ملکی حالات اور جی20اجلاس

عدالتیں کسی بھی ملک کا چہرہ ہوتی ہیں اور ججز معاشرے کے سب سے معزز لوگ سمجھے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ججز کو نسبتاً زیادہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ زیادہ اختیارات زیادہ ذمہ داری کا بھی تقاضا کرتے ہیں۔ اس لیے ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا ضروری ہو جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی پارلیمنٹ میں حاضری اور خطاب کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ شاید اسی لیے انہیں وضاحت جاری کرنا پڑی۔ کیا اس وضاحت کی ضرورت تھی اور کیا عوامی سطح پر اسے پذیرائی مل رہی ہے یا نہیں‘ اس بارے میں رائے منقسم ہے لیکن عمومی رائے یہی پائی جاتی ہے کہ موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں اگر ان کی طرف سے پارلیمنٹ جانے سے احتیاط برتی جاتی تو بہتر تھا۔ انصاف کے ادارے سیاست سے جتنا دور رہیں عوام کا ان پر اعتماد بحال رہتا ہے۔ یہاں پر سپیکر قومی اسمبلی سے بھی یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ جب دو مرتبہ یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ سیاست پر بات نہیں ہو گی تو پھر کیوں ایک کنونشن کو اسمبلی اجلاس کی طرح چلایا گیا‘ جج صاحب کو سیاستدانوں کے ساتھ کیوں بٹھایا گیا اور انہیں سپیکر قومی اسمبلی کے برابر جگہ کیوں نہیں دی گئی۔ سیاست کو عبادت کہا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں سیاست موقع پر چوکا مارنے کا نام ہے۔ شاید پی ڈی ایم نے سوچا کہ سیاست کرنے کا اس سے بہتر موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔
ہماری حکومت سیاست میں مصروف ہے اور بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں جی 20ممالک سے متعلق اجلاس منعقد کرنے کی تیاری کر رہی ہے جس پر پاکستانی دفتر خارجہ نے مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہبھارت کا یہ غیر ذمہ دارانہ اقدام اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں‘ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ بھارت جی 20ممالک کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کی 22سے 24مئی تک سری نگر میں میزبانی کرنے کی تیاری کر رہا ہے جبکہ 'وائی20‘ یوتھ فورم کے دو مشاورتی اجلاس بھی وہاں طے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سب سے بڑا تنازع ہے جس پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ تقریباً چار سال قبل جوہری صلاحیت رکھنے والے جنوبی ایشیا کے یہ دونوں ممالک ایک اور جنگ کے دہانے پر اس وقت پہنچ گئے تھے جب فروری 2019ء میں پاکستانی فضائیہ نے ملکی حدود میں گھسنے والا بھارت کا ایک جنگی جہاز مار گرایا تھا اور اس کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو حراست میں لے لیا تھا۔ تاہم ایک ہی دن بعد عمران خان حکومت نے انہیں بھارت کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے موجودہے۔ اس مرتبہ جی 20ممالک کیاجلاس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پر بھارتی حکومت کے جبر اور خطے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنے کی کوششوں کو چھپانا لگ رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ انڈیا ایک بار پھر ایک اہم بین الاقوامی گروپ کی اپنی رکنیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ پاکستان کے دوست ملک چین نے بھی اس بھارتی اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
جی 20دنیا کی 20بڑی معیشتوں کی تنظیم ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں ان 20ممالک کا حصہ 80فیصد ہے۔ یکم دسمبر 2022ء سے 30نومبر 2023ء تک جی 20کی سربراہی بھارت کے پاس ہے۔ اس کے لیے انتظامات کی غرض سے مقبوضہ جموں و کشمیر حکومت نے 23جون کو ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی اور ریاست کے ہاؤسنگ اور شہری ترقی کے محکمے کے پرنسپل سیکریٹری کو اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔ یہ کمیٹی چار جون کو وزارتِ خارجہ سے موصول ہونے والی ہدایات کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی۔ 26جون کو پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری حکومتیں صرف مذمتی بیان دے کر وقت گزاریں گی یا پھر سفارتی محاذ پر بھی کوئی اقدامات کیے جائیں گے۔ اس معاملے کو بہت احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان‘ چین‘ ترکیہ اور انڈونیشیا کو اس اجلاس میں شرکت سے نہ کرنے کا کہہ سکتا ہے۔ چین نے پچھلے سال بیان جاری کیا تھا کہ جی 20بین الاقوامی اقتصادی اور مالی تعاون کے لیے ایک اہم فورم ہے۔ ہم تمام بڑی معیشتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عالمی معیشت کو مشکلات سے نکالنے پر توجہ دیں اور اس سربراہی اجلاس پر سیاست نہ کریں۔ ہمیں عالمی معیشت کی بہتری کے لیے مثبت اقدامات کرنے چاہئیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے کئی مواقع پر مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی کھل کر حمایت کی ہے۔ فروری 2020ء میں پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران صدر اردوان نے کہا تھا کہ کشمیر جتنا اہم پاکستان کے لیے ہے اتنا ہی ترکیہ کے لیے بھی ہے۔ ترکیہ نے بھی مقبوضہ کشمیر سے آرٹیکل 370ہٹانے کی مخالفت کی تھی۔ بھارت کی وزارتِ خارجہ نے صدر اردوان کے ریمارکس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترکیہ کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے لیکن صدر اردوان مختلف فورمز پر کشمیر کے حق میں آواز اٹھاتے رہے۔ موجودہ حالات میں مگر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے ترکیہ جیسے رویے کی امید نہیں کی جا سکتی کیونکہ متحدہ عرب امارات مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی کئی ترقیاتی منصوبے شروع کر چکا ہے اور نریندر مودی کا یو اے ای میں تاریخی استقبال بھی کیا گیا تھا۔ یو اے ای کے صدر خود مودی کے استقبال کے لیے ہوائی اڈے پر کھڑے ہوئے تھے۔ آرٹیکل 370کے خاتمے پر سعودی عرب نے بھی بھارت کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا تھا۔ دیگر یورپی ممالک اور امریکہ سے بھی امید لگانا عبث ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بھارت اس مرتبہ بھی اپنے مشن
میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک کمزور معیشت ہیں اور حکمرانوں کی توجہ معیشت کو درست کرنے کے بجائے سیاست پر مرکوز ہے۔ جی 20ممالک پر اثر انداز ہونا شاید پاکستان کے لیے ایک خواب ہی بن کر رہ جائے۔ عالمی طاقتیں یہ سوال اٹھانے لگی ہیں کہ جس ملک کے پاس حج کا مقدس فریضہ ادا کرنے کے لیے ڈالرز نہیں ہیں‘ وہ کس طرح معاشی بحران سے نکل سکے گا۔ اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان نے ڈالرز کی قلت کے باعث حج کوٹے کا دس فیصد سعودی عرب کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مارچ میں حکومت نے یہ پالیسی دی تھی کہ کوٹے میں سے آدھے امیدوار ڈالرز میں ادائیگی کریں گے لیکن وہ منصوبہ کام نہیں کر سکا۔ صرف آٹھ ہزار درخواست گزار ہی ڈالرز میں ادائیگی کر پائے۔ مجبوراً حکومت نے تقریباً آٹھ ہزار سیٹیں واپس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ڈالرز کی قلت کے باعث حجاج کی تعداد میں کمی کر دی جائے۔ پاکستان کے لیے صورتحال تشویش ناک ہے۔ معاملہ اگر چند ماہ یا سال کا ہو تو کچھ امید باقی رہتی ہے لیکن حکمرانوں کے رویوں سے مستقبل قریب میں بھی امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ ایک طرف ملکی مسائل حل نہیں ہو رہے اور دوسری طرف آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد نہیں ہو پا رہا۔وزراتِ خزانہ نے آئی ایم ایف سے گردشی قرضوں میں کمی لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن پچھلے آٹھ ماہ میں ان میں تقریباً سوا چار سو ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پچھلے سال جولائی میں تقریباً سات روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔ فروری 2023ء میں تین روپے سے پندرہ روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے اب یہ کہہ رہے ہیں کہ بجلی کی قیمتیں بڑھا کر بھی گردشی قرضے کم نہ ہونا کمزور مینجمنٹ کا نتیجہ ہے۔ خیبرپختونخوا اور سندھ میں ایسے فیڈرز ہیں جہاں آج بھی 99فیصد ریکوری نہیں ہوتی ہے۔ بجلی کی قیمتیں بڑھانے سے بجلی کی چوری کم ہونے کے بجائے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ بدقسمتی سے یہ معاملہ بھی سیاست کی نظر ہو چکا ہے اورآنے والے دنوں میں گردشی قرضے کم نہیں ہوں گے بلکہ ان میں مزید اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں