ملک کی سیاسی قیادت سیاسی حریفوں کو سبق سکھانے اور مبینہ طور پر ان سے بدلہ لینے کے لیے کافی متحرک دکھائی دے رہی ہے۔ فواد چودھری کے بعد اب سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے گھر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز پولیس نے چودھری پرویزالٰہی کے گھر کی حفاظت پر مامور ملازمین کو حراست میں لیا، گھر کی تلاشی لی اور واپس چلی گئی۔ چھاپہ کیوں مارا گیا‘اس کی وجوہات سامنے نہیں آسکیں۔ سرکار کو سمجھنا چاہیے کہ یہ وقت سیاسی حریفوں کے گھروں پر نہیں بلکہ شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر چھاپے مارنے کا ہے۔
پشاور میں ہونے والی دہشت گردی نے شدت پسندی کے پرانے دور کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ اس دھماکے میں اب تک 100 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں زخمی اب بھی زیرِعلاج ہیں۔خیبرپختونخوا میں پولیس پر ہونے والا یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں میں شدت پسندوں نے متعدد سکیورٹی اہلکاروں، تھانوں اور چوکیوں کو نشانہ بنایا ہے جن میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی دوبارہ کیسے جڑ پکڑ رہی ہے۔ پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف کامیاب آپریشنز کر چکی ہیں اور ملک سے دہشت گردی عملی طور پر ختم بھی ہو گئی تھی۔ 2014ء کے کامیاب آپریشن کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی انتہائی کمزور ہو گئی تھی لیکن 2021ء میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ٹی ٹی پی کے جو افراد غیر مسلح ہو کر پاکستان آنا چاہیں‘ ان کیلئے پاکستان کے دروازے کھول دیے جائیں گے۔ اس فیصلے کی ایک وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد طالبان نے پاکستان پر زور دینا شروع کر دیا تھا کہ وہ اپنے لوگوں کو افغانستان سے واپس بلائے۔ پاکستان نے یہ آفر مثبت سوچ کے ساتھ کی تھی لیکن اس کے نتائج زیادہ اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ پہلے اغوا برائے تاوان اور بھتہ لینے کی شکایات موصول ہوئیں اور پھر سکیورٹی فورسز پر حملے شروع ہو گئے۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے جب خیبرپختونخوا کے بڑے سیاسی اور کاروباری افراد سے بھتہ مانگنا شروع کیا تھا تو میں نے اپنے کالموں کے ذریعے اس مسئلے کو اجاگر کیا تھا لیکن ملک میں جاری سیاسی اور معاشی بحران کے باعث شدت پسندی کا معاملہ شاید سرکار کی ترجیحات میں شامل نہیں تھا۔ جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات شروع ہوئے تو اس وقت تک وہ دوبارہ صف بندی کر چکی تھی، مذاکرات کو ناکام ہونا ہی تھا کیونکہ اس کے فاٹا کی سابقہ حیثیت کو بحال کرنے، عام معافی کا اعلان کرنے اور ہتھیار نہ ڈالنے سمیت بہت سے ایسے مطالبات تھے جو قابلِ قبول نہیں اور ان کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ لیا جاتا کہ ریاست نے ٹی ٹی پی کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔مذاکرات کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان مذاکرات میں افغان حکومت ثالث اور مصالحت کا کردار ادا کر رہی تھی مگر اس دوران افغانستان میں ایمن الظواہری کی ڈرون حملے میں ہلاکت سمیت کچھ ایسے واقعات پیش آئے جنہوں نے بالواسطہ طور پر مذاکراتی عمل کو متاثر کیا اور افغان طالبان کا ہم پر اعتبار کم ہو گیا۔ایمن الظواہری پر حملے کے وقت پاکستان کا مذاکراتی وفد کابل میں موجود تھا ۔ذہن نشین رہے کہ اس حملے کے بعد افغانستان کے وزیر دفاع ملا یعقوب نے پاکستان کی فضائی حدود استعمال ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ گو کہ دوحہ معاہدے میں افغان طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے مگر ایسے واقعات کی آڑ میں پاکستان میں کارروائیاں تیز ہو گئیں۔ مذاکراتی عمل کے دوران سیلاب اور سیاسی عدم استحکام وہ داخلی وجوہات تھیں جنہوں نے اس عمل سے صرفِ نظر کیا اور مذاکرات کے تعطل کے نتیجے میں دونوں جانب غلط فہمیاں بڑھیں اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ جنگ بندی کا خاتمہ ہوا اور دونوں جانب سے کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ میرے مطابق حکومت کو سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس نے اس صورتحال کا مقابلہ کرنا ہے یا اس کو اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ اگر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ اگر مقابلہ کرنا ہے تو جہاں شدت پسند کارروائی کرتے ہیں‘ وہاں بھرپور جواب دینے کی ضرورت ہے۔ جہاں پر مذاکرات کی بات ہو‘ وہاں نرم پالیسی اختیار کی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے قوم کو بھی اعتماد میں لیے جانے کی ضرورت ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے نکات پر مکمل عمل پیرا ہونا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ افغان حکومت کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی تفریق کو ختم کرنے کے بھی مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اگردہشت گردانہ حملے اسی طرح جاری رہے تو ملک کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ملکی قیادت اس حوالے سے کیا فیصلے کرتی ہے‘ اس کا علم اگلے چند روز میں ہو جائے گا۔
ایک طرف دہشت گردی کی ابھرتی ہوئی لہر اور داخلی سیاست نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے اور دوسری طرف آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچ چکا ہے اور عوام پر مہنگائی کا بم گرانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان برآمدی شعبے کو دیا جانے والا 110 ارب روپے کا استثنا ختم کرنے، 7470 ارب روپے ٹیکس وصولیوں کاہدف پوراکرنے، توانائی کے گردشی قرضے میں خاطرخواہ کمی لانے اور پٹرولیم لیوی کی مد میں 855 ارب روپے کی وصولی کو یقینی بنانے سے متعلق فیصلے کیے جا چکے ہیں۔ پٹرول پر سیلز ٹیکس لگانے کے بجائے پٹرولیم لیوی 80 سے 100 روپے تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ابھی تک آئی ایم ایف اور ایف بی آر کے مابین مذاکرات ناکام رہے ہیں۔ ایف بی آر نے 167 ارب روپوں کا ٹیکس لگانے کا منصوبہ پیش کیا ہے جبکہ آئی ایم ایف نے چھ سو ارب روپے کا ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایکسچینج ریٹ کے حوالے سے حکومت نے آئی ایم ایف کا مطالبہ مان لیا ہے۔ اس کے بعد بڑا ہدف بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہے۔ مختلف شعبوں کو دی جانے والی انرجی سبسڈیاں ختم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ گیس کی قیمت میں تیس فیصد اور بجلی کی قیمت میں چھ روپے فی یونٹ اضافہ کیا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف پرائمری بجٹ خسارے کو پرائمری بجٹ سرپلس میں تبدیل کرنے کا بھی مطالبہ کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے یہ مطالبات نئے نہیں ہیں۔ یہ تجاویز سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ صاحب نے آئی ایم ایف کو دی تھیں جنہیں آئی ایم ایف نے قبول کیا تھا۔
فی الحال حکومت کا ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے مطابق لانے کا فیصلہ درست دکھائی دے رہا ہے۔ ڈالر ریٹ تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھونے کے بعد اب بتدریج کم ہو رہا ہے۔ برآمدکنندگان نے ڈالر بیرونِ ممالک سے منگانا شروع کر دیے ہیں۔ اس وقت بینکوں اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر وافر مقدار میں موجود ہیں۔ کابل میں بھی ڈالر کا ریٹ نیچے آنے کی اطلاعات ہیں۔ البتہ سوال یہ ہے کہ ڈالر کو مصنوعی طور پر نیچے رکھنے کا ملک کو جو نقصان ہوا ہے‘ اس کا ازالہ کیسے ممکن ہو سکے گا اور اس دوران منی ایکسچینجرز نے مبینہ طور پر جو پیسے کمائے ہیں‘ ان کا حساب کیسے لیا جائے گا۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر پہلے بھی وافر مقدار میں موجود تھے لیکن حکومت کے غلط فیصلوں سے فائدہ اٹھایا گیا۔ اطلاعات ہیں کہ ملک کے کچھ حصوں میں منی ایکسچینجرز نے اتنے ڈالر خرید لیے کہ انہیں روپے کی قلت کا سامنا رہا جسے انہوں نے اپنی گاڑیاں اور مکان بیچ کر پورا کیا۔ ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار ڈالرز خریدنے پر اٹھارہ سے بیس لاکھ روپے منافع ہو رہا تھا۔ حکومت کی جانب سے کسی قسم کی تادیبی کارروائی کرنے کی کوئی امید نہیں ہے۔ ابھی تک ان بینکوں کے خلاف بھی کوئی ایکشن نہیں لیا جنہوں نے مبینہ طور پر ماضی میں ڈالر ریٹ کو مصنوعی طریقے سے بڑھا کر اربوں روپے کمائے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ منی ایکسچینجرز نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا مناسب سمجھا۔