نظریہ ضرورت…آج بھی زندہ ہے

نظریہ ضرورت (Doctrine of necessity) کو ایک زمانے میں بہت بد نامی ملی۔یہی وہ نظریہ تھا جس کے تحت عسکری قیادت سیاستدانوں کے ناکام ہونے پر ملک کی باگ ڈور سنبھالتی تھی اور اس عسکری مداخلت کو ہماری عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت توثیق کر دیتی تھیں ۔اسی لیے جمہوریت نوازسیاستدانوں نے اپنی ناکامی کا سارا ملبہ نظریہ ضرورت پر ڈال دیا اور اتنی مخالفت کی کہ اسے زندہ دفن کرنے کے در پے ہو گئے کہ نہ نظریہ ضرورت ہو گا اور نہ اسے بنیاد بنا کرکوئی جمہوریت پر شب خون مارے گا۔ماضی میں بھی جب جب مارشل لاء لگا تو ہماری عدالتوں نے اسی نظریے کے تحت عسکری مداخلت کو جائز قرار دیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے دو مرتبہ پرویز مشرف سے گھائل ہونے کے بعد جب صحتیا بی (بحالی) حاصل کی تو انہوں نے 31جولائی 2009ء کو ایک تاریخی فیصلہ دیا جس میں جنرل پرویز مشرف کے تمام غیر آئینی اقدامات کو کالعدم قرار دے دیا اورآئندہ کے لیے بھی فیصلے میں لکھ دیا کہ کسی جرنیل نے ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو اس کا یہ عمل غداری ہو گا اور اس کی سزا موت ہو گی۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری کے اس فیصلے اور اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد یہ سمجھا جانے لگا کہ نظریہ ضرورت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا ہے،حالانکہ انتھروپولوجی کے اصول کے مطابق ضرورت ایسا عنصر ہے جسے انسانی زندگی میں نہ کبھی ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا خاتمہ فطرتاً ممکن ہے۔حالات ایسے پلٹا کھاتے ہیں کہ غیر ضروری عنصر بھی نا گزیر بن جاتا ہے۔ کوئی بھی ضرورت کسی بھی وقت درپیش ہوسکتی ہے۔ نظریہ ضرورت کی اہمیت کبھی کم نہیںہو سکتی۔ ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کے فیصلے کی بنیاد اسی نظریے پر قائم ہے۔سب جانتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کا قیام متوازی عدالتی نظام لانے کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ شیخ لیاقت کیس میں فوجی عدالتوں کے خلاف مفصل فیصلہ دے چکی ہے۔کچھ سیاستدان فوجی عدالتوں کے قیام کو سوفٹ مارشل لاء سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی کہہ چکے ہیں کہ فوجی عدالتوں کا قیام غیر آئینی ہو گا ان عدالتوں کے قیام کے لیے کوئی آئینی ترمیم بھی کی گئی تو وہ بھی غیر آئینی ہو گی کیونکہ آزاد عدلیہ کے ہوتے ہوئے کسی فوجی عدالت کی ضرورت نہیں۔ لیکن افتخار محمد چوہدری کا یہ کہنا بھی نظریہ ضرورت اور موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں بالکل غلط ثابت ہوا۔ افتخار چوہدری ان فکر انگیز اور پریشان کن حقائق کو بھول گئے کہ اعلیٰ عدلیہ اور ماتحت عدالتوں میں دہشت گردی سے متعلق کتنے مقدمات زیر التواء ہیں وہ یہ بھی بھول گئے کہ آج اگر ملکی عدلیہ دہشت گردوں کے مقدمات میں جنگی بنیادوں پر کام کررہی ہوتی تو شاید سولہ دسمبر جیسے سانحے کی نوبت نہ آتی۔مثال کے طور پر انسداد دہشت گردی کے قانون میں درج ہے کہ دہشت گردی کا مقدمہ سات روزمیں نمٹایا جائے گا ۔لیکن ہماری عدالتی تاریخ میں شاید ہی کسی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس قانون پر عمل کیا ہو۔نتیجہ یہ یہی ہے جو آج ہم دیکھ رہے ہیںبلکہ بھگت رہے ہیں ۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عدالتیں دہشت گردوں کے خلاف مقدمات نمٹانے سے قاصر رہیں اسی لیے ایک متوازی عدلیہ یعنی فوجی عدالوں کی ضرورت پیش آئی۔
مجھے یاد ہے جب اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت ججوں کے تقرر کا نیا نظام مترادف کروایا گیا تو افتخار محمد چوہدری اور ان کے ساتھی ججوں نے بہت برا منایا ۔ اٹھارویںآئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج ہوگئی تو جج صاحبان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی خاصہ ہے اس لیے چیف جسٹس سے کوئی اختیار واپس لینا غیر آئینی ہو گا ۔حکومت نے ججوں کی تقرری کا نیا نظام لاکر آئین کی خلاف ورزی کی ، حالانکہ ہوا صرف یہ تھا کہ نئی ترمیم کے بعد جج صاحبان کے تقرر کے عمل میں پارلیمانی کمیٹی کو بھی معمولی سا اختیار دے دیا گیا جس پر اس وقت کے جج جسٹس خلیل الرحمان رمدے نے ریمارکس دیے تھے کہ اچھا اب جمشید دستی ہم ججوں کے کوائف
کا جائزہ لے گا ۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہی نیا طریقہ ہی رائج رہے گا اور کچھ لوگوں کے خدشات غلط ثابت ہوئے۔ بالکل اسی طرح آج پوری قومی قیادت نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ فوجی عدالتیں بنیں گی تو دہشت گرد پھانسی چڑھیں گے ورنہ سول عدالتوں پر معاملہ چھوڑا گیا تو پھر کبھی بھی اپیلوں سے آگے بات نہیں بڑھے گی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ آئین کوئی قرآنی صحیفہ نہیں کہ اس کی روح کو تبدیل نہ کیا جا سکے۔ آج اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کو آئینی تحفظ دیا جا رہا ہے ۔ اور آرمی، ایئر فورس اور نیوی کے متعلقہ قوانین اور تحفظ پاکستان ایکٹ کو آئین کے شیڈول اول میں شامل کر کے تحفظ دیا جا رہا ہے تاکہ ملک کی کوئی عدالت ان قوانین کو دو سال کے لیے غیر آئینی نہ قرار دے سکے۔اب جن عدالتی فیصلوں میں یہ لکھا گیا تھا کہ نظریہ ضرورت دفن کر دیا گیا ہے وہ تحریریں غلط ثابت ہوئیں ۔نظریہ ضرورت دفن ہونے کے باوجود زندہ ہے ۔ اور ہم نے اگر قومی اور ملکی سطح پرغلط فیصلے کیے تو آئندہ بھی یہ نظریہ ہمیں اپنی اہمیت کا احساس دلاتا رہے گا بلکہ جتاتا رہے گا ۔نظریہ ضرورت کی بجائے ہمیں اپنی کوتاہیوں کو دفن کرنا چاہیے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں