نگران وزارتِ خزانہ اور معاشی چیلنجز

نگران حکومت کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ وزیراعظم سے زیادہ جس وزارت کی طرف سب سے زیادہ امید بھری یا سوالیہ نظروں سے دیکھا جارہا ہے‘ وہ وزارتِ خزانہ ہے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے ہر سیاسی اور غیرسیاسی حکمران نے ملک سے غربت ختم کرنے‘ مہنگائی کم کرنے اور روزگار بڑھانے کے وعدے اور دعوے کیے ہیں‘ لیکن 80فیصد سے زیادہ حکومتیں ان دعووں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہیں۔ اس وقت ملک شدید مالی بحران کا شکار ہے اور ہر خاص و عام یہ جاننا چاہتا ہے کہ آنے والے دن معاشی اعتبار سے کیسے ہوں گے۔ اس مرتبہ دو معاشی ماہرین کو ملک کی معاشی سمت درست کرنے کیلئے اکٹھا کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شمشاد اختر کو وزارتِ خزانہ اینڈ ریونیو‘ اکنامک افیئرز‘ شماریات اور نجکاری کی ذمہ داریاں دی گئی ہیں اور ان کی مدد کیلئے ڈاکٹر وقار مسعود کو مشیرِ خزانہ بنایا گیا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی معاشی ٹیم جانتی ہے کہ ان کیلئے معاشی چیلنجز کیا ہیں اور کیا وہ ان چیلنجز پر قابو پا سکے گی یا نہیں؟
اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہے۔ یہ روایت رہی ہے کہ نگران حکومت کے دور میں ڈالر ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ جانے والی حکومت آخری دنوں میں مصنوعی طریقے سے ڈالر کو کنٹرول کرتی ہے اور سارا بوجھ نگران حکومت پر ڈال جاتی ہے۔ اب نگران حکومت کو کئی چیلنجز درپیش ہیں‘ اصل کام ڈالر کی سمگلنگ روکنا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ افغان ایران بارڈر پر ڈالر کی سمگلنگ نہیں روکی جا رہی۔ شاید یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اس طرح انٹر بینک کے ذریعے ڈالرز کا بوجھ نہیں پڑے گا۔ یہ اپروچ غلط ہے کیونکہ اس پالیسی کی وجہ سے گرے مارکیٹ اور انٹربینک میں ڈالر کا فرق تقریباً بیس روپے تک بڑھ گیا ہے۔ ایکسپورٹ کا زیادہ ڈالر اس وقت گرے مارکیٹ میں آ رہا ہے۔ نگران حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے ڈالر گرے مارکیٹ سے نکل کر ایکسچینج کمپنیز اور بینکوں میں آئے۔ اس کیلئے ایکسچینج کمپنیز پر نومبر 2022ء میں جو پابندیاں لگائی گئی تھیں‘ انہیں ختم کیا جانا چاہیے۔ پانچ سو یاہزار ڈالرز خریدنے کیلئے شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ‘ بینک سٹیٹمنٹ‘ بینک ڈپازٹ سلپ اور سورس آف اِنکم مانگنے پر کون ایکسچینج کمپنیز سے ڈالر خریدے گا۔ ایکسچینج کمپنیز کے پاس صرف دس فیصد کام رہ گیا ہے‘ باقی تقریباً گرے مارکیٹ میں چلا گیا ہے۔ غیریقینی ایکسچینج ریٹ مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے مطابق رکھا جائے۔ اوپن مارکیٹ اور انٹربینک کا فرق 1.25فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے وزارتِ خزانہ سے پہلی میٹنگ میں ہی ایکسچینج ریٹ میں مداخلت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ڈاکٹر شمشاد اختر جب 2018ء میں نگران وزیر خزانہ بنی تھیں‘ اس وقت بھی روپے کی قدر میں تقریباً 8فیصد تک کمی کی گئی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نئی ٹیم معاشی چیلنجز سے آگاہ ہے لیکن اس کے ہاتھ بندھے ہیں اور عوام کو کوئی ریلیف ملنا مشکل ہے۔ نگران حکومت کو معاشی معاملات وہیں سے چلانا ہوں گے جہاں پچھلی حکومت چھوڑ کر گئی ہے۔ ان کا ایجنڈا آئی ایم ایف کے ایجنڈے کو مکمل کرنا ہے۔ یہ خود سے کوئی نیا پلان نہیں بنا سکتی۔ اطلاعات ہیں کہ بینک ایکسپورٹرز کو ایکسپورٹ ویلیو کے تقریباً اسی فیصد پر کم شرح سود پر جو قرض دیتے تھے‘ نگران حکومت کے ذریعے یہ سہولت بھی واپس لی جا رہی ہے۔ اس سے ایکسپورٹرز بھی پریشان ہیں اور امپورٹرز بھی۔
شنید ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم نومبر میں پاکستان کا دورہ کرے گی۔ پی ڈی ایم حکومت نے جو وعدے کیے ہیں‘ نگران حکومت اس پر کتنا عملدرآمد کرتی ہے‘ اس کا جائزہ لیا جائے گا۔ ادھر بجٹ خسارہ بڑا مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف تقریباً ساڑھے چار ٹریلین روپے تھا‘ جو بڑھ کر تقریباً پونے سات ٹریلین ہو چکا ہے۔ پچھلے مالی سال کے اختتام پر حکومتی اخراجات بجٹ سے تقریباً 18 فیصد زیادہ تھے حالانکہ آئی ایم ایف نے حکومتی اخراجات کم کرنے کی شرط بھی عائد کر رکھی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو عالمی مارکیٹ کے مطابق رکھنا اور سبسڈی نہ دینا معاہدے کا حصہ ہے۔ اگر اس پر عملدرآمد ہوا تو پٹرولیم مصنوعات کے قیمتیں چار سو روپے فی لٹر تک بڑھ سکتی ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو ناکافی قرار دیا جارہا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا۔ نگران حکومت شرح سود میں بھی مزید اضافہ کر سکتی ہے۔ پچھلے مالی سال میں ٹیکس اہداف حاصل نہیں ہو سکے تھے۔ ممکن ہے کہ ٹیکس وصولیاں بڑھانے کیلئے ایک اور منی بجٹ سامنے لایا جائے۔ دسمبر 2023ء کے بعد قرضوں کی ادائیگی بھی بڑا ٹارگٹ ہے۔ تقریباً 15 بلین ڈالرز کے قرض ادا کرنے ہیں۔ نگران حکومت یہ ڈالرز کیسے مینج کرے گی‘ یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ نگران حکومت کیلئے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے اہداف حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت اس حوالے سے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکی تھی۔ کونسل کا انحصار پاکستانی معدنیات پر ہے۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستانی معدنیات کی مالیت 60کھرب ڈالرز سے زیادہ ہے لیکن ان سے مطلوبہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ یوں کہیے کہ ہم سونے‘ تانبے اور کوئلے کے کھربوں ڈالرز کے اثاثوں کے اوپر جھولی پھیلائے بیٹھے ہیں۔ یہ دعوے نئے نہیں ہیں بلکہ ستر سالوں میں کئی مرتبہ ملکی ذخائر پر رپورٹس بنا کر پیش کی گئیں اور عوام کو امید دلائی گئی۔ اس مرتبہ جو دعویٰ کیا جا رہا ہے اس کی اہمیت جاننے کیلئے ایک تقابلی جائزہ ضروری ہے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق روس کے معدنی ذخائر کی مالیت 75کھرب ڈالر ہے جن میں کوئلہ‘ تیل‘ قدرتی گیس‘ سونا اور لکڑی شامل ہیں۔ دوسرے نمبر پر امریکہ ہے جس کے معدنی ذخائر کی مالیت تقریباً 45کھرب ڈالر ہے جن میں 90فیصد کوئلہ اور ٹمبر کے علاوہ تانبا‘ آئل اور گیس شامل ہیں۔ تیسرے نمبر پر سعودی عرب ہے‘ جس کے معدنی ذخائر کی مالیت تقریباً 34کھرب ڈالر ہے۔ چوتھے نمبر پر کینیڈا ہے‘ جس کے معدنی ذخائر کی مالیت33کھرب ڈالر ہے ۔ پانچویں نمبر پر ایران ہے‘ جس کے معدنی ذخائر کی مالیت تقریباً 27کھرب ڈالر ہے۔ چھٹے نمبر پر چین ہے‘ جس کے معدنی ذخائر کی مالیت23کھرب ڈالر ہے جن میں کوئلہ‘ سونا اور المونیم وغیرہ شامل ہیں۔ ساتویں نمبر پر برازیل ہے‘ جس کے معدنی ذخائر کی مالیت 22کھرب ڈالر ہے۔ آٹھویں نمبر پر آسٹریلیا ہے‘ جس کے معدنی ذخائر کی مالیت20کھرب ڈالر ہے۔ نویں نمبر پر عراق ہے جس کے معدنی ذخائر کی مالیت16کھرب ڈالر ہے جن میں تیل اور گیس شامل ہیں۔ دسویں نمبر پر وینزویلا ہے‘ جسکے معدنی ذخائر کی مالیت14کھرب ڈالر ہے۔ اس حساب سے پاکستان معدنی ذخائر کے حساب سے دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ صرف ریکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی مالیت 500ارب ڈالر ہے لیکن بدقسمتی سے ان معدنی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دعووں میں کتنی سچائی ہے۔ معدنی وسائل کے اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار مکمل طور پر درست نہیں۔ ذخائر موجود ہونا اور ان کا قابلِ استعمال ہونا دو علیحدہ موضوع ہیں۔ ابھی تک یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ تھر کا کوئلہ کس حد تک قابلِ استعمال ہے۔ جہاں تک بات ہے ریکوڈک کی تو اسکا 50فیصد حصہ ہم پہلے ہی بیچ چکے ہیں۔ ہمارے ملک میں بغیر تحقیق کیے ہی دعوے کر دیے جاتے ہیں لیکن معدنی وسائل کی بنیاد پر ترقی کرنا اُسی وقت ممکن ہے جب عالمی طاقتیں پاکستان کے ان دعووں پر یقین کریں۔ ابھی تک ہم اپنی نظروں میں ہی امیر ترین ہیں‘ دنیا کی نظروں میں نہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نگران حکومت اس صورتحال میں میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی لہٰذا نگران حکومت سے زیادہ امیدیں لگانا عبث ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں