قرضے، آئی ایم ایف اور سیاسی اثرات

پاکستان میں نظامِ عدل کے حوالے سے میں کافی مرتبہ لکھ چکا ہوں۔ عدالتوں کا کام محض انصاف فراہم کرنا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا ماحول بھی پیدا کرنا ہوتا ہے جس میں انصاف ہوتا دکھائی دے۔ سائلین کو اطمینان ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھ انصاف ہو گا۔ ہمارے ہاں مگر عجب روایت ہے۔ سیاسی جلسوں میں معزز جج صاحبان کا نام لے کر انہیں مخاطب کیا جاتا ہے‘ انہیں متنازع بنانے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ گزشتہ دنوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کرانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کا فیصلہ آیا جس سے ایک نئی بحث نے جنم لیا۔ صد شکر کہ سپریم کورٹ نے اگلے ہی روز اس فیصلے کو نمٹا دیا اور قرار دیا کہ اختلافی فیصلہ عدالت کا اندرونی معاملہ ہے‘ اقلیتی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، نہ ہی اقلیتی فیصلہ اکثریتی فیصلے پر غالب آ سکتا ہے۔ اس وقت عدالت عظمیٰ میں پانچ رکنی لارجر بینچ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب کے انتخابات کو ملتوی کر کے اکتوبر میں الیکشن کرانے کے فیصلے سے متعلق کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے فل کورٹ بینچ بنانے کی درخواست کی جا رہی ہے تاکہ اس اہم قومی معاملے میں ابہام ختم ہو سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فل کورٹ کے فیصلے پر نہ تو کوئی اعتراض کیا جا سکے گا اور نہ ہی کسی کو مظلوم بننے کا موقع مل سکے گا۔ گو کہ بینچ بنانا سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے لیکن کسی فریق کے مطالبے پر ایسا کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے کیس میں بھی حکومت نے مطالبہ کیا تھا کہ فل کورٹ بنایا جائے، جس پر دورانِ سماعت چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دیے تھے کہ ''فل کورٹ تب بنائی جاتی ہے جب بہت سنجیدہ نوعیت کا معاملہ درپیش ہو‘‘۔ اس وقت عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ آرٹیکل 63 اے پر عدالت پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے‘ لہٰذا معاملہ اتنا سنجیدہ نوعیت کا نہیں کہ فل کورٹ بنائی جائے۔ اب بھی معاملہ کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ انتخابات کے حوالے سے آئین واضح طور پر 90
دن کی میعاد مقرر کرتا ہے۔ شاید اسی لیے حکومت نے اب چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے عدالتی بحران ختم ہوگا یا نیا بحران جنم لے گا‘ اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ ملک میں سیاسی اور معاشی بحران پہلے ہی چل رہا تھا‘ اب آئینی و عدالتی بحران سے عالمی سطح پر ملک کے امیج کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ جن معاشروں میں عدالتوں کو آزادانہ طور پر کام نہیں کرنے دیا جاتا‘ وہاں معاشی اور سیاسی نظام بھی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پاتے۔ ناانصافی ایک ایسا کینسر ہے جو دھیرے دھیرے پورے معاشرے کو معذور کر دیتا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کو شاید ایسے ہی حالات کا سامنا ہے‘ جنہوں نے صحت مند ملک کو مسائلستان بنا دیا ہے۔ جس طرف بھی نظر دوڑائیں ہر معاملہ ہاتھ سے نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ انتخابات کے حوالے سے چیف جسٹس صاحب نے کہا ہے کہ اگر حکومت کے پاس الیکشن کرانے کے لیے فنڈز نہیں ہیں تو ہم اپنی تنخواہوں میں کٹوتی کر لیتے ہیں۔ یہ وہی تجویز ہے جو میں نے اپنے پچھلے کالم میں دی تھی کہ سرکاری افسران کی چند دن کی تنخواہیں کاٹنے سے الیکشن کے لیے فنڈز اکٹھے ہو سکتے ہیں‘ بشرطیکہ حکومت کی نیت صاف ہو۔ انتخابات کے التوا کے فیصلے سے الیکشن کمیشن بھی متنازع ہو چکا ہے۔
یہ مسائل نجانے کب حل ہوں‘ آئیے ایک نظر معیشت پر ڈالتے ہیں۔ عمران خان صاحب سے گزشتہ دنوں میری ملاقات ہوئی تھی‘ جس میں تحریک انصاف کے چیئرمین نے مجھے اپنا معاشی منشور بتایا تھا‘ جس کا ذکر میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں کیا تھا۔ میں نے خان صاحب سے گزارش کی تھی کہ اس منشور کو آپ خود عوام کے سامنے لائیں‘ نیز اسے تحریری طور پر بھی شائع کیا جائے۔ خان صاحب نے کہا تھا کہ وہ جلد ایک جلسے میں یہ معاشی منشور عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ اب مینارِ پاکستان کے جلسے میں انہوں نے اپنا دس نکاتی معاشی منشور پیش کیا ہے‘ عوامی اور مقتدر حلقوں میں اس کی پذیرائی کی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی اسے تفصیلی طور پر شائع بھی کیا جائے گا۔
