مجھے شک نہیں بلکہ مکمل یقین ہے کہ بجلی کے بلوں کی مد میں عوام کی جیبوں سے زبردستی نکالے گئے 70ارب روپے کبھی واپس نہ مل پائیں گے۔وہ جذباتی غریب عوام جو چند روپوں یا سکوں کی خاطر خون خرابہ تک نوبت لے جاتے ہیں‘ اووربلنگ کا کڑوا گھونٹ پینے کے بعد اب ان کے پاس مزید احتجاج یا کسی ردعمل کے آپشنز بہت محدود ہیں ۔بلوں میں زائد وصولی کو یاد کرکے اب وہ صرف دانت پیس سکتے ہیں۔ حکومت کو بُرا بھلا کہہ سکتے ہیں ۔اپنا فشارِ خون بڑھاسکتے ہیں۔ آئندہ انتخابات میں موجودہ حکمرانوں کو ووٹ نہ ڈالنے کی قسم کھا سکتے ہیں ۔اس سے زیادہ ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں کیونکہ حاکم بہت تگڑا ہوتا ہے اور عوام بیچاروں کے پاس ووٹ کی طاقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔عوام بیلٹ پیپر تو پھاڑ سکتے ہیں لیکن اربابِ اختیار سے شکایت بھی نہیں کر سکتے۔ بجلی بیچنے والوں اور بجلی کے ادارے چلانے والوں نے عجیب دبنگ ڈاکہ ڈالا ہے۔ معاملہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ سکینڈل حکومت کے سربراہ یعنی وزیر اعظم کے حضور پیش کیا گیا اور کابینہ کے اجلاس میں وزراء نے بر ملا اعتراف جرم کیا کہ ہاں بجلی کے صارفین سے زائد بل وصول کیے ہیں ۔ہاں ہم نے ریڈنگ کے بغیر بل بھیجے۔ ہاں ہم نے اضافی رقم پر اضافی ٹیکس وصول کیے۔ہاں یہ سب کچھ ملی بھگت سے ہوا ہے۔ہاں
اربوں روپوں کی چوری ہوئی ہے۔اس اعترافِ جرم کے بعد معاملہ وزیر اعظم نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ۔ عوام کو امید پیدا ہوئی کہ شاید اب ان کی جیبوں سے نکالی گئی رقوم کی واپسی ممکن ہو سکے گی۔ لیکن بھولی قوم کو ہر کوئی بھولا بنادیتا ہے۔یہ قوم اچھی طرح جانتی ہے کہ ایک بار کسی معاملے پر کوئی تحقیقات یا آڈٹ کا آغاز ہو جائے اور رپورٹ طلب کر لی جائے تو پھر کسی خوش فہمی میں رہنا دراصل غلط فہمی ہو تاہے۔بھئی اربوں روپے کا ڈاکہ پڑ گیا۔ اعتراف جرم بھی ہو گیا۔ پھر بھی ملزمان اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں۔ نہ کوئی گرفتاری ہوئی نہ کسی پر ذمہ داری ڈالی گئی ۔ نہ کوئی کٹہرے میں آیا نہ کوئی ایف آئی آر کٹی ۔نہ کسی نے اخلاقاً استعفیٰ دیا۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ نہ ہی کسی نے دلاسہ دیا۔وجہ یہ ہے کہ جیب تو عوام کی کٹی ہے لیکن عوام کی آواز کسی نے کب سنی ہے۔اووربلنگ کے اسکینڈل کو دو ماہ ہونے کو آئے ۔حکومت نے اووربلنگ کے آڈٹ کی ہدایات جاری کر دیں۔ لیکن ماہرین اس بات پر متفق ہیںکہ اگر بنیادی ڈیٹا اور معلومات نہیں ہوں گی تو پھر آڈٹ بے معنی رہتا ہے۔نہ تو واپڈا کے پاس اصل ریڈنگ ہے، نہ رئیل ٹائم ڈیٹا، نہ سمارٹ میٹرنگ سسٹم ہے تو بھلا آڈٹ کیونکر ممکن ہوگا؟ اسی لیے تو وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں اب تک جو رپورٹس پیش ہوتی رہیں وہ صرف کاغذی کارروائی ثابت ہوئی۔ ایک اجلاس میں وزیر اعظم نے آڈٹ کا حکم دیا۔ اگلے اجلاس میں ابتدائی رپورٹ پیش ہوئی جسے مسترد کر دیا گیا اور نئی رپورٹ کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا۔ چھ جولائی کے کابینہ اجلاس میں رپورٹ کا معاملہ ہی گول ہو گیا اور وزیر اعظم صاحب نے عوام کا دل رکھنے کے لیے پھر بھی مزید دو ہفتوں کا
وقت دے دیا۔پہلی اووربلنگ کے بعد سے اب تک دو بل آچکے ہیں۔ دونوں بلوں میں عوام کی شکایات برقرار ہیں۔کسی کی ریڈنگ پیچھے ہے بل آگے بھاگ رہا ہے۔تو کسی کو فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ایسا دھوبی پٹکا دیا گیا ہے کہ وہ چکرا کر رہ گیاہے۔وزارت پانی و بجلی میں جو بھی اخراجات ہوتے ہیں اس کے لیے صارفین کو ہی اپنی جیبیں ڈھیلی کرنا پڑتی ہیں ۔موجودہ حکومت نے نندی پور پاور پراجیکٹ پر بڑا شور مچایاکہ گزشتہ حکمرانوں نے جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کیے ۔ اس منصوبے پر سپریم کورٹ نے ایک سابق جج جسٹس رحمت حسین جعفری پر مشتمل کمیشن بھی بنا دیا جس نے رپورٹ میں بتایا کہ اس منصوبے کی تاخیر کے باعث ہی ملک و قوم کو 113ارب کا نقصان پہنچایا گیا۔ لیکن موجودہ حکومت نے کیا کیا۔ منصوبے کو 57 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا۔شریف برادران نے 31مئی 2014ء کو بہت جوش و خروش سے اس منصوبے کا افتتاح کیا ۔ حکمران اتنا خوش ہوئے کہ پراجیکٹ کے سربراہ کو چھ ماہ کا بونس دے دیا۔سٹاف کو کروڑوں روپے مجموعی مالیت کی نوازشات عطاکی گئیں ۔لیکن حال یہ ہے کہ اس منصوبے سے اس وقت ایک میگا واٹ بجلی بھی پیدا نہیں ہو رہی۔ کیونکہ پلانٹ چلانے کے لیے گیس ہی موجود نہیں۔ مجبوری میں ڈیزل سے پلانٹ چلایا جاتاہے تو پیداواری لاگت 41روپے فی یونٹ پڑتی ہے ٹیکس شامل کیے جائیں تو ایک یونٹ بجلی کی قیمت 47روپے تک جا پہنچتی ہے۔ بھلا اتنی مہنگی بجلی کون خریدے اور کس کو بیچے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اربوں روپے کا یہ اور اسی طرح کے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بننے والے دیگر منصوبوں کی لاگت صارفین سے ہی وصول کی جا رہی ہے۔نندی پور پاور پراجیکٹ ہو یا مفت انرجی سیور کا منصوبہ، نیلم جہلم پاور منصوبہ ہو یا ڈیجیٹل میٹرز کی کمپیوٹرائزیشن کا منصوبہ‘ اصل میں تو ان سب منصوبوں کا ایک ہی منصوبہ ہے اور وہ ہے عوام کی جیبیں خالی کرنے کا منصوبہ۔پاکستان میں یہ سلسلہ روز اول سے جاری ہے لیکن 70ارب روپے کی ڈکیتی ایک تاریخی جرم ہے جو موجودہ حکومت کے کھاتے میں لکھا گیا ہے ۔ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ڈکیتی کی اطلاع ملنے پر وزیر اعظم فوری طور پر صارفین کے لیے ریلیف کا اعلان کرتے لیکن صارفین کو رپورٹوں اور آڈٹ کا لالی پاپ دے دیا گیا ہے جس میں عوام کے لیے حکومت کا واضح پیغام ملتا ہے کہ جو لُٹ گیا اس پر صبر کریں‘ جو بچ گیا اس پر شکر کریں اور آئندہ کی فکر کریں۔