مچھلی کا چمڑا اور ملکی معیشت

مچھلی کا چمڑا۔ یہ پڑھ کر یوں محسوس ہوا ہو گا کہ شاید لکھنے میں غلطی ہو گئی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کیونکہ مچھلی سے چمڑا بھی حاصل ہوتا ہے اور اس سے بیگ، بیلٹس اور دیگر مصنوعات بھی بنتی ہیں۔ مچھلی کی کھال سے چمڑا تیار کرنے میں آئس لینڈ کے ایک خاندان کا نمایاں کردار ہے۔ ان کے مطابق ابتدائی دو سو کوششوں میں تو ان کے ہاتھ صرف مچھلی کا بدبو دار شوربہ آیا تھا۔ آئس لینڈ میں موجود اٹلانٹک لیدر کمپنی یورپ میں مچھلی کا چمڑا تیار کرنے کا واحد کارخانہ ہے۔ یہ کارخانہ 1994ء سے مچھلیوں کی مختلف اقسام پر کام کر رہا ہے۔ چمڑا سازی کے اس عمل میں تین سے چار ہفتے لگتے ہیں۔ ایک مہینے میں 19 ملازمین تقریباً ایک ٹن چمڑا تیار کرتے ہیں۔ ابتدائی مراحل میں مچھلی کی بدبو ختم ہو جاتی ہے، پھر اس کی بو عام چمڑے کی طرح ہو جاتی ہے۔ دوسری چمڑا سازی صنعت کی طرح مچھلی کا چمڑا بنانے کے عمل کو بھی ماحول دوست بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ مچھلی کے چمڑے کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ یہ آسانی سے پھٹ جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ مچھلی کا چمڑا گائے یا بھیڑ کے چمڑے سے نو گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ مچھلی کے چمڑے کی قیمتوں کا انحصار مچھلی کی اقسام پر ہوتا ہے جیسے سولمن مچھلی کا چمڑا تقریباً 12 ڈالر فی سکوائر فٹ ہے۔
مچھلی کے چمڑے کی خریدار بیگ بنانے والے بڑی بڑی کمپنیاں ہیں اور اس وقت مچھلی کا چمڑا عالمی چمڑا منڈی کا صرف ایک فیصد ہے‘ جس کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان فی کس مچھلی استعمال کرنے کی شرح کے حوالے سے آخری نمبر والے ممالک میں شمار ہوتا ہے اور دنیا کی اوسط 17کلو فی کس سالانہ کے مقابلے میں یہاں تقریباً دوکلو فی کس سالانہ مچھلی کھائی جاتی ہے۔ مگر اس اوسط کے ساتھ بھی پاکستانی تقریباً چالیس کروڑ کلوگرام یعنی چار لاکھ ٹن مچھلی سالانہ استعمال کرتے ہیں۔ مچھلی کی جو اقسام زیادہ تر پاکستان میں استعمال کی جاتی ہیں ان میں رہو، تھیلا، سلور فش، سول، چڑا، ملہی، کھگا اور بام وغیرہ شامل ہیں۔ رہو، تھیلا اور سلور فش زیادہ تر جلد کے ساتھ ہی پکائی جاتی ہیں جبکہ سول، ملہی، چڑا اور بام وغیرہ جلد اتار کر استعمال کی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ دس لاکھ ٹن مچھلی کی جلد ہم ہر سال مچھلی کے دوسرے فضلے کے ساتھ پھینک دیتے ہیں جس سے مرغیوں اور مچھلیوں کی خوراک میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ اگر مچھلی کی جلد کل وزن کا پانچ فیصد بھی ہو تو یہ مقدار پانچ ہزار ٹن یا پانچ کروڑ کلو سالانہ بنتی ہے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ مچھلی کی جلد بھی گائے‘ بھینس اور بکروں کی کھالوں کی طرح رنگائی کے عمل سے گزار کر خوبصورت چمڑے میں تبدیل کی جاسکتی ہے۔ اس پر مچھلی کے چانوں کی وجہ سے قدرتی طور پر خوبصورت نقش ونگار پہلے سے موجود ہوتے ہیں جو دوسرے کسی چمڑے پر مشکل سے اور مہنگی و بھاری مشینری کی مدد سے بنانا پڑتے ہیں۔ دنیا بھر میں مچھلی کے چمڑے کا آرٹسٹک استعمال بڑھ رہا ہے۔ مچھلی کے چمڑے سے خواتین کے پرس، جوتے، بیلٹیں اور دیگر اشیا بنائی جا رہی ہیں جو انتہائی دیدہ زیب ہونے کے ساتھ ساتھ وزن میں دوسری اشیا کی نسبت انتہائی کم ہوتی ہیں۔
مچھلی کا چمڑا رنگنے کا عمل بالکل دوسرے چمڑا رنگنے جیسا ہے لیکن اس کے چھوٹے سائز کی وجہ سے اس کو گھریلو صنعت کے طور پر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اس کیلئے لکڑی کا چھوٹا سا ایک گھومنے والا ڈرم، چند پلاسٹک کے ٹینک اور چھوٹی سی روغن مشین چاہیے ہوتی ہے۔ چمڑا رنگنے کا ہنر چھوٹے چھوٹے کورسز کی صورت میں نوجوانوں کو سکھا دیا جائے اور مچھلی فروشوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ تھوڑی احتیاط سے مچھلی کی جلد اتار کر اسے باقی فضلے سے علیحدہ ایک ڈرم میں رکھتے جائیں‘ جسے وقفہ وقفہ سے نمک لگا دیا جائے تو بڑے پیمانے پر خام مال دستیاب ہو جائے گا۔ ہزاروں لوگوں کو چمڑہ بنانے اور اتنے ہی لوگوں کو اس کی اشیا بنانے کی صنعتوں میں کھپایا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مچھلی کے چمڑے کی فی مربع فٹ قیمت بکرے کے چمڑے سے تین سے پانچ گنا زیادہ ہوتی ہے اور اسی طرح اس سے بنی اشیا بھی کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔ کینیا نے 2016ء میں اسے گھریلو صنعت کے طور پر متعارف کرایا تھا اور اب وہاں ہزاروں افراد اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ سالانہ کروڑوں ڈالرز کا فش لیدر چین اور دوسرے ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ بھارت کے صرف ایک ایکسپورٹ ہاؤس نے گزشتہ برس دو ارب روپے کا فش لیدر یورپی ممالک کو برآمد کیا۔
مچھلی کی جلد 70 فیصد تک کولاجن پروٹین پر مشتمل ہوتی ہے‘ اس پروٹین کو سادہ کیمیائی عمل کے ذریعے علیحدہ کر کے تیزاب کے ساتھ تعامل کرنے سے کولاجن ہائیڈرولائزیٹ بنایا جاتا ہے۔ یہ وہ جیلاٹن ہے جس سے ادویات کے کیپسول بنائے جاتے ہیں۔ یہ جیلاٹن سالانہ کروڑوں ڈالرز میں درآمد ہوتا ہے۔ اس کی مقامی طور پر تیاری سے کروڑوں ڈالرز کی درآمدات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ کیمسٹری کے طلبہ اپنے فائنل پروجیکٹس میں اس پر کام کریں اور اساتذہ کی رہنمائی میں اس کا پائلٹ پروجیکٹ بنائیں‘ بہت سے لوگ اس میدان میں سرمایہ کاری پر تیار ہوجائیں گے۔ یوں ایک انتہائی کم قیمت کے خام مال کو قیمتی مرکب میں بدل کر کروڑوں روپے کا زرِمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کینیائی ماہرین کی ریسرچ اور تجربے سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی مچھلی کی کھال کی مصنوعات کے لیے زیادہ تر خام مال کینیا ہی فراہم کرتا ہے۔ وہاں بھی پہلے مچھلی کی کھال کو بیکار شے سمجھا جاتا تھا‘ اسے سکھا کر ایندھن کے طور پر چولھوں میں جلایا جاتا تھا لیکن اب اسے جوتے، بیلٹس، جیکٹس، بیگ اور دوسری چیزیں بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب حکومت بھی اس ابھرتی صنعت میں دلچسپی لے رہی ہے اور اس شعبے سے وابستہ افراد کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔
دنیا بھر خصوصاً یورپ میں اس وقت فیشن کی صنعت میں تبدیلی کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ معروف برانڈز جانوروں کی فلاح و بہبود کو اہمیت دے رہے ہیں۔ بہت سے لوگ کھالوں کیلئے جانوروں کو ذبح کرنے اور چمڑے پر پابندی کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ کچھ چمڑے کے ماحول دوست متبادل کو تلاش کرنے کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال کر رہے ہیں۔ مشہور اٹالین کمپنی ارمانی 2016ء سے کھالوں سے پاک کمپنی بن چکی ہے۔ 2017ء میں گوچی نے اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ اپنی مصنوعات میں جانوروں کی کھالوں کا استعمال نہیں کرے گی۔ پراڈا نے بھی 2020ء میں یہ اعلان کیا۔ پیرس کے فیشن گروپ کیرنگ‘ جس میں سینٹ لارنٹ بھی شامل ہے‘ نے گزشتہ ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ موسم خزاں کے بعد سے اپنی مصنوعات میں کھالوں کا استعمال مکمل طور پر ترک کر دے گا۔ ان حالات میں مچھلی کے چمڑے کو متبادل کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ فروری میں پیرس کے قریب ایک تجارتی میلے میں مختلف قسم کی جدید اور ماحول دوست اشیا کی نمائش منعقد ہوئی۔ ان میں سے دو غیر معمولی چیزیں تھور اور انناس سے حاصل کی گئی تھیں‘ ایک اورمنفرد چیز مچھلی کی کھال سے بنا نئی قسم کا ''چمڑا‘‘تھا۔ یہ میٹریل فرانسیسی کمپنی Ictyos کے شریک بانی بینجمن ملاٹریٹ کی اختراع ہے۔ انہیں یہ خیال سوشی ریستورانوں میں ضائع کی جانے والی مچھلی کی جلد سے آیا۔ پتا چلا کہ فرانس میں مٹن اور بیف کے مساوی مچھلی کھائی جاتی ہے مگر تمام مچھلیوں کی کھال کو پھینک دیا جاتا ہے۔ مختلف تجربات سے مچھلی کی کھال کو ایک ایسے میٹریل میں تبدیل کیا گیا جو دوبارہ استعمال کر سکتے ہوں اور جوپائیدار بھی ہو۔ بظاہر یہ ایک عام سی سوچ ہے لیکن ایک نیا آئیڈیا ہے جو ملکوں کی معیشت کا رخ بدل سکتا ہے۔ بنگلہ دیش اس پر تیزی سے کام کر رہا ہے۔ پاکستان کی چمڑے کی مصنوعات کا برآمدات میں حصہ محض 3.7 فیصد ہے جو 90ء کی دہائی میں تقریباً دس فیصد تھا۔ حکومت خصوصاً سندھ حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ چیمبر آف کامرس بھی اس سیکٹر پر توجہ دے کر نہ صرف برآمدات میں تقریباً ایک ارب ڈالرز کا اضافہ کر سکتا ہے بلکہ کروڑوں ڈالرز کی درآمدات بھی کم کی جا سکتی ہیں جس کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں