آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 62اور63 کے مندرجات بہت دلچسپ ہیں۔رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے کسی شہری میں کیا خوبیاں ہونی چاہیے اور اسے کن خرابیوں سے پاک ہونا چاہیے‘ یہ سب کچھ آرٹیکل 62اور 63میں درج ہے۔آرٹیکل باسٹھ کا تقاضا ہے کہ الیکشن لڑنے والا شخص ذی شعور ہو،ایماندار ہو، صادق اور امین ہو اور عیاش نہ ہوتب ہی وہ الیکشن لڑنے کا اہل ہوگا؛ تاہم اپنے اراکینِ پارلیمنٹ پر نظر ڈالی جائے تو مضحکہ خیز صورت حال نظر آتی ہے۔ الیکشن لڑنے کے لیے آئین کا معیار بہت ہی سخت ہے۔ کوئی بھی خوفِ خدا رکھنے والا شخص آرٹیکل 62کی تمام خوبیوں کا حامل ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتالیکن ہمارے اراکین پارلیمنٹ اپنے کاغذات نامزدگی میں بیان حلفی پرٹھوک بجا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان جیسا صادق‘ امین اور راست باز اور کوئی نہیں ۔ الیکشن کمیشن کا ریٹرننگ آفیسر بھی اس دعوے کو تسلیم کر لیتا ہے اور ہر وڈیرے، چوہدری،نواب ، سردار اور مینڈے سائیں کوصادق اور امین مان لیا جاتا ہے۔ کاغذات نامزدگی میں صادق اور امین ہونے کا بیان محض ایک رسمی کارروائی ہے۔ اس آئینی تقاضے پر کبھی بھی اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوا۔ پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ مَجھ (بھینس) مَجھ دی بہن ہوندی اے۔اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت خود ساختہ صادق اور امین ہے اسی لیے اس آئینی ہتھیار کو بہت کم ہی کسی رکن پارلیمنٹ پر استعمال کیا گیا۔ ایک زمانے سے روایت چلی آ رہی ہے کہ درخواست گزار رسمی طور پر کاغذاتِ نامزدگی بھرتا ہے اور اس جھوٹے بیان کی بنیاد پر اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے ۔لیکن اب عدالتوں میں دوہری شہریت ،جعلی ڈگری کیس اور منتخب وزیر اعظم کی نااہلی جیسے مقدمات نے سیاستدانوں کی سفید پوشی پر سوالیہ نشان داغ دیا ہے۔ دوہری شہریت کے مقدمے میں اراکین پارلیمان کو آرٹیکل تریسٹھ ہی لے ڈوبا ہے۔الیکشن کمیشن کچھ عرصہ پہلے تک امیدواروں سے یہ نہیں پوچھتا تھا کہ وہ دوہری شہریت کے حامل ہیں یا نہیں۔ اسی لیے دوہری شہریت والے سینہ تان کر کاغذات نامزدگی بھرتے اور الیکشن لڑتے لیکن عدالت نے پھر انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے دوہری شہریت کا حلف نامہ نہیںمانگا لیکن امیدوار سے یہ ضرور پوچھا جاتا تھا کہ کیا وہ آرٹیکل 63کی زد میں تو نہیں آتا؟ دوہری شہریت ہونے کے باوجود امیدواروں نے لکھ کر دیا تھا کہ وہ آئین کے مطابق پورے اہل ہیں اور کسی نااہلی کی زد میں نہیں آتے۔ بس اسی جھوٹا بیان دینے کی پاداش میں عدالت نے بہت سے اراکین اسمبلی کونہ صرف نااہل قرار دیا بلکہ دھوکہ دہی پر ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا بھی حکم دیا۔جعلی ڈگری کیس میں بھی بہت سے اراکین پارلیمان آرٹیکل 63کی زد میں آئے اور عدالتی حکم پر اب مختلف عدالتوں میں فوجداری مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو سزاتو‘ توہین عدالت کے الزام میں ملی لیکن ایک سزا یافتہ شخص ہونے کے ناتے وہ بھی آرٹیکل(1)g 63کے تحت نااہل ہوئے ۔سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کے خلاف بھی ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے جس میں انہیں دوہری شہریت کے حوالے سے غلط بیانی کرنے پربد دیانت قرار دیا گیا اور معاملہ چیئرمین سینٹ کو بھیجا لیکن الیکشن کمیشن نے رحمان ملک کے حق میں فیصلہ دیااور وہ نااہلی کی سزا سے بال بال بچ گئے۔آرٹیکل 62اور63اس بات کا ضامن ہے کہ پارلیمنٹ میں صادق اور امین عوامی نمائندے ہی آئیں گے اور ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔مرحوم قاضی حسین احمد
سیاسی نظام کی اوورہالنگ کے لیے ان دونوں آرٹیکلز پر ان کی روح کے مطابق عمل کے بہت بڑے داعی تھے لیکن ان کی زندگی میں یہ خواہہش پوری نہ ہو سکی۔اگرچہ جوڈیشل ایکٹوازم کے باعث ان دو آرٹیکلز پر عملدرآمد کے حق میں عوامی آگاہی تو ممکن ہو سکی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بھی اہلیت اور نا اہلیت کے قوانین صرف بند کتابوں میں ہی نظر آئیں گے۔ سیاستدان کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کے لیے الیکشن لڑنا اتنا مشکل ہو کہ انہیں اپنی بے گناہی اور پاکدامنی کے سرٹیفکیٹ دینا پڑیں۔ آخر بندہ بشر ہے‘ چھوٹے موٹے گناہ تو ہر کسی سے ہوتے رہتے ہیں۔ بازار حسن سے پارلیمنٹ تک کی روداد میں بہت سے سفید پوشوں اور نیک کارسیاستدانوں کے نام آتے ہیں۔ اب کیا وہ اتنی سی بات پر نا اہلی کا داغ لگوا لیں ۔عمران خان کے خلاف ارسلان افتخار کا مجوزہ ریفرنس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔نواز شریف کے خلاف پی ٹی آئی کا ریفرنس بھی مخالفت برائے مخالفت پالیسی کا مظہر ہے۔ لیکن نااہلی کے لیے صرف عیاش اور غیر اخلاقی شخصیت کا حامل ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ اچھے کردار کے مالک نہیں تو بھی نا اہل شمار ہوں گے۔ اگر آپ کی شہرت ایسی ہے کہ آپ
شعائر اسلام کا مذاق اڑاتے ہیںتو بھی نااہل ہوں گے۔ اگر آپ نظریہ پاکستان کے خلاف ، افواج پاکستان کے خلاف یا عدلیہ کے خلاف کسی امر پر سزا پائیں گے تو کم از کم پانچ سال کے لیے نااہل ہوں گے جیسا کہ سید یوسف رضا گیلانی کے کیس میں ہوا۔آئین سازوں نے اہلیت اور نا اہلیت کی یہ تمام شرائط اور پابندیاں اسی نکتہ نظر سے آئین میں شامل کی تھیں کہ پارلیمنٹ میں عوام کے نیک اور دیندار نمائندے پہنچیں۔عوام کی منشاء بھی اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے انہی کے نمائندے فرشتہ صفت نہ سہی لیکن کم از کم خائن تو نہ ہوں ۔المیہ یہ ہے کہ ان قوانین کا استعمال یا تو ہوا نہیں یا پھر ہوا تو وہ بھی سیاسی مقاصد کے لیے۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ان قوانین کے ہوتے ہوئے بھی ہمارا سیاسی اور پارلیمانی نظام طوائف الملوکی کا شکار ہے۔ جیسے تھانوں اور کچہریوں سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے‘ ویسے ہی پارلیمنٹ بھی عوامی نمائندوں کی آماجگاہ ہونے کے باوجود عوامی اعتماد سے محروم ہو چکی ہے۔ اگر انتخابی اصلاحات آئین اور قانون کے مطابق نہ کی جائیں تو پھر ایوان کی جگہ مچھلی منڈی اور اراکین پارلیمان کی جگہ تماشائی نظر آنے پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ ہندی کا ایک شعر یہاں صادق آتا ہے:
جب تک سمے نہیں دیتا ان نیتائوں کو مات
تاش کے وہی باون پتے جیسے بھی دو بان