ووٹ اور نوٹ

اگر واقعی سیاست امیروں کا کھیل ہے تو پھر سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ ووٹ خریدنے والے بھی سیاستدان‘ ووٹ بیچنے والے بھی سیاستدان۔عوام کا تو اس الیکشن میں دور دور تک ذکرنہیں ہے ۔ وجہ یہ نہیں کہ عوام کے پاس پیسے نہیں ہیں بلکہ وجہ یہ ہے کہ ایک ووٹ کے لیے کروڑوں اربوں روپے کی قیمت صرف عوام کے منتخب نمائندے ہی وصول کر سکتے ہیں‘ کیونکہ اس الیکشن میں صرف اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی ہی ووٹ کا حق رکھتے ہیں ۔ عوام تو گزشتہ عام انتخابات میں ووٹ دے کر قیمت وصول کرنے کی بجائے اب تک اپنی غلطیوں کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔یعنی عوام کو تو لینے کے دینے پڑ رہے ہیں لیکن ان کے منتخب نمائندوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیںکیونکہ سینیٹ الیکشن میں ووٹ کے عوض نوٹ لینے کے روشن امکانات ہیں۔
سینیٹ الیکشن پانچ مارچ کو ہوں گے۔ جوں جوں وقت قریب آرہا ہے منڈی میں تیزی آ رہی ہے ۔ووٹ کا بھائو بھی تیز ہو رہا ہے۔شاعر نے کہا تھا جو بڑھ کے تھام لے مینا اسی کا ہے ۔لیکن یہاں تو جو بڑھ کے دام دے‘ مینا ا سی کا ہے۔ سینیٹ پارلیمنٹ کا ایک مستقل ادارہ ہے کوئی آمر گستاخی نہ کرے تو یہ ادارہ کبھی تحلیل نہیں ہوتا یعنی آئین میں اسمبلیاں توڑنے کی گنجائش تو موجودہے لیکن سینیٹ توڑنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ۔ اس لیے رکن اسمبلی کی نسبت رکن سینیٹ کو زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے ۔پھر یہ نشست چھ سال کے لیے ہوتی ہے۔ اس کا اعزاز یہ ہے کہ جو ایک بار سینیٹر بن جائے وہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی سینیٹر ہی کہلاتا ہے ۔آئین و قانون کے مطابق سینیٹ کا الیکشن متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت ہوتا ہے یعنی جس سیاسی جماعت کی متعلقہ اسمبلیوں میں جتنی نشستیں ہوں گی‘ سینیٹ میںبھی اسی تناسب سے انہیں نشستیں مل جاتی ہیںیعنی حصہ بقدر جثہ۔ الیکشن کمیشن نے سینیٹ کے الیکشن کے لیے ایسا فارمولہ وضع کیا ہو اہے کہ جس پارٹی کو جتنا حصہ ملنا چاہیے اتنا ہی ملتا ہے‘ لیکن کیا کریں اس خفیہ رائے شماری کا۔ ووٹ ڈالتے وقت کوئی نہیں دیکھتا کہ آپ اپنی پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں یا اسے‘ جس کو آپ نے اپنا ایک ووٹ کروڑوں روپے میں بیچا ہے۔
یہاں فیصلہ ضمیر کانہیں بلکہ زر کا ہوتا ہے۔ اور یوں متناسب نمائندگی کے فارمولے کی ایسی تیسی ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر فاٹاکے چار سینیٹرز کو فاٹا سے تعلق رکھنے والے بارہ اراکین قومی اسمبلی منتخب کریں گے۔یعنی فاٹا سے سینیٹ کے امیدوار کو فاٹا کے بارہ اراکین اسمبلی میں سے صرف تین اراکین کو راضی کرنا ہے اور ان کے ووٹ سے منتخب ہو جانا ہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ فاٹا سے سینیٹ کے لیے امیدوار زیادہ ہیں اور ووٹ دینے والے کم۔ چار نشستوں کے لیے بیس مالدار امیدوار میدان میں ہیں اور ووٹ دینے والے صرف بارہ ۔ بس طلب اور رسد میں عدم توازن کے باعث ایک ایک ووٹ کی قیمت کروڑوں میں ہے۔دیگر نشستوں پر بھی صورتحال اسی تناسب سے کم یا زیادہ ہے۔
پیسے کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف سب سے پہلے عمران خان نے آواز اٹھائی اور کہا کہ سینیٹ کا انتخاب خفیہ رائے شماری کی بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے ہونا چاہیے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی کہہ دیا کہ جو اراکین ووٹ بیچیں‘ ان کے گھروںکے باہر دھرنا دیا جائے تاکہ اس عوامی نمائندگی کے دعویدار کو بے نقاب کیا جا سکے۔وزیر اعظم نواز شریف نے بھی کابینہ کے اجلاس میں سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کا عندیہ دیا اور آئینی ترمیم لانے کی غرض سے حکومتی اراکین پر مشتمل دو کمیٹیاں تشکیل دے دیں جو اپوزیشن سے مذاکرات کریں گی اور آئینی ترمیم کی راہ ہموار کریں گی۔وزیر اعظم نے کہا ہے کہ انہوں نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔عمران خان نے بھی اس فیصلے کو سراہا ہے۔اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے اس بنیاد پر کسی بھی نئی ترمیم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے کہ وہ پہلے ہی اکیسویں ترمیم کے ڈسے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے لیے بھی ممکن نہیں تھا کہ وہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے کی جانے والی قانون سازی کا راستہ روکیں۔ بس حکومت تو تیار ہے اور ذرائع کے مطابق حکومت نے الیکشن کمیشن کو بھی قائل
کرلیا ہے کہ کسی بھی آئینی ترمیم کی صورت میںالیکشن کمیشن پارلیمنٹ کے فیصلے کا پابند ہو گا ۔وزارت قانون کے حکام نے الیکشن کمیشن کے قائم مقام سیکرٹری شیر افگن سے ملاقات بھی کی‘ جس کے بعد الیکشن کمیشن کو اس حد تک راضی کر لیا گیاکہ اگر بائیسویں ترمیم آ گئی توپھر سینیٹ الیکشن شیڈول آنے کے بعد بھی اس کا اطلاق نئے الیکشن پر ہو گا ۔ اگر نئی ترمیم کے نتیجے میں بیلٹ پیپر میں کوئی تبدیل کرنا پڑی تو ایسی صورت میں بیلٹ پیپر بھی دوبارہ پرنٹ کروانا ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو یہ خیال اتنی دیر سے کیوں آیا؟کیا میاں صاحب کے علم میں نہیںتھا کہ سینیٹ کا شیڈول آچکا ہے اور شیڈول آنے کے بعدقواعد میں تبدیلی کی اجازت نہیں ہو تی۔ وفاقی حکومت اور سیاسی جماعتیں اگر واقعی سنجیدہ ہیں یا تھیں تو انہیں بہت پہلے یہ ایکسرسائز کر لینی چا ہیے تھی۔
پنجابی کی مثال ہے 'بوہے تے آئی جنج تے وِنہو کڑی دے کن‘ (بارات دروازے پر آگئی تولڑکی کے کان چھدوائے جا رہے ہیں)۔ پر کیا کریں ہمارے کام بس ایسے ہی ہیں ۔تاہم ہارس ٹریڈنگ رک بھی جائے تو بھی پیسے کا عمل دخل ختم نہیں ہوگا ۔جو پیسے ووٹر کو جانے تھے وہ اب پارٹی فنڈز میں جائیں گے ۔یوں پیسے والے سیٹ لے جائیں گے اور دل والے دیکھتے رہ جائیںگے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں