کہتے ہیں وکیل یا جج کی ایک غلطی انسان کو زمین سے تین فٹ اوپر پہنچاسکتی ہے اور ڈاکٹر کی غلطی انسان کو زمین کے تین فٹ نیچے بھیج دیتی ہے۔ دونوں ہی پیشے حساس ہیں جہاں زندگی اور موت کے فیصلے ہوتے ہیں۔صحافت بھی ایساہی پیشہ ہے جس میں غلطیوں کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے ۔صحافی کی غلطی جان تو نہیں لیتی لیکن محاورتاًکسی کی جان نکال سکتی ہے ۔گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی بیرون ملک جانے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنے والا میمورنڈم کالعدم قرار دے دیا لیکن یہ فیصلہ آیا تو الیکٹرانک میڈیا پر بعض ٹی وی چینلز نے بالکل ہی الٹ خبر چلائی کہ پرویز مشرف کی درخواست مسترد کر دی گئی ۔کم از کم دس منٹ تک مکمل طور پر غلط خبر چلائی گئی ۔ہمارے ایک معزز وکیل دوست نے تو اس غلط خبر پر ماہرانہ تبصرہ بھی نشر کر دیا۔ دس منٹ تک ڈھول پیٹنے کے بعد چینلز کو احساس ہوا کہ خبر غلط ہے تو پھر درستی کی گئی۔معاملے کی سن گن لی تو پتہ چلا کہ عدالت نے struck of کا لفظ اس میمورنڈم کے لیے استعمال کیا تھا جس کے ذریعے مشرف کا نام ای سی ایل پر ڈالا گیا لیکن سندھ ہائی کورٹ میں موجود ہمارے کراچی کے رپورٹرز میں سے کسی نے سمجھا کہ یہ لفظ مشرف کی درخواست کے لیے ا ستعمال ہوا ہے ۔ بس ایک نے غلطی کی اور بھیڑچال میں ہر کوئی غلطی کرتا گیا ۔
مجموعی طور پرصحافت میں ذمہ داری کا عنصر معدوم ہوتا جا رہا ہے ،کبھی رپورٹر کی خبر بائونس ہو جاتی ہے، کبھی طباعت میں ایک نقطے کی غلطی محرم کو مجرم بنا دیتی ہے ،کبھی نیوز ڈیسک ڈیڈ لائن کو پانے کی جلدی میں بلنڈر کر جاتا ہے تو کبھی پیج میکر ۔ہر طرح سے محتاط ہونے کے باوجود بھی چھوٹی موٹی غلطیاں ہر چینل اور اخبار میں نظر آئیں گی لیکن عدالتی رپورٹنگ نسبتاً زیادہ ذمہ داری کاکام ہے۔گزشتہ ہفتے جسٹس جواد ایس خوجہ کی عدالت میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک میڈیا گروپ کے انگریزی اور اردو روزنامے میں جسٹس جواد ایس خواجہ کے ایسے حساس ریمارکس چھاپے گئے جو انہوں نے دیئے ہی نہیں تھے ۔جسٹس صاحب نے اس حوالے سے باقاعدہ حکمنامہ جاری کیااور قرار دیا کہ صحافیوں کے لیے بھی ایک ضابطہ اخلاق
مرتب ہونا چاہیے لیکن افراتفری کے اس دور میں تو بڑے بڑے ذمہ دار بھی مکمل طور پر اپنے ضابطہ اخلاق پراس کی روح کے مطابق عمل کا دعویٰ نہیں کرسکتے توصحافی سے کوئی کیا امید رکھے گا۔ عدالتی رپورٹنگ کے بے شمار واقعات ہیں جو غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا عکاس ہیں ۔ہمارے پڑوسی ملک نے اس حوالے سے دانشمندی کا مظاہرہ کیا تاکہ ذمہ داری کے عنصر کو یقینی بنایا جا سکے۔
بھارت میں سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کے لیے باقاعدہ accreditation کی ضرورت ہوتی ہے ۔عدالت عظمیٰ کی کوریج
عام صحافی نہیں کر سکتا۔ وہاں کورٹ رپورٹرز کے لیے قواعد و ضوابط خود بھارتی سپریم کورٹ نے وضع کیے ہیں ،جن کے تحت سپریم کورٹ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے لیے قانون کی ڈگری کاحامل ہونا ضروری ہے۔اس کے علاوہ صرف وہی سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کر سکے گا جو رپورٹنگ میں کم از کم سات سال کا تجربہ رکھتا ہو اور ان سات سالوں میں سے پانچ سال کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی رپورٹنگ میں گزارے ہوں۔اس مقصد کے لیے بھارت سپریم کورٹ نے ہی ایک Accreditation Committee بنائی ہے اور چیف جسٹس آف انڈیا خود صحافیوں کے لیے سفارشات مرتب کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔ ایکریڈیشن کمیٹی دیکھتی ہے کہ جس اخبار یا چینل کے صحافی کی درخواست ہے ،اس اخبار کی کتنی سرکولیشن ہے ۔ اخبار کی سرکولیشن چالیس ہزار یومیہ سے کم ہو تو ایسے جریدے کے نمائندے کی ایکریڈیشن درخواست مسترد کر دی جاتی ہے۔ ابتدائی طور پر یہ ایکریڈیشن صرف چھ ماہ کے لیے جاری کی جاتی ہے اور مطلوبہ معیار اور کسوٹی کے ثبوت مہیا کرنے کے بعد ہی اس ایکریڈیشن میں توسیع کی جاتی ہے ۔صحافیوں کو سپریم کورٹ کی جانب سے باقاعدہ ایکریڈیشن کارڈ جاری کیے جاتے ہیں ۔ ان تمام ضوابط کا مقصد عدالتی رپورٹنگ میں معیار پر سمجھوتہ نہ کرنا ہے۔ہمارے ملک میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان اکثر و بیشتر غیر معیاری عدالتی رپورٹنگ کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں اور صحافیوں کو کٹہرے میں نہیں تو روسٹرم پر ضرور بلاتے رہے ہیں۔ اور کیوں نہ بلائیں اس وقت یہاں صحافت ایک اوپن پروفیشن بن چکا ہے۔ کسی بنیادی پیشہ ورانہ تعلیمی قابلیت اور تربیت کے بغیر ہی صحافت میں نو واردوں کا غلبہ ہے۔نہ اداروںمیں ٹریننگ کا کوئی رواج ہے،نہ ہی تربیت کو کوئی اہمیت دیتا ہے اور نہ ہی سینئرز سے سیکھنے کی روایت باقی رہی ہے۔ہر کوئی شارٹ کٹ مارنے کو بے چین ہے اور اسی دوڑ میں غلطیاں بھی کر رہا ہے ۔خود بھی بدنام ہو رہا ہے اور ادارے کی بدنامی کا بھی سامان کر تا ہے۔ایک حد تک شاید ادارے کا بھی قصور ہے کہ وہ کم خرچے پر بڑا کام مانگتے ہیں لیکن کسی نگران کے بغیر ڈرائیونگ سیکھنے والے کو پہلے ہی دن سٹیئرنگ پر بٹھا دیا جائے تو یقینا وہ گاڑی کہیں نہ کہیں ضرور مارے گا، اسی طرح صحافت میں بھی غیر تربیت یافتہ نو آموز کو کاغذ قلم ہاتھ میں پکڑا کر بڑے ایونٹ پر بھیجا جائے گا تو یقینا وہی کام ہو گا جو بندر کے ہاتھ استراآنے کے بعد ہوتا ہے۔