اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر جاری احتجاجی دھرنوں کو ایک ماہ کا عرصہ ہونے کو ہے۔ یہ سطور لکھنے تک حکومت اور احتجاجیوں کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے ۔نہ وزیر اعظم مستعفی ہونے کو اور نہ ہی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے مطالبات منوائے بغیر گھروں کو جانے کو تیار ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے باعث لاکھوں آئی ڈی پیز کی مدد اور آباد کاری کا چیلنج تو تھا ہی، اب سیلاب کی تباہ کاریوں نے بھی سب سے بڑے صوبے پنجاب میں لاکھوں افراد کو متاثر کر دیا بلکہ جانی ومالی نقصان بھی ہوا۔ ایسے میں شاہراہ دستور پر جاری دھرنے کو فریقین کی ہٹ دھرمی ، ضد اور اور عوامی مسائل سے لا تعلقی کے ساتھ تعبیر کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہونے کے باوجود معاملہ سلجھانے کے لیے سِراکسی کے ہاتھ نہیں آرہا۔ دھرنوں کے خلاف درخواست کی پہلی سماعت سپریم کورٹ میں 15اگست کو ہوئی،تب سے کئی سما عتیں ہو چکی ہیں۔ چیف جسٹس ناصرالملک صاحب کہہ چکے ہیں کہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے اور عدالت اس معاملے میں نہ ثالث بنے گی اور نہ ہی مصالحت کار۔ یہ عدالت کا کام نہیںعدالت تو بس وہ فیصلہ دے گی جو آئین و قانون کے مطابق ہو گا ۔ جج صاحبان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ احتجاج کرنا ہر شہری یا سیاسی جماعت کا بنیادی و قانونی اور آئینی حق ہے اس سے ا نہیں نہیں روکا جا سکتالیکن احتجاج کے اس حق کے باعث اگر دوسروں کے حقوق متاثر ہو رہے ہوں تو پھر سپریم کورٹ دیکھے گی کہ اظہار رائے کی آزادی اور دیگر شخصی آزادی کی حدودو قیود کیا ہیں۔ دھرنوں سے متعلق بہت سی درخواستیں سپریم کورٹ میں آچکی ہیں۔ کسی درخواست میں دھرنے ختم کروانے کی اور کسی میں عدالت کو ضامن بننے کی درخواست کی گئی ہے ۔ایک درخواست گزار نے عدالت کو جوش دلایا ہے کہ وہ آرٹیکل 190کا استعمال کرتے ہوئے فوج یا کسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کو حرکت میں آنے کا حکم دے ۔ایک مرحلے پر چیف جسٹس صاحب نے بھی کہہ دیا تھا کہ اگرعدالت کے کسی حکم نامے پر عمل نہیں ہوتا تو پھر آرٹیکل 190کا سہارا لیا جا سکتا ۔جس کے تحت پاک فوج سمیت ہر ریاستی ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرنے اور عمل کروانے کا آئینی طور پر پابند ہے ۔ سپریم کورٹ کی بارہا ہدایات کے نتیجے میں دھرنا دینے والی دونوں جماعتوں یعنی تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے عدالت میں تحریری یقین دہانی کرا دی کہ ان کے احتجاجی شرکاء پر امن رہیںگے شاہراہ دستور پر کسی عمارت میں داخل نہیں ہوں گے ۔ لیکن عدالت عظمیٰ کا گلہ ہے کہ عملی طورپر ایسا نہیںہو سکا ۔پارلیمنٹ ہائوس کے لان پر بھی قبضہ ہوا۔پی ٹی وی کی عمارت کے اندر بھی مظاہرین نے دھاوا بولا(اگرچہ دونوں جماعتیں تردید کر چکی ہیں کہ پی ٹی وی پر حملہ کرنے والے ان کے کارکن نہیںتھے)اب صورتحال یہ ہے کہ
