ایک گائوں میں سیلاب آگیا۔ پانی آنے پرافرا تفری مچ گئی۔ لوگوں نے اپناقیمتی سامان اٹھانا شروع کر دیا اور محفوظ جگہ ڈھونڈنے لگے۔ ایک غریب دیہاتی جس کے پاس ایک حقے کے علاوہ کوئی قیمتی چیز نہ تھی ، درخت پر چڑھ گیا اور اونچی شاخ پر سکون سے بیٹھ کر حقہ پینے لگا۔گائوں کے چوہدری نے دیکھا تو اس سے پوچھا ''سیلاب آیا ہے اور تجھے اپنے گھر اور سامان کی بالکل بھی پریشانی نہیں ؟ ‘‘غریب دیہاتی نے مزے سے جواب دیا ''چوہدری صاحب اج ای تے غربت دا سواد آیا اے۔ ‘‘(چوہدری صاحب ،آج ہی تو غربت کا مزہ آیا ہے)۔ یہ لطیفہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی جناب احسن اقبال نے کرپشن کے خلاف بین الاقوامی دن منانے کی ایک تقریب میں حاضرین کو سنایا۔اگرچہ یہ لطیفہ تھا لیکن شاید حقیقت میں بھی ایسا ہی ہوا ہو۔ یہ لطیفہ ہو یا حقیقت ۔اس میں ایک فلسفہ ضرور پنہاں ہے کہ اس دنیا میں جتنی مال و دولت اکٹھی کی جائے اتنا ہی مال سے محبت بھی بڑھے گی اور اس کی حفاظت کا دھڑکا بھی رہے گا،لیکن بندہ مالی طور پر بھی فقیر و درویش ہو تو پھر کسی چوری کی فکر رہتی ہے نہ سیلاب سے مالی نقصان کا خطرہ ہوتا ہے ۔بقول شاعر ''رہا کھٹکا نہ چوری کا دُعا دیتا ہوں رہزن کو ‘‘۔
خیر اینٹی کرپشن ڈے کے حوالے سے یہ ذکربے محل نہیں تھا۔پروقار تقریب کا اہتمام قومی احتساب بیورو نے ایوان صدر میں کیا تھا اور صدر مملکت ممنون حسین ہی مہمان خصوصی بلکہ میزبان خصوصی تھے۔ صدر مملکت نے اینٹی کرپشن کے حوالے سے بڑی دلچسپ باتیں کیں ۔ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں کرپٹ افراد کے سوشل بائیکاٹ کی ضرورت ہے۔ راشی اور بد عنوان افراد سے بات چیت مت کریں ۔صدر صاحب کی ایسے بدعنوان لوگوں سے نفرت کا اندازہ اس بیان سے لگائیں کہ اپنی تقریر میں برملاکہہ دیا کہ کرپٹ افراد کے چہروں پر تو نحوست برستی ہے۔یہ صدر مملکت کے دل کی آواز تھی اور کرپشن کے خلاف نفرت کے جذبات تھے جس کا اظہار انہوں نے کیا ۔کہتے ہیں،ادارے کا سربراہ ایماندار ہو تو ادارے میں اوپر سے نیچے تک ایماندار ملے گا ۔ ہماری مملکت کا سربراہ اتنا دیانتدار ہے کہ لوگ مثالیں پیش کرتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کرپٹ ہے ۔کرپٹ ممالک کے انڈیکس میںصرف ایک نمبر کی بہتری آئی تو ہماری حکومت نے اس ریٹنگ کو ہی اپنی کامیابی کا راگ بنا لیا ۔ لیکن حقیقت بہت تلخ ہے۔پولیس، ما تحت عدلیہ، بیوروکریسی سمیت ہر ریاستی ادارہ کرپشن کی آماجگاہ ہے۔اب تو رشوت خوروں نے اپنا کمیشن اور کک بیکس سے ملنے والی رقوم کو نیا نام دے دیا ہے۔ اب غیر قانونی کام جلدی کروانے کے جو رشوت لی جاتی ہے اسے سپیڈ منی کا نام دے دیا گیا ہے۔کرپشن کے خلاف قوانین موجود ہیں لیکن کوئی اس قانون کے چنگل میں نہیں آتا۔ کوئی کرپٹ پکڑا بھی جائے تو عدالتیں اسے رہا کر دیتی ہیں ۔ہمارے ملک میں گزشتہ پچیس سالوں میں کسی ٹیکس چور کو سزا نہیں ملی۔ نیب نے جن افراد کے خلاف کرپشن کے ریفرنس دائر کیے ان میں صرف چھوٹی مچھلیاں پھنسی رہ گئیں اور بڑے مگر مچھ صاف نکل گئے۔ آج جب اینٹی کرپشن ڈے منائے جا رہے ہیں‘ تو ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ کیا کرپشن کا اطلاق صرف چھوٹی مچھلیوں پر ہوتا ہے۔ کیا بڑا جرم کرے تو وہ جرم نہیں کہلاتا؟ ماضی نے ثابت کیا کہ طاقتور مچھلی بڑے بڑے قومی اداروں کے ہاتھ سے پھسل گئی اور قابو آئے تو بے چارے چھوٹے اور اناڑی۔
کچھ عجیب قانون ہے میرے ملک کا ۔صدر صاحب کہتے ہیں بد عنوان شخص کا سوشل بائیکاٹ کرو لیکن ہماری معاشرت میں بد عنوان شخص کی دوستی کے لیے پاپڑ بیلے جاتے ہیں ۔مجھ سے میرے ایک دوست نے کسی کام کے لیے پولیس سے سفارش کی درخواست کی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ سفارش اس پولیس والے کی کروانا جو رج کے کرپٹ ہو۔ راشی اور بدمعاش مشہور ہو کیونکہ یہ کام کوئی شریف پولیس والا نہیں کر سکتا ۔کوئی بتلائوکہ ہم بتلائیں کیا۔ہماری پولیس کی ایسی ہی حالت ہے ۔ عام آدمی لٹ جائے تو پولیس کے ڈر سے تھانے نہیں جاتا ۔آپ گاڑی چلا رہے ہوں اور کوئی شخص لفٹ مانگے تو آپ گاڑی نہیں روکتے۔ سرکاری اسپتال میں ادویات مفت فراہمی کے دعوے ہیں لیکن مریض مرتا ہے تو مرے ،دوا کسی اسپتال میں مفت نہیں ملتی۔کوئی کام کرنے نکلیں تو قدم قدم پر کرپٹ مافیا آپ کا استقبال کرے گا اور ان کی جیبیں گرم نہ ہوں تو پھر آ پ کو رسوا بھی کرے گا ۔
پاکستان بننے سے ایک دن پہلے ہی قائداعظم نے اپنی
تقریر میں واضح الفاظ میں بتا دیا تھا کہ ہمیں رشوت ستانی، اقربا پروری اور کرپشن کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کرپشن کو جڑ سے اکھاڑے بغیر مملکت خداداد میں ترقی ممکن نہ ہو سکے گی۔ یعنی کرپشن پاکستان بننے سے پہلے ہی ہماری رگوں میں موجود ہے۔ جو چیز ہماری گھٹی میں پڑی ہو ہم اس سے کیسے چھٹکارا پائیں ۔اب چیئرمین نیب چوہدری قمر زمان صاحب کو اس کرپشن کے خاتمہ کا مینڈیٹ ملا ہوا ہے ۔قمر زمان صاحب بہت اچھی شہرت کے حامل افسر رہے ہیں ۔ان کی سربراہی میں قومی احتساب بیورو فعال ہو چکا ہے ،لیکن کسی قوم کی گھٹی میں پڑی کرپشن کو ختم کرنا اور معاشرے کو کرپشن فری بنانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔چیئر مین نیب کا یہ کہنا ان کی حقیقت پسندانہ سوچ کا مظہر ہے کہ قومی احتساب بیورو تن تنہا کرپشن کو جڑ سے نہیں اکھیڑ سکتا ۔کرپشن کے خلاف جہاد اجتماعی معاشرتی ذمہ داری ہے ۔قوانین بھی موجود ہیں۔اینٹی کرپشن ا دارے بھی موجود ہیں ۔عدالتیں بھی کام کر رہی ہیں ۔ کرپشن کے خاتمہ کے لیے صرف ایک عمل کی کمی ہے اور وہ ہے خدا خوفی۔اگر سوچیں تو اسی خوف میںسکون ہے اور یہی خوف تمام مسائل کا حل بھی دے سکتا ہے۔روحانی سائنس کے مطابق صرف یہی خوف آپ کو ہر قسم کے خوف سے نجات دے سکتا ہے ۔