افغانیوں کی واپسی کے معیشت پر اثرات

غیر قانونی غیر ملکیوں بشمول افغانیوں کی واپسی کا سفر جاری ہے۔ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد بھی بڑی تعداد میں افغانی واپس جا رہے ہیں۔ جب غیر قانونی غیر ملکیوں کو اپنے وطن واپس بھیجنے کا اعلان ہوا تو چند ایک حلقوں نے کچھ خدشات کا اظہار کیا‘ لیکن ریاستی اداروں کی بہتر ین حکمت عملی کے باعث کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے بغیر ان کی واپسی جاری ہے۔ نگران حکومت نے بھی اپنے اعلان میں یہ مثبت پیغام دیا تھا کہ ہم افغانیوں سمیت کسی بھی غیر ملکی کو پاکستان سے نکال نہیں رہے ہیں‘ ہم چاہتے ہیں کہ یہ واپس اپنے ملک جائیں اور پاسپورٹ اور ویزا لے کر قانونی طریقے سے پاکستان آئیں۔ افغان حکومت کو بھی اس اعلان کا کرنا چاہیے تھا کہ افغان باشندوں کے پاس اب بھی قانونی طریقے سے پاکستان میں داخلے کا آپشن موجود ہے۔ افغان حکومت چاہے تو اپنے باشندوں کو پاکستان میں قانونی طریقے سے بھیجنے کے لیے ویزا پراسس میں آسانیاں پیدا کر سکتی ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے پہلے ہی اس ضمن میں لچک دکھائی جا رہی ہے۔ افغاستان کے عبوری وزیراعظم نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان باشندوں کو واپسی کے لیے مزید وقت دیا جائے تاکہ وہ تحمل کے ساتھ اپنے ملک واپس آ سکیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ جو افغان باشندے ابھی تک واپس نہیں گئے‘ پاکستان میں انہیں جیلوں میں نہیں ڈالا جا رہا‘ نہ ہی ان کا مال ضبط کیا جا رہا ہے اور نہ ہی ان کے گھر توڑے جارہے ہیں بلکہ انہیں حکومت کی طرف سے بنائے گئے ہولڈنگ سنٹرز میں رکھا جا رہا ہے جہاں انہیں حکومت کی طرف سے مناسب سہولتیں بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا اور انٹر نیشنل میڈیا پر اس حوالے سے کچھ منفی خبریں چلائی جا رہی ہیں جو کہ بالکل بے بنیاد ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے مطابق پاکستان میں 13لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود ہیں جن میں سب سے زیادہ (سات لاکھ) پشاوراور دوسرے نمبر پر (تین لاکھ)بلوچستان میں رہائش پذیر ہیں جبکہ وفاقی وزارتِ داخلہ کے مطابق رجسٹرڈ کے علاوہ تقریباً 17لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان باشندے بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں مقیم ہیں جن کے پاس کسی قسم کی سفری یا قیام کی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق طورخم اور وزیرستان کے انگور اڈہ سرحدی مقامات کے ذریعے چھ اکتوبر سے یکم نومبر تک ایک لاکھ 30ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے واپس جا چکے ہیں۔ افغان پناہ گزین گزشتہ تقریباً چار دہائیوں سے پاکستان بالخصوص پشاور میں چھوٹے بڑے کاروباروں سے وابستہ ہیں۔ پشاور میں بورڈ بازار کا نام بھی اسی وجہ سے منی کابل پڑ گیا تھا کیونکہ وہاں پر زیادہ تر کاروبار افغان پناہ گزینوں کے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی واپسی معیشت پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں؟
جرنل آف ہیومینٹیز سوشل اینڈ مینجمنٹ سائنسز کے 2021ء میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کے لیے پشاور کے مصروف کاروباری مراکز کا سروے کیا گیا تھا اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کس مرکز میں کتنے افغان پناہ گزینوں کی دکانیں ہیں۔ جس کے مطابق افغان جہاد کے بعد آنے والے افغان پناہ گزینوں میں تقریباً 60فیصد مزدور‘ 20فیصد کاروباری افراد اور پانچ فیصد ہنر افراد شامل تھے جبکہ باقی 15فیصد دیگر پیشوں سے وابستہ تھے۔ پاکستان پہنچنے والے افغان پناہ گزین تقریباً 25لاکھ مویشی بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ اُس وقت پناہ گزین جب پشاور سمیت ملک کے دیگر حصوں میں آباد ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے مختلف کاروباروں میں اپنے لیے جگہ بنا لی۔ یہ افراد افغانستان سے سمگل شدہ امپورٹڈ سامان کا کاروبار بھی کرنے لگے یوں پشاور اس سامان کی تجارت کے لیے ایک مرکزی منڈی بن گیا۔ آہستہ آہستہ ان پناہ گزینوں نے دیگر کاروباروں میں بھی اپنے پاؤں جمانا شروع کر دیے اور یوں زیادہ تر پناہ گزینوں نے بیرونی امداد کے بجائے خود کمانا شروع کر دیا۔ یہ سروے قصہ خوانی بازار‘ افغان کالونی‘ پشاور کنٹونمنٹ اور یونیورسٹی ٹاؤن کے علاقوں میں کیا گیا تھا۔ قصہ خوانی بازار میں ایک دکان کی پگڑی کی رقم تقریباً پانچ سے 20لاکھ روپے تک ہے۔ سروے کے مطابق قصہ خوانی بازار میں قالین کی صنعت میں 91فیصد‘چمڑے اور جوتوں کے کاروبار میں 33فیصد‘ ہوٹلوں اور ریستورانوں کے کاروبار میں 29فیصد ‘کپڑوں کے کاروبار میں 15فیصد حصہ افغان پناہ گزینوں کا ہے۔
افغان کالونی میں زیادہ تر استعمال شدہ اشیا بیچی جاتی ہیں جہاں 105دکانوں میں صرف دو دکانیں مقامی افراد جبکہ باقی سب افغان پناہ گزینوں کی تھیں۔ پشاور کنٹونمنٹ کی بات کی جائے تو اس علاقے میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد کم دیگر علاقوں کی نسبت کم تھی لیکن پھر بھی مختلف کاروباروں میں ان کا حصہ بہر حال موجود تھا۔ ایک اندازے کے مطابق کنٹونمنٹ علاقے میں تقریباً 29فیصد کپڑے کے کاروبار کرنے والے افغان شہری تھے جبکہ کارپٹ اور انٹیکس (نایاب اشیا) کا کاروبار کرنے والوں میں 50فیصد افغان باشندے تھے۔ اسی طرح دستکاری سے وابستہ افراد میں 31فیصد افغانی تھے۔ یونیورسٹی ٹاؤن‘ پشاور کے مصروف اور پوش علاقوں میں شامل ہے۔ اسی علاقے میں یو این ایچ سی آر کا دفتر بھی موجود ہے۔ اس علاقے میں کپڑے کے کاروبار سے وابستہ افراد میں 50فیصد‘ کارپٹ صنعت میں 83فیصد جبکہ ٹیلرنگ میں 53فیصد افغان پناہ گزین شامل تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغان پناہ گزین جب سے پشاور اور بلوچستان آئے ہیں‘ انہوں نے وہاں کوئی نہ کوئی چھوٹا بڑا کاروبار شروع کیا۔ اگر کسی کے پاس کم سرمایہ تھا تو وہ فروٹ منڈی سے پھل خرید کر ہتھ ریڑھی لگا کر پھل بیچتا تھا جبکہ زیادہ سرمایہ رکھنے والے افغان پناہ گزین بڑے کاروباروں سے وابستہ ہو گئے تھے۔ ان کے واپس جانے سے معیشت پر کم یا زیادہ اثر ضرور پڑے گا کیونکہ یہاں معیشت میں بہرحال ان کا ایک کردار ضرور تھا‘ تاہم یہ اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پائے گا۔ افغان پناہ گزین جو خلا چھوڑیں گے‘ پاکستان اور خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سے لوگ یہی جگہ دوبارہ بھر سکتے ہیں۔ کچھ افغانی پاکستان اور افغانستان کے درمیان درآمد برآمد کا کاروبار کرتے ہیں۔ شاید ان کا یہ کاروبار جاری رہے کیونکہ وہ تو پہلے بھی افغانستان سے مال لاتے تھے اور پاکستان سے وہاں پر بھیجتے تھے تو اب بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ اس معاملے کو دو پہلوؤں سے دیکھنے کی ضرورت ہے جس میں ایک یہ ہے کہ کیا افغان پناہ گزینوں کی واپسی واقعی مکمل ہو سکتی ہے یا یہ ایک عارضی واپسی ہے اور یہ عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔ بظاہر تو ایسا ہی لگا رہا ہے کہ غیر قانونی پناہ گزینوں کو مستقل بنیادوں پر ملک سے نکالا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں لاکھوں کی تعداد میں یہاں موجود افغانیوں کو واپس بھیجنا بہرحال ایک مشکل امر ہوگا۔ جن پناہ گزینوں کا یہاں کوئی باقاعدہ کاروبار نہیں تھا اور ان کا گزر بسر زیادہ تر مزدوری پر تھا‘ ان کے لیے تو افغانستان واپسی کوئی مشکل امر نہیں لیکن جن پناہ گزینوں نے یہاں اپنے کاروبار جما رکھے تھے‘ ان کے لیے واپسی تھوڑی مشکل ہو گی۔ اس سارے معاملے کو ان تمام زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم پشاور میں افغانوں کی واپسی سے شہری معیشت میں ایک حد تک خلا تو ضرور پیدا ہو سکتا ہے لیکن خیبر پختونخوا کی مقامی آبادی اس خلا کو پُر بھی کر سکتی ہے۔ پوری دنیا میں غیرقانونی تارکین وطن کو عالمی قوانین کے تحت یونہی واپس بھیجا جاتا ہے‘ اس لیے یہ پناہ گزین بھی ہر وقت اس عمل کے لیے ذہنی طور پر تیار رہتے ہیں۔ افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے ان کی معاشی زندگی پر اثرات ضرور مرتب ہوں گے۔ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے افغانستان سے متصل بارڈر کے دونوں سمت رہنے والے افراد کی اب آپس میں گہری رشتہ داریاں ہیں۔ اسی طرح ان کے کاروبار بھی مشترکہ ہیں۔ زیادہ تر افغانی اپنا کاروبار امانت کے طور پر اپنے رشتے داروں کے سپرد کر کے جا رہے ہیں۔ جس سے امید ہے کہ یہ کاروبار چلتے رہیں گے اور معیشت کا پہیہ یونہی رواں رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں