ڈیل یا نو ڈیل

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے معاملے پر ڈیل کی ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ کوئی ڈیل ہونے سے متعلق انکشاف کرتا ہے تو کوئی حلقہ اس بیان کی فوری تردید کرنے کو مصلحت سمجھتا ہے لیکن ایک بات تو عیاں ہے کہ 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن جانے کے بعد پرویز مشرف کا صدر کے عہدے سے مستعفی ہو جانا اور پھر آصف زرداری کا صدر بن جانا ایسی حقیقت ہے جو اشارہ کر رہی ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے انکشاف کیا کہ پرویز مشرف سے محفوظ راستہ دینے کی شرط پر استعفیٰ لیا گیا اور اس غیر تحریری معاہدے میں پیپلز پارٹی کے علاوہ نون لیگ بھی شریک تھی۔ گیلانی صاحب کے بیان میں اس لیے وزن ہے کہ وہ اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ایوان اقتدار میں یقینا ان سے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہو گا۔صدر پرویز مشرف کے دور میں الیکشن ہوئے، حقیقی جمہوریت( اگر واقعی حقیقی جمہوریت ایسی ہوتی ہے) بحال ہوئی۔پارلیمانی نظام فعال ہوا اور آصف زرداری صدر بنے۔ ان تمام مراحل کے لیے اگر کسی آمر کو استعفیٰ کی شرط پر محفوظ راستہ دینے کی بات ہوئی ہو گی تو یہ ایسی ڈیل نہیں تھی جسے ''ڈرٹی ڈیل‘‘ کہا جائے۔مستعفی ہونے کے بعد پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کرنا اس بات کا عکاس ہے کہ انہیں محفوظ راستہ پیش کیا گیا(یہ اور بات کہ پرویز مشرف محفوظ راستے سے گزرنے کے بعد دوبارہ جان بوجھ کر پھر اسی جنجال میں آگھرے جہاں سے ایک بار پھر انہیںمحفوظ راستے کی تلاش ہے)۔ پیپلز پارٹی والے تو کہتے ہیں کہ بطور صدر پرویز مشرف کا مواخذہ تیار تھا اس لیے وہ مستعفی ہوئے لیکن کوئی ڈر کے مستعفی ہو جائے اور راہ فرار اختیار کرے تو پھر اسے گارڈ آف آنر نہیں دیا جاتا۔پرویز مشرف کو باعزت رخصتی کی یقین دہانی کرائی گئی ہوگی۔ کوئی جتنا مرضی ڈیل کی تردید کردے لیکن یوسف رضا گیلانی کے بیان کی حقیقت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں نون لیگ کا معاملہ مختلف ہے۔ پرویز مشرف جب ملک سے باہر جا رہے تھے تو پیپلز پارٹی بر سر اقتدار تھی۔ انہی کے آصف زرداری نے مشرف کی جگہ صدر بننا تھا‘ اس لیے نواز شریف یا ان کی پارٹی کی اس وقت کوئی چیز سٹیک پر نہیںتھی۔ جب انہیں کچھ ملنے کی امید نہیں تھی تو بھلا وہ کیوں ڈیل کا حصہ بنتے ۔ ڈیل کہانی میں کوئی کردار کچھ بھی کہے‘ مہمان اداکار کچھ بھی ڈائیلاگ بولیں لیکن اصل کہانی کے صرف دو مرکزی کردار ہیں اور وہ ہیں پرویزمشرف اور وزیراعظم نواز شریف۔ذمہ دار ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کو اب کی بار محفوظ راستہ دینے میں نہ تو کوئی سیاسی جماعت ، نہ کوئی سول اسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی کوئی عدالت مانع ہے۔تمام مقدمات میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے۔ خصوصی عدالت اور ہائی کورٹ بھی ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی کو ختم کر چکی ہے ۔ وفاقی حکومت کی درخواست پر معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے۔ ناقدین کہتے ہیں پرویز مشرف کے صرف ایک حریف ہیں اور وہ ہیں وزیراعظم نواز شریف۔ اور اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے۔ 12اکتوبر2009ء کودو تہائی اکثریت کی جمہوری حکومت کا مینڈیٹ میاں نواز شریف سے گن پوائنٹ پر چھین لیا گیا ۔ انتخابی اور سیاسی تجزیوں کے مطابق موجودہ حالات میں وزیراعظم نواز شریف کو کھو جانے والی دو تہائی اکثریت اب صرف خوابوں میں ہی مل سکتی ہے۔بھاری مینڈیٹ کا چھن جانا وہ کیسے بھلا سکتے ہیں ۔اٹک کی جیل میں انہوں نے
فوجیوں کے پہرے میںجو قید کاٹی‘ نواز شریف یقینا چاہیں گے کہ پرویز مشرف بھی اسی طرح کی بیرک میں قیدِ تنہائی کاٹیں۔ لیکن پرویز مشرف گرفتار ہوئے تو انہیں کسی اٹک جیل میں نہیں بلکہ اپنے ہی فارم ہائوس میں آرام کرنے کو گرفتاری اور قید کا نام دے دیا گیا جہاں اڈیالہ جیل کا عملہ صرف علامتی طور پر موجود تھا اور حقیقت میں پرویز مشرف کڑے پہرے میں استراحت فرما رہے تھے ۔ 2004ء میں نواز شریف کے والد گرامی میاں شریف کا جدہ میں انتقال ہوا تو شریف برادران کو اپنے والد کی میت کے ساتھ پاکستان آنے کی اجازت نہ ملی ۔ اولادکے لیے اس سے بڑا دکھ کیا ہو گا کہ انہیں اپنے والد کی آخری رسوم میں شرکت کی اجازت نہ ملے ۔اس معاملے پر پرویز مشرف کو بھی احساس ہواکہ شاید وہ زیادتی کر گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق انہوں نے والد کی وفات پر تعزیت کے لیے وزیراعظم نواز شریف سے ٹیلیفون پر رابطہ بھی کیا اور ان کے دست راست طارق عزیز نے انہی کی جانب سے رائے ونڈ جا کر میاں شریف کی قبر پر پھولوں کی چادر بھی چڑھائی تھی لیکن جو کچھ میاں صاحب کے ساتھ ہوا‘ اس کا مداوا کوئی تعزیتی فون کال یا قبر پر چڑھنے والی چادر نہیں
کر سکتی۔آج پرویز مشرف بھی چاہتے ہیں کہ وہ اپنی بیماربوڑھی والدہ کی عیادت کریں جو شارجہ کے اسپتال میں زیر اعلاج ہیں ۔لیکن وزیراعظم اس درخواست پر غور کے لیے ہمدردی کا عنصر کیونکر پیدا کریں۔ انہوں نے پرویز مشرف کے ہاتھوں جو زخم کھائے وہ ان کے دل و دماغ میں اب بھی تازہ ہیں۔ اسی لیے پرویز مشرف کے معاملے پر وہ معافی اور سمجھوتے کے علاوہ کوئی بھی رعایت دینے کو تیار ہیں ۔ ان کا حریف ان کی قید میں ہوتے ہوئے بھی ان کے زیر عتاب نہیں ہے۔ مشرف پر قائم چھ کے چھ مقدمات میں ان کی ضمانت ہو چکی ہے۔ وہ اس وقت بھی آزاد شہری ہیں ۔ انتہائی فول پروف سکیورٹی انہیں حاصل ہے۔ طاقتور حلقوں کی نہ صرف بھر پور حمایت انہیںحاصل ہے بلکہ وہ اپنے تحفظ کی ذمہ داری سے بھی بری الذمہ ہیں۔حکومتی عدم استحکام کے نتیجے میں ان کی حمایت کا گراف بڑھ رہا ہے۔ اسی لیے ڈیل سے متعلق انکشافات بھی سامنے آ رہے ہیں ۔نواز شریف ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ پرویز مشرف کی قسمت کا فیصلہ عدالتیں کریں گی۔لیکن اگر عدالت نے انسانی ہمدردی کے تحت پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے بھی دی تو کم از کم موجودہ حکمرانوں کو یہ فیصلہ پسند نہیں آئے گا ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں