قاضی حسین احمد مرحوم نے اپنی زندگی کے آخری عرصہ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ایک خط لکھا ، جس میں ٹی وی چینلز پر جاری فحاشی اور بے حیائی پر مبنی مواد کے خلاف عدلیہ کی توجہ مبذول کروائی۔ اسی طرح کا ایک اور خط سابق جسٹس وجیہ الدین احمد کی جانب سے بھی موصول ہوا۔ معاملہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ چینلز پر قابل اعتراض پروگرامز ایک حقیقت تھے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا تھا۔ چند شہریوں کی جانب سے بھی مارننگ شوز میں ثقافت کے نام پر ہونے والی ہلڑ بازی اور طوفان فحاشی و بد تمیزی اور مخرب اخلاق مواد نشر ہونے کی بہت سی شکایات موصول ہو رہی تھیں ۔ اس دور میں چیف جسٹس کی ازخود نوٹس کی لاٹھی دراز بھی تھی اور بے آواز بھی۔ سو چیف جسٹس نے اس معاملے پر بھی از خود نوٹس لے لیا اور ان خطوط کو آئینی درخواستوں میں تبدیل کر کے مقدمہ کی سماعت شروع کر دی۔پہلے پیمرا سے جواب طلبی ہوئی تو اس بے چاری اتھارٹی کا جواب بہت معصوم تھا۔ چیئرمین پیمرا کے مطابق ان کے قانون میں فحاشی کی تعریف ہی متعین نہیں ہے اور جب تک یہ پتہ نہ ہو کہ فحاشی کیا ہے ،اسے کیسا روکا جا سکتا ہے۔ افتخار محمد چوہدری نے بھی پیمرا کے اس معصوم جواب (جو کہ وقت حاصل کرنے کا ایک بہانہ تھا ) پر اعتماد کر لیا اور پیمرا کو فحاشی کی تعریف ڈھونڈنے کے کام پر لگا دیا۔ صورتحال یہ بنی کہ ٹی وی پر فحاشی جاری رہی۔قاضی حسین احمد اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور درخواست زیر سماعت رہی۔ پیمرا این جی اوز کے لبرل نمائندوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کرمیٹنگ میٹنگ کھیلتا رہا لیکن نہ تو خود سمجھ سکا اور نہ ہی عدالت کو سمجھا سکا کہ فحاشی ہوتی کیا ہے۔ کچھ لوگ اتنے معصوم کہ ٹی وی پر سب کچھ دیکھتے ہیں پھر بھی دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ یہ فحاشی ہوتی کیا ہے؟
پیمرا نے تو اپنے تحریری جواب میں عدالت کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے کہ پیمرا تن تنہا ایک ڈھیلے اور سقم سے بھر پور قانون کے ذریعے ٹی وی چینلز پر فحاشی ختم نہیں کرا سکتا۔عدالت کو صاف صاف بتا دیا گیا کہ نہ قانون میں اتنی جان ہے اور نہ ریگولیٹری اتھارٹی میں اتنی طاقت کہ کسی چینل پر ہاتھ ڈال سکے۔
مگر افسوس کہ افتخار چوہدری کا یہ از خود نوٹس (دوسرے ازخود نوٹسزکی طرح ) برائے نام کارروائی ثابت ہوئی ۔ اخباروں میں ہیڈ لائنز لگ گئیں اور عوام کو پتہ چل گیا کہ چیف جسٹس اب فحاشی کے خلاف سرگرم ہو گئے ہیں ۔میڈیا چیف صاحب کی کمزوری تھی اور غالباً ایک مخصوص چینل ان کی طاقت تھا۔ اسی کمزوری اور طاقت کے سہارے چیف صاحب ریٹائر ہو گئے اور جاتے جاتے مخصوص چینل سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار بھی کرگئے ۔ڈیڑھ سال تک یہ مقدمہ چیف صاحب کے پاس زیر التواء رہا ۔ کئی سماعتیں ہوئیں لیکن نہ تو فحاشی پھیلانے والے چینل کے خلاف کارروائی کی گئی اور نہ ہی حکومت یا پیمرا کو کوئی ہدایات جاری کی گئیں ۔ آج اس مقدمے کو دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے ۔کا ش چیف صاحب اس مقدمے کو بھی صرف ہیڈ لائنز بنوانے کے لیے استعمال نہ کرتے تو شاید آج یہ نوبت نہ آتی کہ ناپاک جسارت ہوتی۔مارننگ شوز دیکھیے، ڈرامے دیکھیے اور اشتہارات دیکھیے ،کہیں لالی وڈ کی تقلید ہے تو کہیں بالی وڈ کی چھاپ ۔ اگر تو ہم میں شرم و حیا کا عنصر ختم ہو گیا ہے تو پھر
شاید یہ سب کچھ بالکل ٹھیک ہے اور ان پروگرامز میں کوئی فحاشی نہیں لیکن اگر ہمارے اندر اور ہمارے معاشرے میں انسانی و اخلاقی اقدار باقی ہیں تو پھر یہ فحاشی ہے ، جسے بند ہونا چاہیے ۔روشن خیالی ، اعتدال پسندی ٗ ثقافت اور روایات کی آڑ میں کسی کو اسلامی اور اخلاقی اقدار پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے وکیل توفیق آصف گزشتہ دو سالوں سے اس مقدمے کی پیروی کر رہے ہیں ۔ انہیں بھی سمجھ نہیں آرہی کہ یہ مقدمہ آخر جج صاحبان کی ترجیح کیوں نہیں ہے۔میں نے اس مقدمے کا تازہ سٹیٹس جاننے کے لیے توفیق آصف سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس سے بڑا قومی اہمیت کا معاملہ اور کوئی ہوہی نہیں سکتا۔ معلوم نہیں جج صاحبان اس مقدمے کو کیوں نہیں سن رہے۔ شاید جج صاحبان کو میڈیا سے فحاشی ختم کرنے میں دلچسپی نہیں اگر وکیل موصوف کا یہ بیان ہے تو پھر مقدمے کا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سابق چیف جسٹس نے دیگر از خود نوٹسزبھی صرف میڈیا میں ہیڈ لائنز بنوانے کے لیے لئے ۔تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے بہت کم از خود نوٹسز
اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکے ۔افسوس کہ فحاشی کے خلاف مقدمہ بھی ''نمائشی کارروائیوں ‘‘کا شکار ہو گیا۔ نجی چینل پر مارننگ شوز میں لڑکوں اور لڑکیوں کی ہلڑ بازی ، ذو معنی فقروں کا نشر ہونا اور غیر ملکی گانوں پر ناچ گانا ایک معمول بن گیا تھا اسی معمول کی روانی میں گستاخانہ مواد بھی اس معمول کی کارروائی کا حصہ بن گیا۔ جس طرح سے سابق چیف جسٹس کے دور میں ہر معاملے پر ازخود نوٹس لینا ایک معمول اور رسمی کارروائی بن گیا تھا،بالکل اسی طرح فحاشی کے خلاف درخواست بھی معمول کی عدالتی کارروائی کا شکار ہو گئی۔ نہ سابق چیف جسٹس نے سوچا کہ بے حیائی کی یہ لہر شعائر اسلام کی گستاخی پر منتج ہو سکتی ہے اور نہ ہی ان کے بعد کسی جج نے اس معاملے پر عدالتی کردار ادا کرنا ضروری سمجھا ۔جج صاحبان کے ضابطہ اخلاق کے مطابق کوئی جج اپنے رشتہ دار یا دوست کا مقدمہ نہیں سن سکتا ۔ میڈیا کا ایک مخصوص چینل جس پر شعائر اسلام کی توہین کا الزام ہے۔اس پر سابق چیف جسٹس کی قربت کا بھی الزام تھا ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ سابق چیف جسٹس اگر فحاشی کے خلاف فیصلہ دیتے تو اس ''دوست‘‘ کے مفاد پر بھی زد پڑتی ۔یہ دوستی ریٹائرمنٹ تک نبھائی گئی۔ازخود نوٹس کی لاٹھی تو ٹوٹ گئی لیکن اللہ کی بے آواز لاٹھی ہر وقت حرکت میں ہے ۔