سابق صدر پرویز مشرف کی حمایت میں کچھ کہنا یا لکھنا آسان کام نہیں ہے ۔ آپ کو فوراً جمہوریت دشمن، آمر نواز کے القابات کا سامنا کرنا پڑے گا اورغیر منطقی اور جذباتی تنقیدکے نتیجے میں آپ کا شمار بھی غداروں میں کیاجانے لگے گا۔میں بھی پرویز مشرف کی حمایت کی گستاخی نہیںکروں گا،کیونکہ ہمارے آئین میںغداری کی سزا موت ہے لیکن ملکی تاریخ میںآئین کے آرٹیکل 6کے تحت غداری کے اولین ترین مقدمہ سے متعلق چند حقائق ایسے ہیں جو غداری کی لغوی تعریف کو بھی شک میں ڈال دیتے ہیں ۔ آئین سازوں نے تو لکھ دیا کہ کوئی بھی شخص جو آئین توڑے گا یاپامال کرے گا وہ سنگین غداری کا مرتکب ہو گا ۔ ملکی تاریخ میںکئی بار فوجی مداخلت ہوئی ،کبھی آئین منجمد کیا گیا اور کبھی پامال کیا گیا، ماورائے آئین اقدامات کئے گئے لیکن کسی کو غدار قرار نہیں دیا گیا ،سب آمروں نے اپنے کیے پراپنے ہی زیر سایہ بننے والی پارلیمنٹ سے تصدیقی مہر بھی لگوا لی۔ پرویز مشرف سے ایک تکنیکی غلطی ہوئی کہ اپنے تین نومبر کے اقدامات کی پارلیمنٹ سے توثیق نہ کروا سکے اور اسی جرم کی پاداش میں آج کٹہرے میں کھڑے ہیں ۔اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ پارلیمنٹ کی منظوری سے آئین توڑنے کا گناہ ثواب میں کیسے بدل جاتا ہے۔پرویز مشرف نے اپنے اوپر فرد جرم عائد ہونے کے بعد خصوصی عدالت میں ایک تاریخ ساز تقریر کی۔ انہوں نے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تین نومبر اور اس کے بعد انہوں نے جتنے اقدامات کیے ،وہ تمام کے تمام ملک و قوم اور ریاست کے بہتر مفاد میں کیے ۔ڈوبتی معیشت کو سہارا دے کر ملکی استحکام کو دوام بخشا ۔ انہوںنے اپنے اوپر لگنے والے غداری کے الزام کو بھی چیلنج کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ ملک و قوم کی خدمت کرنے پر انہیں غدار کہا جا رہا ہے جبکہ غدار وہ ہے جو ملک و قوم کے مفاد کے بر عکس کام کرے ۔ملک کے خلاف جاسوسی کرے یا قومی خزانہ لوٹے ۔پرویز مشرف نے بر ملا کہا کہ ملکی خزانہ لوٹنے والے تو اسمبلیوں میں صادق اور امین بنے بیٹھے ہیں اور انہیں غدار کہا جا رہا ہے ۔پرویز مشرف کے انہی معروضات سے متاثر ہو کر استغاثہ کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت میں کہہ دیاکہ یہ غداری کا مقدمہ نہیں بلکہ آئین شکنی کا مقدمہ ہے۔پرویز مشرف کے وکلاء کی مرکزی دلیل یہ ہے کہ پرویز مشرف نے ریاست بچانے کے لیے آئین توڑا ۔ریاست ہو گی تو آئین بھی رہے گا ۔ آج بھی ریاست اور آئین کے تحفظ کے لیے ریفرنڈم کروایا جائے تو عقلیت پسندوں کااولین انتخاب ریاست ہوگا۔ صرف آئین کے تحفظ کے لیے ریاست نہیں گنوا ئی جا سکتی۔کہتے ہیں بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے ،لیکن بدترین جمہوریت اگر جمہور کو چیتھڑوں میں لے آئے، دو وقت کی روٹی غریب کے لیے مشکل ہو جائے ،ملکی خزانہ خالی اور جمہوریت نوازوں کی جیبیں بھری ہوں اور ملک تباہی کے دہانے پر ہو تو کیا پھر بھی بد ترین جمہوریت کو ترجیح دینا عقلیت پسندی ہوگا؟ پرویز مشرف کا بھی اپنے مقدمے میں یہی دفاع ہے۔ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشر ف کے خلاف مقدمہ گزشتہ سال دسمبر میںشروع ہوا اور نصف سال گزرنے کے بعد بھی اس کیس میں
صرف ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے کہ پرویز مشرف پر غداری کی فرد جرم عائد کر دی گئی۔ اس کے علاوہ نہ تو کسی کابیان ریکارڈ ہوا ہے نہ کوئی گواہ پیش، نہ کسی کی طلبی ہوئی ہے اور نہ ہی فیصلے کی گھڑی کے سر دست کوئی آثار ہیں۔ پرویز مشرف اس مقدمے میں صرف دو بار عدالت میں پیش ہوئے ہیں ۔ خصوصی عدالت کہہ چکی ہے کہ وہ ملک سے باہر جانا چاہیںتو یہ ان کا حق ہے ۔بیرون ملک جانے کا معاملہ اس وقت سندھ ہائی کورٹ میں ہے ۔ میڈیکل رپورٹس تیار ہیں۔ دلائل مکمل ہو چکے ہیں جونہی اجازت ملی پرویز مشرف بیرون ملک روانہ ہو جائیں گے ۔ رہا غداری کا مقدمہ تو وہ دھیرے دھیرے چلتا رہے گا اور پھر تھک کر کسی کروٹ بیٹھ جائے گا۔ گزشتہ چھ ماہ میں اس مقدمے پر قومی خزانے سے دس کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کی جا چکی ہے ،جس کا حاصل وصول کچھ نظر نہیں آرہا۔ابھی تو پرویز مشرف کے وکلاء نے ان تمام عسکری ، عدالتی اور سول عہدیداران کے نام لینے ہیں جو ان کے غداری کے جرم میں شریک تھے۔آئین و قانون کی منشاء بھی یہی ہے اور انصاف کا
تقاضا بھی یہی کہ جو بھی آئین توڑنے والے کی معاونت یا اعانت کرے اسے بھی غدار ہی کہا جائے گا ۔3نومبر2007ء کوزیادہ عرصہ نہیں گزرا ۔ اس وقوعہ کے تمام کردار اس وقت بھی حیات ہیں۔ صرف ایک ہیوی ویٹ ملزم کے لیے تو چھ ماہ میں صرف فرد جرم عائد ہو سکی ہے ،اگر شریک ملزمان بھی سامنے آگئے تو پھر معاملہ کتنا طول پکڑے گا ،اس کا اندازہ کرنا مشکل ضرور ہے لیکن بعید از قیاس نہیں ۔میں ایک آئیڈیل سچوایشن فرض کرتے ہوئے اگر دیکھوں کہ غداری کیس منطقی انجام تک پہنچ گیا اور پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کو سزائے موت یا عمر قید سنا دی گئی تو بھی آئین پر ریاست کی ترجیح کا فلسفہ ختم نہیں ہو گا۔جمہوریت کا حسن جب بھی ماند پڑے گااور ریاست تباہی کے دہانے پر ہو گی توایسے حالات سے نمٹنے کے لیے آئین میں 58(2)bکا سیفٹی والو دستیاب نہیں ہو گا ۔ایسے حالات میں ملک بچانے کے لیے آئین کی کتاب خاموش ہو گی تو پھر ریاست بچانے کے لیے کتابی نسخوں کی بجائے عملی اقدامات ہی واحد حل گردانے جائیں گے۔ایک جیپ اور دو ٹرک اس وقت تک نہیں آ سکتے جب تک ان کے لیے راہ ہموار نہ ہو۔