دیوار چین انسان کا بنایا وہ واحد عجوبہ ہے جو خلا سے بھی زمین پر دکھائی دیتا ہے۔ وجہ اس عجوبے کی غیر معمولی طوالت ہے۔ آج کل اگر سیٹیلائٹ سے زمین کی تصویر لی جائے تو پاکستان بالخصوص پنجاب میں انسانوں کے بنائے ایسے بہت سے عجوبے نظر آئیں گے۔ یہ سی این جی کی غیر معمولی طویل قطاریں ہیں اور یہ کوئی مذاق کی بات نہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں گاڑیوں کی اتنی طویل قطاریں نہیں دیکھیں جیسی آج کل سی این جی سٹیشنوں پر لگ رہی ہیں۔ ایک وقت تھا جب سی این جی کا شیڈول معمول کے مطابق تھا۔ ہر سی این جی سٹیشن چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا۔ مسابقت کا یہ عالم تھا کہ صارفین کو متوجہ کرنے کے لیے تیس سے چالیس فیصد ڈسکائونٹ دیا جا تاتھا۔ اس وقت صارف بادشاہ تھا۔ اپنی مرضی کے فلنگ سٹیشن سے گیس خریدتا تھا ۔ صارف کی اس بادشاہت کو کسی کی نظر لگ گئی ۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سی این جی کی بڑھتی قیمتوں کا ازخود نوٹس لیا‘ سی این جی سٹیشن مالکان کو زائد منافع خوری کے باعث کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور ان کی تمام تر مخالفتوں کے باوجود سی این جی کی قیمت میں بیس روپے فی کلو کمی کر ڈالی۔ بظاہر فیصلہ بہت اچھا تھا ۔ فی کلو قیمت میں بیس روپے کی کمی معمولی بات نہ تھی۔ عوام خبر پڑھ کر بہت خوش ہوئے‘ لیکن سی این جی مالکان نے اس فیصلے کے خلاف اپنی دکانیں بند کر دیں۔ غریب آدمی کی گاڑی یکدم رک گئی۔
سی این جی اور پٹرول کی قیمتوںمیں تین گنا کا فرق ہے۔ جہاں ایک ہزار کی گیس خرچ ہوتی ہے وہاں تین ہزار روپے کا پٹرول درکار ہوتا ہے ۔ عام صارف یہ فرق پورا نہیں کر سکتا ۔ مجبوراً جو لوگ پٹرول خریدنے پر مجبور ہوئے‘ چاہے وہ رکشہ اور ٹیکسی ہو یا مال بردار گاڑی‘ انہوں نے کرایوں میں اضافہ کر دیا۔ سی این جی نہ ملنے اور پٹرول کے استعمال سے مہنگائی کی شرح میں جوا ضافہ ہوا شاید اس کا ادراک نہ کیا جا سکا۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے عدالت میں بارہا استدعا کی گئی کہ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں جن مالکان نے سی این جی سٹیشن بند کر دیے‘ ان کا نوٹس لیں‘ لیکن سی این جی کی عدم دستیابی کا کوئی نوٹس نہ لیا گیا اور صرف قیمتیں کم کرنے کو ہی کافی سمجھا گیا۔ اگر اس دوران عدالتی فیصلے پر غصہ کا اظہار کرنے والے مالکان کے خلاف کوئی کارروائی ہو جاتی تو شاید معاملات مختلف ہوتے۔ سی این جی کارٹیل نے اپنا نقصان برداشت کر لیا لیکن عدالت کے دبائو میں نہیں آئی۔ یہ وہ وقت تھا جہاں عوام داد رسی کے منتظر تھے لیکن فیصلہ دینا اور فیصلہ پر عمل کرانا دو مختلف حقائق ہیں ۔ ہمارے کلچر میں فیصلہ ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے اور داد رسی کے لئے بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ مضحکہ خیزبات یہ ہوئی کہ فیصلے کے بعد سی این جی کا جوبحران آیا‘ اس دوران عدالتی انتظامیہ نے اخبارات میں ایک ٹینڈر طلب کیا جس میں اس نے اپنی بسیں سی این جی سے ڈیزل پر منتقل کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس روز عوام کو معلوم ہو گیا کہ جب عدالت کو سی این جی نہیں مل رہی تو انہیں کیسے ملے گی۔
قیمتیں کم کروانے کا فیصلہ اکتوبر 2012 ء میں صادر ہوا۔ تب سے اب تک ڈیڑھ سال بیت چکا ہے ۔جبکہ چھ ماہ پہلے دسمبر 2013ء میں ایک اور فیصلے کے ذریعے سی این جی پر 9 فیصد اضافی ٹیکس کا حصول بھی ختم کر دیا گیا۔ اس فیصلے نے تو سی این جی مالکان کے ساتھ ساتھ ٹیکس وصول کرنے والی حکومت کو بھی تڑپا دیا؛ چنانچہ سی این جی مالکان اور حکمرانوں نے اس کا غصہ عوام پر نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اول تو سی این جی دستیاب نہیں اور اگر ملتی ہے تو وہ بھی مخصوص ایام میں سسک سسک کر... لائنوں میں لگ کر سی این جی لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔سی این جی سٹیشنوں پر لگنے والی قطاریں نہ صرف صارفین کے لیے اذیت ناک ہیں بلکہ حکومت کے لیے شرمناک بھی۔ ٹھٹھرتی سرد راتیں ہوں یا گرمیوں کی چلچلاتی دوپہریں‘ سی این جی خریدنے والوں کے لیے نہ کوئی سہولت اور نہ کوئی رعایت۔ آئے روز گیس کی فراہمی کا شیڈول تبدیل کر دیا جاتا ہے ۔ غریب آدمی اپنی گاڑی سمیت پورا پورا دن لائنوں میں گزارتاہے۔ اس دوران لوڈشیڈنگ بھی ہوتی ہے اور جب تک بجلی نہیں آتی‘ سی این جی کی سپلائی بند رہتی ہے۔ جس دن سی این جی ملنا ہو لوگ بارہ گھنٹے پہلے سے گاڑیاں لائنوں میں لگانا شروع کرتے ہیں‘ کیونکہ گاڑی میں گیس نہ ہو اور جیب میں پٹرول کے پیسے نہ ہوں تو پھر ایندھن کے بغیر گاڑی کو سی این جی سٹیشن کی لائن میں لگا دینا ہی عقلمندی ہے ۔ لوگ اس اذیت ناک اور کربناک عمل سے گزررہے ہیں ‘یہا ں افرادی قوت ذہنی اور نفسیاتی طور پر بیمار ہو رہی ہے۔ جتنا وقت وہ لائنوں میں گزارتے ہیں،ان کے لبوں سے ارباب اختیار کے لیے جو ''پھول جھڑتے‘‘ ہیں‘ وہ یہاں رقم نہیں کیے جا سکتے صرف اشارہ کافی ہے۔ یقینا ان پریشان حال عوام کی دہائیوں کی بازگشت حکمرانوںتک پہنچتی ہو گی‘ لیکن جس طرح سے لوگ لائنوں میں لگنے کے عادی ہو گئے ہیں اسی طرح سے شاید حکومت کے لیے عوام کا واویلا کوئی معنی نہیںرکھتا۔ کسی ملک کے کلچر میں وقت کا ضیاع شامل ہو جائے تو قومی ترقی کا پہیہ خود بخود جامد ہونے لگتا ہے ۔سوال صرف یہ ہے کہ اگر قوم دن رات ایندھن کے لیے لائنوں میں لگنے پر مجبور ہو گی تو پھر قومی ترقی کے دھارے میں کیا فرشتے شامل ہوں گے؟