پنجاب کے صوبائی وزیر معدنیات نے دعویٰ کیا ہے کہ ضلع اٹک میں کم و بیش 700 ارب روپے کے سونے کے ذخائر ہیں۔ سابق نگران وزیر معدنیات بھی اسی طرح کے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دعوے نئے نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی کئی حکومتوں نے پاکستان میں اربوں ڈالر مالیت کی معدنیات موجود ہونے کا دعویٰ کیا اور عوام کو بتایا کہ ملک ان سے بہت جلد خوشحال اور ترقی یافتہ ہو جائے گا مگر آج تک ایسا کچھ نہیں ہو سکا۔ اوّل تو ذخائر ملتے ہی نہیں اور اگر مل بھی جائیں تو سیاستدانوں‘ بیورو کریسی اور دیگر کی ملی بھگت سے اس کا فائدہ ملک اور عوام کو نہیں پہنچ پاتا۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں سونے اور چاندی کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ بعض جائزوں کے مطابق ریکوڈک کا شمار دنیا کے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر میں ہوتا ہے لیکن دس سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک ان سے مطلوبہ فوائد حاصل نہیں کیے جا سکے۔ 2015ء میں چنیوٹ سے لوہے اور سونے کے ذخائر ملنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا تھا کہ معدنیات کے یہ ذخائر اگلے تین سالوں میں ملک کی معاشی حالت بدل دیں گے لیکن نو سال گزرنے کے بعد‘ حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید بدتر ہوئے ہیں۔ سیندک سے ملنے والے معدنیات کے ذخائر سے اب تک کیا فائدہ ہوا‘ اس بارے بھی ابہام پایا جاتا ہے۔ 1990ء سے آج تک ان ذخائر میں سونے کی مقدار اور اس سے ملنے والے فوائد کے حوالے سے کوئی خبر نہیں ہے۔ 2019ء میں سابق وزیراعظم عمران خان نے کراچی کے قریب سمندر میں کیکڑا وَن کے مقام پر تیل کے بڑے ذخائر کو گیم چینجر قرار دیا۔اس مقام پر کھدائی بھی ہوئی مگر کچھ برآمد نہ ہوا۔ ضلع اٹک میں سات سو ارب کے سونے کے ذخائر ابھی تک ایک دعویٰ ہیں‘ حقائق سامنے آنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ کیا واقعی سونے کے ذخائر موجود ہیں اور اگر موجود ہیں تو ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے کتنے سال انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ورلڈ بینک اگلے دس سال میں پاکستان کو 20 ارب ڈالرز فنڈز فراہم کرے گا۔ وزیراعظم نے اس منصوبے کا خیر مقدم کیا اور اسے بڑی کامیابی قرار دیا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا دس سالوں میں 20 ارب ڈالرز کا حصول عام آدمی کی معاشی حالت بدل سکتا ہے؟ ورلڈ بینک ہر سال پاکستان کو تقریباً ڈیڑھ سے دو ارب ڈالرز فنڈز فراہم کر رہا ہے۔ اگر اس رقم کو جمع کیا جائے تو یہ دس سال میں18 سے 20 ارب ڈالرز ہی بنتی ہے‘ لہٰذا یہ اعلان کوئی نئی بات نہیں لگتی۔ گزشتہ سالوں میں ورلڈ بینک سے حاصل شدہ رقم نے عام آدمی کی زندگی پر کیا مثبت اثر ڈالا ہے؟ قیامِ پاکستان سے آج تک‘ ورلڈ بینک پاکستان کو تقریباً 30 ارب ڈالرز قرض کی مد میں دے چکا ہے۔ اگر اس سے پاکستان کی معاشی حالت بہتر نہیں ہوئی تو مستقبل میں بھی زیادہ امیدیں لگانا مناسب نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ورلڈ بینک پاکستان کو دو مدات میں فنڈز دیتا ہے۔ پروگرام ڈویلپمنٹ اور پروجیکٹ ڈویلپمنٹ۔ پروگرام ڈویلپمنٹ میں ورلڈ بینک کا مطالبہ ہوتا ہے کہ کچھ اصلاحات کی جائیں‘ جن میں اب تک پاکستان برُی طرح ناکام رہا ہے۔پروجیکٹ ڈویلپمنٹ میں مسائل اس لیے آ رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس اتنا پیسہ نہیں کہ وہ منصوبے مکمل کر سکے۔ ورلڈ بینک پہلے تین سال کی منصوبہ بندی کرتا تھا‘ اب وہ اسے دس سال پر لے گیا ہے۔ پاکستانی عوام کو جدید تعلیم اور صحت کی سہولتیں چاہئیں۔ جس فنڈ کا اعلان کیا جا رہا یہ درحقیقت قرض ہے جس کا زیادہ حصہ تعلیم اور صحت پر خرچ ہو گا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت صوبوں کی ذمہ داری ہے‘ اس لیے زیادہ پیسہ صوبوں کو ملے گا۔ فنڈز ورلڈ بینک نے دینے ہیں لیکن بدقسمتی کہیے کہ انہیں خرچ پاکستانی افسر شاہی نے کرنا ہے۔ انہوں نے ہی منصوبے بنا کر دینے ہیں۔ اگر نیک نیتی سے کام کیا جائے تو اس قرض کا پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے‘ گو کہ یہ رقم امداد نہیں بلکہ قرض ہے اور کوئی نئی یا اچھوتی بات نہیں۔ اس وقت آئی ایم ایف سے بھی سات ارب ڈالر کا قرض پیکیج لیا ہوا ہے‘ دیگر مالیاتی اداروں سے بھی قرض لے رکھا ہے‘ مزید قرض بھی آتے رہیں گے‘ یہ نہ تو معیشت بہتر ہونے کا کوئی پیمانہ ہیں اور نہ ہی ان سے معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کے چارٹر کے مطابق اس کا مقصد ممالک کو معاشی ترقی دینا نہیں بلکہ اپنی شرائط پر قرض دینا اور سود سمیت واپس لینا ہے۔ کوئی بھی ملک اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب اس کا اندرونی معاشی ماحول بہتر ہو۔ پانچ یا دس سالہ ترقیاتی منصوبہ بندی سے ملک ترقی نہیں کرتے۔معیشت اسی وقت درست ہوسکتی ہے جب حکومت پانچ سالہ پلاننگ کمیشن ختم کر کے دور رس پلاننگ کرے۔ بھارت نے 2014ء میں پلاننگ کمیشن ختم کردیا تھا اور مارکیٹ کے رجحان کو پلاننگ پر ترجیح دی تھی‘ جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ جنوبی کوریا‘ پولینڈ اور ہنگری نے بھی سالوں قبل پلاننگ کمیشن ختم کردیے تھے۔ حکومت کا کام پلاننگ کمیشن بنانا نہیں بلکہ سرمایہ کاری کا سازگار ماحول بنانا ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ورلڈ بینک کے قرضوں پر خوش ہونے کے بجائے Home Grown اپروچ پر توجہ دی جائے۔ اسی صورت میں ورلڈ بینک کے قرض کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ تاہم خدشہ ہے کہ اس قرض کا فائدہ بھی عوام کے بجائے سیاستدانوں اور افسر شاہی کو ہو گا۔ ایک تو بھاری تنخواہوں پر سیاسی بھرتیاں ہوں گی اور دوسری طرف بجلی‘ گیس‘ پٹرول کی قیمتوں اور ٹیکس اہداف میں اضافے کی ذمہ داری بھی آئی ایم ایف جیسے اداروں پر ڈال کر سیاستدان بری الزمہ ہو جائیں گے جیسے ماضی میں ہوتا آیا ہے۔دوسری جانب یہ نہ سمجھا جائے کہ اگر بیس ارب ڈالرز کا اعلان ہوا ہے تو وہ مل بھی جائیں گے۔ وعدوں اور اصل رقم کے حصول میں فرق ہوتا ہے۔ مختلف اداروں کی جانب سے پاکستان کے قیام سے لے کر 2023ء تک تقریباً 202 ارب ڈالرز معاونت کی خاطر دینے کا اعلان کیا گیا مگر تقریباً 156 ارب ڈالرز وصول ہوئے۔ حکومت کو اب تک یہ ادراک نہیں کہ اس کے شاہانہ اخراجات اور کرپشن کی وجہ سے قرض کا گراف مسلسل بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے ہر شہری پر اوسط قرض تین لاکھ دو ہزار روپے ہو چکا ہے۔ پچھلے ایک سال میں ہر پاکستانی پر قرض میں 11 فیصد اضافہ ہوا لیکن اشرافیہ کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
ایف بی آر کو دیکھا جائے تو وہ اپنے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر سکا مگر اس کے باوجود ایف بی آر افسران کے لیے چھ ارب روپے کی لاگت سے ایک ہزار سے زائد گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں جبکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اہداف حاصل نہ کرنے پر ان سے پچھلی مراعات بھی واپس لے لی جاتیں۔ ماضی میں تنخواہوں اور مراعات میں ہوشربا اضافہ یہ کہہ کر کیا گیا کہ اس سے کارکردگی بہتر ہو گی لیکن کارکردگی پہلے سے بھی خراب ہے۔ تقریباً 90 فیصد ٹیکس بالواسطہ طور پر (اِن ڈائریکٹ) اکٹھا ہوتا ہے جس میں ایف بی آر ملازمین کا کوئی کردار نہیں۔ آج کل ہر ڈیٹا آن لائن موجود ہے‘ فیلڈ افسران نے جو کام کسی دفتر میں یا بینک جا کر کرنا ہے وہ بآسانی آن لائن یا فون پر ہو سکتا ہے اور جتنی گاڑیاں ایف بی آر کے پاس پہلے سے موجود ہیں وہ ریکوری کے لیے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ گاڑیاں خریدنے کا معاملہ کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے کچھ اور معلوم ہوتا ہے۔ اس خریداری میں کمیشن کی بھی خبریں گرم ہیں‘ وزیراعظم صاحب کو اس معاملے پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