چند روز قبل افغان حکومت نے چین‘ ایران‘ ترکیہ اور برطانوی کمپنیوں کے ساتھ ساڑھے چھ ارب ڈالر سے زائد مالیت کے کان کنی کے معاہدے کیے ہیں۔ سات معاہدوں کے تحت افغان صوبوں تخار‘ غور‘ ہرات اور لوگر سے سونا‘ تانبا‘ لوہا‘ سیسہ اور زنک نکالا جائے گا۔ ان معاہدوں سے مجموعی طور پر افغانستان میں لگ بھگ سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی اور وہاں ہزاروں افراد کو روزگار بھی ملے گا۔ سونا نکالنے کے لیے ایک چینی کمپنی کے ساتھ ہونے والا معاہدہ افغان حکومت کو پانچ برسوں میں ہونے والی کمائی کا 65 فیصد حصہ دے گا۔ ہرات میں لوہے کی کان کنی اور پروسیسنگ کے لیے ترکیہ‘ ایرانی اور برطانوی سرمایہ کاری پر مشتمل دیگر معاہدوں سے افغان حکومت کو 30برس میں 13فیصد حصہ ملے گا۔ ان معاہدوں سے افغانستان لوہا برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ ورلڈ بینک کے مطابق طالبان کی عبوری حکومت میں افغانستان کی معیشت مستحکم ہوئی ہے اور پڑوسی و دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ ورلڈ بینک نے گزشتہ ماہ اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ افغانستان میں گزشتہ دو ماہ سے مہنگائی کی شرح کم ہو رہی ہے۔ وہاں سامان کی سپلائی زیادہ ہے لیکن مانگ کم ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2023ء کے پہلے سات ماہ میں بڑی تجارتی کرنسیوں کے مقابلے میں مقامی کرنسی‘ افغانی کی قدر بڑھی ہے۔ چند دنوں میں امریکی کرنسی کے مقابلے میں افغان کرنسی کی قدر تقریباً اڑھائی فیصد بڑھی ہے۔ اس سال کے شروع میں ایک چینی فرم نے افغان انتظامیہ کے ساتھ تیل نکالنے کا معاہدہ کیا تھا۔ بیجنگ نے حال ہی میں افغانستان میں لیتھیم کان کنی میں سرمایہ کاری میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ خشکی سے گھرے افغانستان میں ایک اندازے کے مطابق ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی قیمتی معدنیات موجود ہیں جن میں ریچارج ایبل بیٹریوں میں استعمال ہونے والی انتہائی مطلوب لیتھیم کے ذخائر بھی شامل ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان معدنی وسائل کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 2017ء میں افغان حکومت کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ افغانستان کی معدنی دولت کی مالیت تین ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے جس میں فوسل فیول بھی شامل ہے۔ پینٹاگون نے افغانستان کو لیتھیم کا سعودی عرب قرار دیتے ہوئے پیشگوئی کی تھی کہ اس شورش زدہ ملک میں لیتھیم کے ذخائر بولیویا کے برابر ہو سکتے ہیں۔ لیتھیم الیکٹرک کاروں‘ سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ کی بیٹریوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی مانگ میں سالانہ بیس فیصد تک اضافہ ہورہا ہے۔ دوسری جانب تانبے کی مانگ میں بھی کورونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں معاشی بحالی کے دوران سالانہ 47فیصد اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ افغانستان مستقبل میں معدنی دولت کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ تانبے کی کان کنی سے حاصل کر سکتا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد مغربی ممالک نے اس کے ساتھ کام نہ کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن چین اور روس اس کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے انتظار کر رہے تھے۔ چین پہلے ہی افغانستان میں سب سے بڑا غیر ملکی سرمایہ کار ہے۔ بیجنگ حکومت کو اپنے ملک میں معدنیات کی ضرورت پوری کرنے کے لیے نئے وسائل درکار ہیں‘ اس لیے وہ افغانستان میں کان کنی کا موثر نظام تعمیر کرنے کے سلسلے میں مدد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ ایشیا میں کان کنی کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا کے پاس پہلے ہی افغانستان کے بنجر صوبے لوگر میں تانبے کی کان کنی کے لیے 30سال کا ٹھیکہ موجود ہے۔ تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اگست 2021ء میں افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کے بعد ملک پر عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے شکوک و شبہات کے شکار افراد معاہدوں پر عمل درآمد پر سوال اٹھاتے ہیں۔ افغانستان کا مالیاتی اور بینکنگ کا شعبہ تقریباً مفلوج ہے‘ لہٰذا مالی لین دین کیسے ہو گا۔ اس طرح کے معاہدوں کے انتظام کے لیے تکنیکی اور قانونی معاملات کا فقدان ہے۔ کان کنی کے شعبے کے لیے قانونی پالیسی کا فریم ورک نہ صرف مبہم ہے بلکہ تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن ان حالات کے باوجود افغانستان مطلوبہ ڈالرز وصول کر سکتا ہے۔
افغانستان کی کرنسی کی مضبوطی اور ساڑھے چھ ارب ڈالرز کے معاہدے ہمارے حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہونے چاہئیں۔ پاکستان کے پاس چھ ٹریلین ڈالرز کے معدنی ذخائر ہیں جوکہ افغانستان سے کہیں زیادہ ہیں۔ افغانستان اپنے معدنی ذخائر کے معاہدے کرکے ساڑھے چھ ارب ڈالرز کما رہا ہے اور پاکستان اپنے سونے کے ذخائر بیچ کر بھی آئی ایم ایف سے نوے کروڑ ڈالرز لینے کے لیے فکرمند ہے۔ ملک میں مہنگائی عروج پر پہنچنے کے باوجود بھی ہم آئی ایم ایف کو مطمئن نہیں کر پا رہے ہیں۔ وزیر خزانہ سے حالیہ میٹنگ میں آئی ایم ایف نے اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک ایکسچینج ریٹ کے درمیان فرق پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت کے پاس بتانے کے لیے کوئی مناسب وجہ بھی نہیں ہے۔ نتیجتاً پاکستان میں سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی ‘ بجلی کے بلز بم بن کر گر رہے ہیں‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں‘ شرحِ سود میں بھی بڑے اضافے کا اندیشہ ہے اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ نگران حکومت یہ کہہ کر بری الزمہ ہونے کی کوشش کررہی ہے کہ ہمارے پاس مینڈیٹ نہیں ہے۔ اگر نگران حکومت کے پاس ڈالر‘ بجلی اور پٹرول کے ریٹس بڑھانے کا مینڈیٹ ہے تو انہیں کم کرنے کا بھی مینڈیٹ موجودہے۔ ہر حکومت کے پاس ایمرجنسی فنڈز ہوتے ہیں جن سے عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم یہ فرما رہے ہیں کہ مہنگائی اتنی زیادہ نہیں کہ پہیہ جام ہڑتال کر دی جائے۔ شاید وہ یہ سمجھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے کہ ڈالر ریٹ کا بڑھنا بڑا مسئلہ ہے۔ انٹربینک اور گرے مارکیٹ کا فرق تقریباً 35 روپے ہو چکا ہے لیکن نگران حکومت اسے کنٹرول کر سکتی ہے۔ حکومت مگر کہتی ہے کہ اس پاس مینڈیٹ نہیں ہے۔ پی ڈی ایم حکومت جاتے جاتے اسے بہت مینڈیٹ دے گئی ہے۔ اب یہ اس پر منحصر ہے کہ وہ اس کا استعمال کب اور کن مقاصد کے لیے کرتی ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کر رہی ہے کہ نگران حکومت کا سب سے بڑا احسان قوم پر یہ ہو سکتا ہے کہ وہ جلد از جلد الیکشن کروائے۔ جب تک الیکشن نہیں ہوں گے ملک کی معاشی سمت واضح نہیں ہو سکے گی اور مہنگائی کے طوفان میں تیزی آتی رہے گی۔ حالات کے پیش نظر مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید نگران حکومت لمبے عرصے کے لیے آئی ہے۔ ایسی صورتحال میں اسے لانگ ٹرم پالیسیز بنانی چاہئیں اور ان پر کام کرنا چاہیے۔ جس طرح افغانستان اپنی معدنیات سے ڈالرز کما رہا ہے اسی طرح پاکستان بھی ڈالرز کما سکتا ہے۔ چھ ٹریلین ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اس معدنی دولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے مناسب فیلڈ ورک‘ گریڈنگ اور ریزرو اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہے۔ معدنی دولت کو کیسے حاصل کیا جائے‘ اس مقصد کے لیے مناسب منصوبہ بندی اور پالیسیاں وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو صنعتی پیداوار میں خام مال کے طور پر استعمال کے لیے ویلیو ایڈڈ یا ریفائنڈ معدنیات درآمد کرنے کے لیے بہت زیادہ زرِمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے‘ اس لیے مقامی طور پر پیدا ہونے والی مصنوعات مہنگی پڑتی ہیں اور لوگ مقامی مصنوعات کے مقابلے میں کم قیمتوں پر دستیاب دیگر غیرملکی مصنوعات خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں جو ملکی صنعت کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔ معاشی استحکام کے لیے پاکستان کی کان کنی کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ معدنیات کے علاوہ قیمتی پتھروں کی صنعت بھی کان کنی کے شعبے کا ایک مضبوط جزو ہے اور اس کی قدر میں اضافہ بھی ضروری ہے۔ زیادہ تر معدنیات خام شکل میں برآمد کی جاتی ہیں‘ اس طرح پاکستان کو اس کے بدلے میں بہت کم ڈالرز ملتے ہیں۔ ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمد یقینی طور پر ملک میں زیادہ سے زیادہ زرِمبادلہ لائے گی‘ اس طرح ملک کو مالی بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