ایشیائی ممالک میں دنیا بھر میں استعمال ہونے والے چاول کا 90 فیصد اگایا جاتا ہے؛ تاہم یہاں پیداوار کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ فلپائن ایل نینو کے حوالے سے کم بارش کی توقع میں پانی کا محتاط استعمال کر رہا تھا جبکہ طوفان ڈوکسری نے چاول پیدا کرنے والے شمالی علاقوں میں تباہی مچا دی جس سے چاول کی 32 ملین ڈالر مالیت کی فصلوں کو نقصان پہنچا جو فلپائن کی سالانہ پیداوار کا 22 فیصد ہے۔ جزیرہ نما فلپائن چین اور امریکہ کے بعد چاول کا تیسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور اس کے صدر فرڈینینڈ مارکوس جونیئر نے چاول کے مناسب ذخائر کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ واضح رہے کہ ایل نینو ایک ایسا موسمی رجحان ہے جس میں بحرالکاہل کے ایک حصے میں پانی گرم ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر موسم میں تبدیلی آتی ہے جبکہ آب و ہوا کی تبدیلی اس میں اور بھی شدت کا باعث بنتی ہے۔ بھارت کی جانب سے چاول کی برآمد پر پابندیاں غیر معمولی موسم ہی کی وجہ سے ہیں۔ ایک غیر متوازن مون سون کے ساتھ ساتھ 'ایل نینو‘ کی وجہ سے خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ تھا جن کو کنٹرول کرنے کے لیے جزوی پابندیاں ضروری تھیں۔ کھاد کی قیمتوں میں اضافے اور ہارن آف افریقہ میں برسوں سے جاری خشک سالی کی وجہ سے کینیا میں چاولوں کی پیداوار کم اور قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت سے درآمد کیے گئے چاولوں کی کم قیمت نے اس خلا کو پُر کیا تھا اور اس سے نیروبی کی کچی آبادیوں کے لاکھوں رہائشیوں کو کھانا میسر آیا تھا جن کی آمدن روزانہ دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ لیکن اب یہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے اور 25 کلوگرام چاول کے تھیلے کی قیمت میں جون کے بعد سے اب تک پانچ بار اضافہ ہو چکا ہے۔ چاول فروخت کرنے والوں کو ابھی تک نئے سٹاک موصول نہیں ہوئے۔ بھارت کی جانب سے چاول کی برآمدات پر جزوی پابندی کے بعد دنیا بھر کو فراہم کیے جانے والے چاولوں کی سپلائی میں 20 فیصد تک کمی واقع ہو گئی ہے۔ چاول کی عالمی برآمدات میں بھارت کا حصہ 40 فیصد سے زیادہ ہے۔ 2022ء میں یہ 55.4 ملین ٹن تھا جو دنیا کے چار سب سے بڑے چاول برآمد کرنے والے ممالک تھائی لینڈ، ویتنام، پاکستان اور امریکہ کی مشترکہ برآمدات سے بھی زیادہ تھا۔ بھارت 140 سے زیادہ ممالک کو چاول برآمد کرتا ہے۔ بھارت کے نان باسمتی چاول کے بڑے خریداروں میں افریقی ممالک انگولا، کیمرون، جبوتی، آئیوری کوسٹ، کینیا اور نیپال شامل ہیں۔ بھارت نے 2022ء میں 17.86 ملین ٹن نان باسمتی چاول برآمد کیا جس میں 10.3 ملین ٹن سفید چاول شامل تھا۔ ستمبر 2022ء میں بھارت نے ٹوٹا چاول کی برآمد پر پابندی لگا دی اور چاول کی مختلف اقسام کی برآمد پر 20 فیصد ڈیوٹی عائد کر دی۔
پاکستان بھی چاول برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ مالی سال 2021-22ء میں پاکستان نے 4.5 ملین ٹن چاول برآمد کیا جس میں سے 3.7 ملین ٹن نان باسمتی چاول تھا۔ چاول کی اس برآمد سے 2.64 ارب ڈالر کا زرِمبادلہ حاصل ہوا؛ تاہم مالی سال 2022-23ء میں پاکستان کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی اور مجموعی طور پر 3.1 ملین ٹن نان باسمتی چاول ایکسپورٹ کر کے2.1 ارب ڈالر زرِمبادلہ کمایا گیا۔ اس کمی کی وجہ بارشوں اور سیلاب کا سلسلہ تھا۔ ایک اور وجہ ایران اور افغانستان کو تین لاکھ ٹن چاول کی برآمد تھی جو ڈاکیومنٹڈ نہیں تھی۔ علاوہ ازیں چاول کی کاشت کے زرعی رقبے میں بھی کمی واقع ہوئی؛ تاہم اب بھارت کی جانب سے چاول کی برآمد پر پابندی سے پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق اس سال چھ ملین ایکڑ رقبے پر چاول کی کاشت ہوئی ہے۔ اگر موسمی حالات بہتر رہے اور سیلاب کی کیفیت کا سامنا نہ کرنا پڑا تو امید ہے کہ اس بار چاول کی برآمد کا نیا ریکارڈ قائم کیا جا سکے گا؛ تاہم اس کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ بھارت کی جانب سے چاول کی برآمد پر پابندی کب تک برقرار رہتی ہے۔ فی الحال 30 اگست تک پابندی لگائی گئی ہے۔ پاکستان میں فصل اگست کے آخر میں آنا شروع ہوتی ہے، لہٰذا ابھی سے چاول کی قیمت میں اضافے کا رجحان موجود ہے۔ گزشتہ سال ان دنوں عالمی مارکیٹ میں چاول کا ریٹ 370 ڈالر فی ٹن تھا جبکہ اس سال یہ 500 ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
دنیا کے کئی ملک بحران کے پیشِ نظر اضافی چاول خرید کر ذخیرہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایل نینو کے نتیجے میں بھی چاولوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی غذائی تحفظ کو پہلے ہی خطرے کا سامنا ہے۔ روس نے یوکرین کو گندم برآمد کرنے کا اختیار دینے کے معاہدے کو معطل کر دیا ہے، جس سے افریقہ سمیت کئی ملکوں میں غذائی قلت کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ اب چاولوں کی قیمتیں بڑھنے سے غریب ممالک میں مقیم وہ آبادی متاثر ہو رہی ہے جو مہنگا چاول خرید نے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ بھارت کی جانب سے چاولوں کی برآمد پر جزوی پابندی اندرونِ ملک قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے لگائی گئی ہے اور ایک ایسے وقت پر‘ جب ملک میں آئندہ عام انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ اس اقدام کے نتیجے میں عالمی سطح پر چاول بحران کا خدشہ پیدا ہوا ہے۔جو چیز صورتحال کو مزید خراب کر سکتی ہے وہ یہ کہ بھارت کو دیکھتے ہوئے دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کر سکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے بھی اپنی ضروریات کے سٹاک کو برقرار رکھنے کے لیے چاول کی برآمدات معطل کر دی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر شدید موسم کے نتیجے میں دوسرے ممالک میں چاول کی کاشت کو نقصان پہنچا تو اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ سائنسدان توقع کر رہے ہیں کہ جاری موسمی رجحان میں شدت آئے گی اور اس کے نتیجے میں خشک سالی سے سیلاب تک کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے جائیں گے۔ افریقہ میں چاول کی کھپت مسلسل بڑھ رہی ہے اور بیشتر ممالک درآمدات پر انحصار کر رہے ہیں جبکہ سینیگال ان ملکوں میں شامل ہے جو چاول کی زیادہ سے زیادہ کاشت کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ان کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے۔
انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشن کے مطابق چاول کی برآمد پر پابندیاں اس سال بھارت کی چاول کی تقریباً نصف برآمدات کو ختم کر دیں گی۔ بار بار کی پابندیاں بھارت کو ناقابلِ اعتماد برآمد کنندہ بناتی ہیں۔ یہ صورتحال برآمدی کاروبار کے لیے اچھی نہیں ہوتی کیونکہ مارکیٹوں کو قابو کرنے میں سالہا سال کا وقت لگتا ہے۔ چاول برآمد کرنے والا ایک اور کلیدی ملک ویتنام سرمایہ کاری بڑھنے کی امید کر رہا ہے۔ اس وقت وہاں چاول کی برآمدی قیمتیں 15 سال کی بلند ترین سطح پر ہیں اور توقع ہے کہ سالانہ پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ رہے گی۔ جنوب مشرقی ایشیائی اقوام برآمدات کو بڑھاتے ہوئے مقامی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ فلپائن پہلے ہی ویتنام کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے تاکہ کم قیمت پر اناج حاصل کرنے کر سکے جبکہ ویتنام برطانیہ کو چاول برآمد کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ برطانیہ زیادہ تر چاول بھارت سے حاصل کرتا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کیلئے سازگار ہو سکتی ہے۔ کورونا وبا کے دوران بھارت، بنگلہ دیش اور چین میں پابندیوں کے باعث ٹیکسٹائل کی برآمدات بہت کم ہو گئی تھیں‘ لہٰذا پاکستان نے صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور بیرونی دنیا سے ٹیکسٹائل برآمدات کے دیرپا معاہدے کیے۔ اُن دنوں صورتحال یہ تھی کہ پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے پاس اتنے آرڈرز تھے کہ وہ اگلے کئی ماہ تک کوئی نیا آرڈر نہیں لے سکتی تھی۔ ماہر لیبر کی اتنی کمی ہو گئی تھی کہ سری لنکا سے لیبر منگانا پڑی۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل سے منسلک کوئی شخص بیروزگار نہیں تھا اور انڈسٹری اپنی فل کپیسٹی پر کام کر رہی تھی۔ اگر بھارت کی جانب سے پابندی میں توسیع کی جاتی ہے تو ممکن ہے کہ پاکستانی چاول کی ایکسپورٹ میں 2020ء کے ٹیکسٹائل سیکٹر جیسی صورتحال پیدا ہو جائے۔