پاکستانی معیشت میں امریکہ اور چین کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ دونوں لابیز کو متوازن رکھنے میں ہی پاکستان کی بہتری رہی ہے لیکن موجودہ حکومت نے ایک طرف جھکاؤ زیادہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ شاید اسی لیے امریکہ میں ''جمہوریت سربراہی کانفرنس‘‘ میں شرکت نہ کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے۔ سیاسی، مالی اور آئینی بحرانوں میں گھری حکومت کے لیے امریکہ کی ناراضی مول لینے کا فیصلہ سود مند ثابت نہیں ہو گا۔ ایک طرف حکومت آئی ایم ایف سے ریلیف کیلئے امریکہ سے مدد کی درخواست کر رہی ہے اور دوسری طرف جمہوریت سربراہی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کر رہی ہے۔ اس طرح کے متضاد فیصلے کیوں کیے جا رہے ہیں؟ اس وقت حکومت آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق بھی زیادہ سنجیدگی نہیں دکھا رہی۔ شاید چین نے کوئی بڑی تسلی دی ہو‘ لیکن یہ واضح نہیں ہے۔ چین نے 22 ترقی پذیر ممالک میں 2008ء سے 2021ء کے دوران 240 ارب ڈالر خرچ کیے۔ حالیہ برسوں کے دوران اس میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا کیونکہ کئی ممالک کو 'بیلٹ اینڈ روڈ‘منصوبے کے تحت انفراسٹرکچر کی تعمیر پر خرچ کیے گئے قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ تقریباً 80 فیصد بیل آؤٹ قرضے 2016ء سے 2021ء کے درمیان وسط آمدنی کے حامل ممالک بشمول ارجنٹائن، منگولیا اور پاکستان کو دیے گئے۔ چین نے ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے سینکڑوں ارب ڈالر قرضے دیے لیکن 2016ء کے بعد ان قرضوں میں کمی آئی کیونکہ متعدد منصوبوں سے متوقع مالیاتی نفع نہیں مل سکا۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بیجنگ بالآخر اپنے بینک کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے اس لیے وہ عالمی بیل آؤٹ قرضوں کے خطرناک کاروبار میں پھنسے ممالک کی مدد کرنا چاہتا ہے۔
2010ء میں قرض کی وجہ سے مشکلات کے شکار ممالک میں کُل غیر ملکی قرضوں میں چین کا حصہ 5 فیصد تھا جو 2022ء میں 60 فیصد تک پہنچ گیا۔ ارجنٹائن نے سب سے زیادہ 111 ارب 80 کروڑ ڈالرز کی رقم وصول کی، مصر نے 15 ارب 60 کروڑ ڈالر وصول کیے جبکہ 9 ممالک نے ایک ارب ڈالر سے کم قرضے لیے۔ پیپلز بینک آف چائنا (پی بی او سی) نے مالیاتی مشکلات سے بچانے کیلئے 170 ارب ڈالر کے قرضے دیے جن میں سرینام، سری لنکا اور مصر جیسے ممالک شامل ہیں۔ توازنِ ادائیگی میں معاونت کیلئے چین کے
سرکاری بینک نے 70 ارب ڈالر دیے۔اسی طرح رول اوور کیلئے 140 ارب ڈالر دیے گئے۔ معاشی طور پر کمزور ممالک میں سے اکثریت قرضے استعمال کرکے مصنوعی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھاتی ہے‘ پاکستان بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔ چین کے بیل آؤٹ قرضوں کو مبہم اور غیر مربوط قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ بیل آؤٹ قرضے زیادہ تر وسط آمدنی ممالک کو دیے گئے جو کُل قرضوں کا 80 فیصد بنتا ہے‘ جس وجہ سے چینی بینکوں کی بیلنس شیٹس کو خطرات لاحق ہوئے ۔ چین قرضوں کی تنظیم نو کے لیے زیمبیا، گھانا اور سری لنکا سے مذاکرات کر رہا ہے اور اسی وجہ سے مغربی ممالک چین کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس کے رد عمل میں چین کی جانب سے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرض میں ریلیف دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔حالات کے پیشِ نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ پاکستان بھی چین سے قرضوں میں ریلیف اور بیل آؤٹ لینے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کا امیدوار ہے۔ موجودہ حالات میں چین کی طرف سے معاشی مدد بہت اہمیت رکھتی ہے اور ممکن ہے کہ معاشی بوجھ وقتی طور پر کچھ کم ہو جائے لیکن ذہن نشین رہے کہ جن ممالک نے زیادہ قرض لیے وہ بالآخر دیوالیہ ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی ایک ملک تنہا پاکستان کو بیل آؤٹ پیکیج نہیں دے سکتا۔ اگر چین پاکستان کی مدد کرنے کیلئے آگے بڑھتا ہے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ وہ طویل عرصے تک زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کیلئے ڈالرز فراہم کرتا رہے گا۔ پاکستان کو بیک وقت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی ضرورت رہے گی اور یہ ممالک اور ادارے آئی ایم ایف کی چھتری کے بغیر پاکستان کو قرض فراہم نہیں کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں