ میں ڈالر بہ آسانی دستیاب ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانی ایک مرتبہ پھر بینکنگ چینلز کے بجائے ہنڈی؍ حوالہ سے رقم بھیجنے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ فیٹف کے قوانین پر عمل درآمد پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ تھا کہ ملک سے ڈالرز کی غیر قانونی طریقے سے ٹریڈ کے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں لیکن مبینہ طور اس وقت غیر قانونی راستوں کا استعمال جتنا زیادہ ہو رہا ہے‘ شاید اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ اگر یہ صورتحال یونہی چلتی رہی تو نہ صرف فارن ایکسچینج کے ذخائر خطرناک حد تک گر جائیں گے بلکہ فیٹف کی گرے لسٹ میں دوبارہ جانے کے خدشات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
سرکار ایک طرف ڈالر کی سمگلنگ کے راستے بند نہیں کر پا رہی اور دوسری طرف برآمدکنندگان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل بھی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ انہیں قانونی حق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔ ایف بی آر نے برآمدکنندگان کے دو سو ارب روپوں کے ٹیکس ریفنڈ روک رکھے ہیں جس کی وجہ سے کیش کے شدید مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر نے یونٹس بند ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہو گا اور جو ڈالر برآمدات کی صورت میں پاکستان آ رہے ہیں‘ وہ بھی رک سکتے ہیں۔ٹیکسٹائل مصنوعات پر 16 فیصد جی ایس ٹی لاگو کرنے کے بعد کاروبار کے لیے حالات موزوں نہیں رہے۔ ان مسائل کی وجہ سے اکتوبر میں برآمدات بڑھنے کے بجائے تقریباً پندرہ فیصد کم ہو گئی ہیں جبکہ حکومت نے موجودہ مالی سال کے بجٹ میں ٹیکسٹائل برآمدات تقریباً 19ارب ڈالرز سے بڑھا کر 25ارب ڈالرز تک لے جانے کا ہدف طے کر رکھا ہے اور اگلے پانچ سالوں میں ٹیکسٹائل برآمدات 50 ارب ڈالرز تک لے جانے کا ہدف ہے۔ لیکن یہ ہدف حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا بلکہ ممکن ہے کہ اس سال ٹیکسٹائل برآمدات پچھلے سال کی نسبت کم ہو جائیں۔ حکومتی پالیسیوں کے باعث انٹرنیشنل مارکیٹ میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات دیگر ممالک کی نسبت تقریباً پندرہ فیصد تک مہنگی ہو چکی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے برآمدکنندگان کو یہی مسائل درپیش تھے‘ پچھلی حکومت نے ان مسائل کے حل کی طرف توجہ دی تھی لیکن اب پھر ان مسائل نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے۔ یہ مسائل اتنے بڑے نہیں کہ انہیں حل نہ کیا جا سکے لیکن ان کو ترجیحات میں شامل کرنا ضروری ہے۔
ان حالات میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت نے چینی کی برآمد کے حوالے سے سخت پالیسی اختیار کی ہے جو اہم ضرورت بھی ہے۔پاکستان شوگر مل ایسوسی ایشن نے ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت مانگی تھی‘ اس کا کہنا ہے کہ ملک میں وافر مقدار میں چینی موجود ہے لیکن وزارتِ خزانہ نے شوگر سٹاک کی آزادانہ تحقیقات کے بغیر چینی برآمد کرنے سے روک دیا ہے۔ گزشتہ سالوں میں مبینہ طور پر غلط اعدادوشمار پیش کر کے چینی برآمد کرنے کی اجازت حاصل کی جاتی رہی ہے۔ اس طرح پہلے چینی برآمد کی جاتی ہے‘ پھر قلت پیدا ہونے پر مہنگی چینی درآمد کی جاتی ہے۔ سابقہ دو رمیں حماد اظہر نے شوگر سٹاک کی آزادانہ تحقیقات کرائے بغیر شوگر کی برآمدات نہ کرنے کو یقینی بنانے کیلئے سخت اقدامات کیے تھے۔ بعض اتحادیوں سے حکومت کا اختلاف بھی غالباً اسی بنیاد پر ہوا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت نے چینی مافیا سے ٹکر لی تھی جس کے مثبت نتائج بعد میں سامنے آئے۔ اب موجودہ حکومت چینی مافیا کے دبائو کو کس طرح ڈیل کرتی ہے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ سردست دکھائی یہ دیتا ہے کہ حکومت جلد ہی گھٹنے ٹیک دے گی اور چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں