وقت تیزی سے بدل رہا ہے اور بدلتے وقت کے ساتھ معاشی نظام کی تبدیلی بھی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ یہ انفارمیشن اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اگر بروقت رسپانس نہ دیا جائے تو ایک غلط خبر ملکی معیشت کو سخت نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اگر یہ خبر ملک کے مالیاتی نظام ہی سے متعلق ہو تو نقصان چند گھنٹوں میں اربوں روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ چند روز سے یہ خبر عام تھی کہ بینک میں دو لاکھ روپے کیش جمع کرانے پر 20.5 فیصد ٹیکس کاٹ لیا جائے گا۔ اس پر سینکڑوں وی لاگز ہو گئے‘ ویب سائٹوں پر خبریں لگ گئیں اور سوشل میڈیا بھی بھی اس خبر سے بھر گیا۔ ملک میں تقریباً اٹھارہ کروڑ بینک اکائونٹس ہیں۔ ہر دوسرا شخص بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر بینکنگ سسٹم کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس خبر کے بعد لوگ یہ سوال کرتے دکھائی دے رہے تھے کہ وہ بینک میں رقم جمع کروائیں یا نہ کروائیں؟ لوگوں نے کیش ہولڈ کر لیا اور بزنس ایکٹویٹی کی رفتار سست پڑ گئی۔ ایف بی آر نے تقریباً دس دنوں کے بعد اس حوالے سے وضاحت جاری کی ہے جس میں بتایا گیا کہ وفاقی بجٹ 2025-26ء کی منظوری کے بعد کمپنی؍ ملوں کے اکائونٹس میں کیش جمع کرانے پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے‘ جس کے مطابق اگر کوئی ٹیکس دہندہ کمپنی بینک یا دیگر ذرائع کے علاوہ دو لاکھ روپے سے زیادہ رقم وصول کرتی ہے تو اس رقم کا صرف 50فیصد قابلِ قبول ہو گا اور ایسی کسی بھی ادائیگی پر 41 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ یعنی مجموعی طور پر کل رقم پر 20.5 فیصد اضافی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ جمع کردہ رقم 79.5 فیصد تصور کی جائے گی اور بقیہ 20.5 فیصد ٹیکس کی مد میں کاٹ لی جائے گی۔ یہ ٹیکس کاروبار کرنے والی کمپنیوں پر لگے گا‘ فردِ واحد کے بینک اکائونٹس پر یہ قانون لاگو نہیں ہو گا۔ یہ خبر کاروباری حلقوں پر بم بن کر گری ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسی کئی کمپنیوں کو جانتا ہوں جنہوں نے اپنے کلائنٹس کو بینکوں میں کیش جمع کرانے سے منع کر دیا ہے اور اب وہ دیگر ذرائع استعمال کرنے لگے ہیں۔ چونکہ ایف بی آر نے اب بھی مکمل وضاحت نہیں کی اس لیے کنفیوژن برقرار ہے کہ یہ ٹیکس کون کاٹے گا اور اس کا طریقہ کار کیا ہو گا۔ فی الحال بینکوں کے پاس ایسا کوئی نظام نہیں جس سے وہ یہ چیک کر سکیں کہ جو رقم بطور کیش بینک میں جمع ہو رہی ہے‘ وہ کسی فروخت کے عوض میں ہے یا کسی اور مد میں جمع ہو رہی ہے۔ ایف بی آر کا پرائمری سورس بینک ہی ہیں۔ جب بینک کے علم میں نہیں تو ایف بی آر بھی فوراً معلوم نہیں کر سکتا کہ یہ رقم کس مد میں جمع ہوئی۔ ایف بی آر صرف اسی صورت میں جمع کرائے گئے کیش میں تفریق کر سکتا ہے جب سال گزرنے کے بعد ریٹرنز فائل ہوں اور متعلقہ کمپنی کا آڈٹ منظور ہو۔ اُس وقت ایف بی آر تحقیقات میں کسی نتیجے پر پہنچ سکتا ہے اور 20.5 فیصد کی شرح سے ٹیکس کاٹ سکتا ہے۔ پاکستان کے ٹیکس نظام کو اس سطح پر آتے آتے چار سے پانچ سال لگ سکتے ہیں۔ اس کے بعد بھی ضروری نہیں کہ یہ ٹیکس ادا ہو جائے۔ کمپنی اس فیصلے کے خلاف کمشنر‘ ٹربیونل‘ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتی ہے جس میں مزید چار سے پانچ سال لگ سکتے ہیں۔ یعنی جو قانون حکومت نے پاس کیا ہے‘ اس سے فوری طور پر ٹیکس اکٹھا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور نہ ہی فوری طور پر بزنس کمیونٹی کو کوئی فرق پڑ رہا ہے۔ اگر ایف بی آر اس معاملے کی مکمل وضاحت کرے تو بے چینی اور اضطراب ختم ہو سکتا ہے اور بینکوں میں ٹرانزیکشنز معمول پر آ سکتی ہیں۔ دوسری جانب دو لاکھ کی کیش بزنس ٹرانزیکشنز پر 20.5 فیصد ٹیکس بہت زیادہ ہے۔ اگر کمپنیوں کو کیش ٹرانزیکشنز سے روکنا مقصود ہے تو ٹرانزیکشن کی رقم کی حد بڑھائی جانی چاہیے۔ اس سے چیمبرز کو یہ پیغام جا سکتا ہے کہ حکومت ہمارے مطالبات پر کام کر رہی ہے۔ اگر سرکار نے مطالبات نہ مانے تو مینوفیکچرر اور ڈسٹری بیوٹر سات لاکھ کیش ٹرانزیکشن کی چار انوائسز بنا سکتے ہیں اور دو لاکھ کے بجائے ایک لاکھ پچھتر ہزار کی چار رسیدیں بینک میں جمع کروا سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ایف بی آر تکنیکی طور پر کچھ نہیں کر سکتا۔ معاشی نظام کو ترقی یافتہ ممالک جیسے نظام میں ڈھالنے کے لیے لانگ ٹرم اور متوازن پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مضبوط معاشی نظام کے نعرے کی آڑ میں ملک کے بڑے سٹیک ہولڈرز کو نظر انداز کر دیا جائے۔ سرکار کے پاس طاقت ہوتی ہے اور وہ اسے استعمال کرنے کا حق رکھتی ہے لیکن سمجھداری اسی میں ہے کہ طاقت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اپنایا جائے اور سب کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ بصورت دیگر سٹیک ہولڈرز شارٹ کٹ یا دیگر طریقے استعمال کر سکتے ہیں‘ جس سے نقصان معیشت ہی کو ہو گا۔ کاروباری برادری کو بھی چاہیے کہ وہ سرکار کے ساتھ تعاون کرے تاکہ درمیانی راستہ نکالا جا سکے۔ اس کے علاوہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اب بھی اس خبر پر وی لاگز ہو رہے ہیں کہ ہر خاص وعام پر 20.5 فیصد ٹیکس لگ گیا ہے۔ ایف بی آر کو چاہیے کہ ایسے وی لاگرز کے خلاف سائبر کرائم سیل میں درخواست دے تاکہ فیک نیوز پھیلانے پر ان کے خلاف ایکشن لیا جا سکے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی توجہ قانون بنانے پر زیادہ ہے‘ قانون سے فائدہ کس سٹرٹیجی کے تحت اٹھانا ہے اس بارے میں واضح حکمت عملی دکھائی نہیں دے رہی۔ ایک طرف مقامی سرمایہ کار سراپا احتجاج ہیں تو دوسری طرف بیرونی سرمایہ کار بھی خوش دکھائی نہیں دے رہے۔ سٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق مالی سال 2025ء میں ٹی بلز سے غیر ملکی سرمایہ کاری کا اخراج ڈیڑھ ارب ڈالر سے بڑھ گیا ہے۔ پچھلے مالی سال میں ٹی بلز میں ڈالرز کا اخراج آمدن کی نسبت 24 فیصد زیادہ رہا۔ سب سے زیادہ اخراج برطانیہ سے ہوا ہے۔ ایک سال میں 92 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز نکالے گئے اور آمدنی 75 کروڑ ڈالر رہی۔ متحدہ عرب امارات سے 25 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز نکالے گئے اور آمدن 27 کروڑ 70 لاکھ ڈالر رہی۔ امریکہ سے اخراج تقریباً 18کروڑ 60 لاکھ ڈالر رہا اور آمدن صرف دو کروڑ 60 لاکھ ڈالر رہی۔ اس کے علاوہ ایکویٹی مارکیٹ سے بھی غیر ملکی سرمایہ کاری کا اخراج زیادہ رہا۔ تقریباً 46 کروڑ ڈالر آمدن اور تقریباً 82 کروڑ ڈالر اخراج رہا۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ شرح سود 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آ گئی جو ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے حکومت روشن ڈیجیٹل اکائونٹ جیسا کوئی متبادل منصوبہ پیش کر سکتی ہے تاکہ ٹی بلز میں اخراج کم ہو سکے۔ ایکویٹی میں کمی سیاسی اور عالمی عدم استحکام کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ پاک بھارت جنگ کے سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوئے تاہم پاکستان نے اس جنگ میں واضح فتح حاصل کی۔ اگر اس معاملے کو بہتر انداز میں سرمایہ کاروں کے سامنے رکھا جائے تو ان کا اعتماد بحال رکھا جا سکتا ہے۔
ایک طرف سرمایہ کاری میں کمی کو روکا نہیں جا رہا اور دوسری طرف سرکاری ادارے مسلسل خسارہ رپورٹ کر رہے ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں سب سے زیادہ خسارہ رپورٹ کرنے والے اداروں میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی سرفہرست ہے جس کا خالص نقصان 153 ارب 30 کروڑ روپے رہا۔ سکھر الیکٹرک پاور کمپنی اور کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی نے مجموعی طور پر تقریباً 770 ارب روپے کا نقصان کیا۔ پاکستان ریلویز کو تقریباً 26 ارب‘ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کو تقریباً 20 ارب‘ پاکستان سٹیل ملز کو لگ بھگ 16 ارب روپے کا خسارہ ہوا۔ سب سے بڑا مسئلہ توانائی کے شعبے کا خسارہ ہے۔ اگر اس نقصان کو کم کرنے کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو بجلی مہنگی ہونے سے مزید سینکڑوں فیکٹریاں بند ہو سکتی ہیں۔