دھرنے میں شرکاء کی بڑی تعداد خواتین اور بچوںپر بھی مشتمل ہے۔حکومت مظاہرین کی پیش قدمی پر آنسو گیس ٗ لاٹھی چارج اور ربڑ کی گولیوں کا آپشن استعمال کر چکی ہے جو ناکام رہا ۔ انتظامیہ گولی چلانے کا عذاب مول نہیں لے سکتی کیونکہ پہلے ہی 14افراد کے قتل کی ایف آئی آر ان کے خلاف درج ہے ۔حکومت چاہتی ہے کہ سپریم کورٹ انہیں طاقت کے استعمال کا حکم دے اوروہ سپریم کورٹ کا نام لے کر دھرنا دینے والوں پر ٹوٹ پڑیں ۔ حکومت معرکہ جیت گئی توکریڈٹ لے لے گی ۔اگر سڑکوں پر خون بہاتو سپریم کورٹ کے حکم کو مارنے کا پروانہ (License to Kill) کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ بھی ان باریکیوں کو سمجھتی ہے اور قرار دے چکی ہے کہ عدالت تو صرف احتجاج کی آزادی کی حدود و قیود متعین کرے گی۔
اس کے علاوہ ا س معاملے کے سیاسی مضمرات سے عدالت کا کوئی تعلق نہیں ۔ سپریم کورٹ کی اب تک کی کارروائی سے تاثر یہ ملتا ہے کہ شاید جج صاحبان صرف شاہراہ دستور کھلوانا چاہتے ہیں تاکہ نہ صرف ان کی سپریم کورٹ میں آمدو رفت میں کوئی خلل نہ ہو بلکہ عدالتی عملہ اور سائلین کی عدالت میں پہنچ ممکن ہو سکے ۔مزید یہ کہ شاہراہ دستور پر موجود الیکشن کمیشن اور وفاقی شرعی عدالت جیسی دیگر اہم عمارتیں بھی اپنے کام میں تعطل کا سامنا نہ کریں۔ اس مقصد کے لیے جج صاحبان نے اپنے زیادہ تر ریمارکس میں دھرنے والوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا کیونکہ شاہراہ دستور پر وہی قابض ہیں ۔لیکن دھرنا کہانی کے اہم فریق یعنی حکومت نے لاہور اور اسلام آباد میں جو سینکڑوں کنٹینرز لگائے جن کے باعث عوام کی بڑی تعداد متاثر ہوئی تھی ان کی حق تلفی کا عدالتی کارروائی میں کہیں ذکر نہیں آیاکسی نے ان باریش بوڑھوں کا ذکر نہیں کیا جنہیں کنٹینر کے نیچے سے لیٹ کر اپنی داڑھی زمین سے رگڑ نے پر مجبور ہونا پڑا کسی نے ان حاملہ خواتین کا ذکرنہیںکیا جو کنٹینر کے باعث بند سڑک عبور کرنے کے لیے کشتیوں میں چھلانگ لگانے پر مجبور ہوئیں ۔ انسانیت کی جو تذلیل حکومتی کنٹینروں کے باعث ہوئی ان کا مقدمہ کوئی فریق نہیں لڑ رہا ۔
دھرنوں کا کوئی فائدہ ہوا یا نہیں لیکن عوام کو اربوں کا ٹیکہ لگنے والا ہے گزشتہ جمعہ کو اٹارنی جنرل نے عدالت کی فرمائش پر وہ رپورٹ پیش کر دی جس میں دھرنوں سے اب تک ہونے والے ملکی نقصان کا ذکر ہے ۔ رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر ملکی معیشت کو 547 ارب روپوں کا نقصان ہوچکا ہے یہ نقصان بڑھتاہی رہے گا جب تک دھرنے جاری رہیں گے۔زرمبادلہ کے ذخائر 13.9ارب ڈالر سے کم ہو کر 13.5ارب ڈالر پر آگئے ہیں ۔صرف اسلام آباد کے تاجروں کا 10ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے ۔اس رپورٹ کا عدالت میں پیش ہونے کا کسی اور کو فائدہ ہو نہ ہو حکومت کو ایک فائدہ ضرور پہنچے گا ۔ حکومت فوری طور پر قومی معیشت کو پہنچنے والا نقصان پورا کرے گی اور اس کے لیے کوئی بھی بلا واسطہ یا بالواسطہ ٹیکس لگے گاجو محب وطن شہریوں سے وصول کیا جائے گا۔