جمہورزادی کی کہانی

یہ کہانی ایک ایسی بانکی دوشیزہ کی ہے جسے ہمارے ملک میں جمہور یت سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ یہ جمہور زادی ہر لمحہ خطرے میں گھری رہتی ہے۔ ہمہ وقت اسے بری نظروں کا سامنا رہتا ہے۔اس جمہوری دوشیزہ کے چاہنے والے بے شمار ہیں اور اس کے پرستار، اس کے حُسن کی مثالیںجا بجا پیش کرتے ہیں۔ بہت سے غلط کاموں کو بھی جمہوریت کے حسن سے تعبیر کر تے ہیں۔ اس الہڑدوشیزہ سے سیاسی تماش بینوں کا کھلواڑ تو ہمیشہ سے جاری رہاہے۔کبھی اسے وڈیروں اور جاگیرداروں نے نچایا توکبھی یہ سرمایہ داروں کی باندی رہی۔ جس کا دائو لگا اور جسے موقع ملا اس کے حسن سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اس کے حسن کا مزہ لینے والوں میں شریف لوگ بھی شامل ہیں اور وہ بھی جن کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اس سے پیار کرنے والے اور اس کا دم بھرنے والے ہی اس کے اصل دشمن ہیں کیونکہ وہ اپنے کرتوتوں کے باعث پرائے اور نا محرم محافظوں سے چاند جیسے حسن کوگہن لگوا دیتے ہیں ، گہن بھی ایسا جو لگے توگیارہ سال سے کم عرصہ میں نہ چھٹے۔کارروائیاں سیاسی تماش بین ڈالتے ہیں اور دیواروں میںاس بے چاری جمہوری انارکلی کو چن دیا جاتا ہے۔ راولپنڈی والے تو اس مٹیار اور اس کے چاہنے والوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں
اور پانی حد سے گزرنے لگے تو پھر غیرت کے نام پر قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس قتل کے بعد باری آتی ہے رنگ رلیاں منانے والوںکی جو اگر پکڑے جائیں تو پابند سلاسل کر دیے جاتے ہیں یا پھر سیانے بن کر روپوش ہو جاتے ہیں ۔ موقع شناس بالکل خاموش ہو جاتے ہیں ۔مقتولہ کے ساتھ شب و روز گزارنے والے بھی اس کے ساتھ کسی قسم کے تعلق سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ ہمارے قدامت پسند معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل ہوتے رہتے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر راولپنڈی والے غیرت کے نام پر ایسے قتل کے لیے مشہور ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے اس جمہورزادی پراس نوعیت کا پہلا حملہ 1958ء میں ہوا۔ اس حملے میں یہ جمہوری دوشیزہ گھائل ضرور ہوئی لیکن اس کی جان بچ گئی۔ اس حملے کے خلاف تمیزالدین نامی مولوی صاحب جمہورکے حقوق کے نام پر عدالت جا پہنچے۔ خیال تھا کہ عدالت اس حملے کے خلاف انہیں انصاف دے گی لیکن محمد منیر نامی جج صاحب نے کہہ دیا کہ حملہ درست اور جائز تھا۔ عدالت کے اس فیصلے نے حملہ آوروں کے حوصلے اور بڑھا
دیے۔ غیرت کے نام پر یہ جمہورزادی کئی بار قتل ہوئی اور ہر بار عدالتوں نے اس قتل کو جائز قرار دیااور کہہ دیا کہ نظریہ ضرورت کے تحت ایسا کرنا صحیح ہے۔ تب سے اب تک نظریہ ضرورت کو بنیاد بنا کر نہ جانے کون کون سے نا جائز کام جائز تصور ہو رہے ہیں۔ عدالتوں نے ان آشنائوں کو مورد الزام تو ٹھہرایا جو جمہوری دوشیزہ کی عزت پامال کرنے کے ذمہ دار تھے لیکن ان کے خلاف کسی کارروائی سے گریزکیاگیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو تماش بینوں کی رنگ رلیاں بند ہوئیں اور نہ ہی غیرت کے نام پر قتل بند ہوا ہے۔ ہر باراس بانکی جمہورزادی کو ہی قربانی کا بکرا بلکہ بکری بنایا جاتا ہے ۔ 
مصلحت اور نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ آج بھی یہ بانکی جمہورزادی خطرات میں گھری ہوئی ہے اور اتنی خوفزدہ ہے کہ ہمہ وقت اسے بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ ہر وقت اسے دھمکیاں ملتی ہیں کہ اسے سیدھے راستے سے ہٹا دیا جائے گا۔ ایک تلوار ہے جو اس معصومہ کے سر پر ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے۔ جمہور زادی کا قصور یہ ہے کہ سارے جہاں میں اسے قابل تعریف سمجھا جاتا ہے، بد قسمتی یہ ہے کہ ہمیشہ زیادتیاں اس کے آشنائوں نے کیں اور بھگتنا اسے پڑا۔ اپنے تحفظ کے لیے اس کے رکھوالوں نے حال ہی میں ملک کی سب سے سے بڑی عدالت سے رجوع کیا اور بتایا کہ اس بانکی پر ایک اور حملے کا خدشہ ہے ، غیرت کے نام پر ایک اور قتل ہو سکتا ہے، جمہورزادی کو بچا لیا جائے۔ اگراب یہ قتل ہوگیا تو پھر دوسرا جنم جانے کتنے سالوں بعد ہوگا۔ عام طور پر عدالتیں خدشات کی بنیاد پر فیصلے نہیں دیتیں۔ لیکن عدالت عظمیٰ نے تاریخ میں پہلی بار اس جمہوری دوشیزہ کے سر پر منڈلاتے خطرات کو بھانپ لیا ، اسے درپیش خدشات کو درست قرار دیا 
اور پیشگی حکم دے دیا کہ کوئی اس کا ماورائے آئین قتل نہ کرے ۔ راولپنڈی والوں کو خاص پیغام دے دیا کہ غیرت کے جذبات اپنی جگہ ، جمہوری نار کے نخرے ایک طرف، اس کے چاہنے والوں کی خرمستیاں اپنی جگہ لیکن ان شکایتوں کی آڑ میں اس کے خلاف کوئی ایڈونچر (یا مس ایڈونچر) نہیں ہونا چاہیے ، کسی نے ایسا کیا تو وہ غدار ہوگا۔ اس فیصلے کے بعدجمہوری نار تو شاید محفوظ ہو گئی لیکن اب نیا خطرہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ اس عدالتی تحفظ کے بعد جمہوری نار اور اس کے پرستار اپنی خرمستیوں میں حد سے نہ گزر جائیں اور کوئی ایسا گُل نہ کھلا دیں جس کی قیمت شریف محلے والوں بلکہ ان کی نسلوں کو بھی ادا کرنی پڑے۔ عدالت نے تو جمہورزادی کو کہہ دیا ہے کہ وہ محفوظ ہے ، لیکن اگر یہ اپنے آشنائوں کے ہاتھوں ہی گھائل ہو گئی تو انجام یہ ہو گا کہ مجبور ہوکر یہ دوشیزہ خود بھی ہاتھ جوڑے گی اور اس کے محلے دار اور برادری والے یعنی عوام الناس بھی مطالبہ کریں گے کہ اس کے آشنائوں کو پکڑو۔ وہ پکڑے نہیں جائیں گے ، بس غیرت کے نام پر ایک قتل ہوجائے گا اور یہ بے چاری جمہور زادی ناحق پھر نظریہ ضرورت کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں