ملکی تاریخ میںپہلی بار عام انتخابات سے متعلق وہ حقائق بھی سامنے آ رہے ہیں جنہیں پہلے معمول کی بے قاعدگی سمجھ کر یا تو نظر انداز کر دیا جاتا تھا یا پھر جان بوجھ کر چشم پوشی کی جاتی تھی۔ سب جانتے ہیںکہ جعلی ووٹ بھگتانے، جعلی شناختی کارڈ استعمال کرنے ، بیلٹ پیپرز پر جعلی ٹھپے لگانے اور بیلٹ باکس کو ادھر ادھر کرنے جیسی گستاخیاں ہر انتخابی عمل کے دوران رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔ اگرچہ ایسے واقعات ہر حلقہ یا ہر پولنگ سٹیشن میں نہیں ہوتے مگر ہوتے ضرور ہیں ۔یہ توبھلا ہوپاکستان تحریک انصاف کا جو 2013ء کے انتخابات ہار گئی۔نہ پی ٹی آئی انتخابات ہارتی، نہ ہیرا پھیریوں پر شور مچاتی اور نہ ہی انتخابی شعبدہ بازیوں کے یہ دلچسپ حقائق سامنے آتے۔ نادرا نے پہلی بار انتخابی عمل کا آڈٹ کیا اورایسے ایسے راز افشا کیے کہ جیتنے والے جھینپ جائیں گے اور ہارنے والے چھت سے جا ٹکرائیں گے کہ ان کے ساتھ کس نے ہاتھ کیا۔نادرا نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے جن 38حلقوں کی رپورٹس تیار کیں ان میں جعلی شناختی نمبروں کا استعمال، بوگس ووٹوں کی موجودگی اور غیر مصدقہ ووٹوں کی ایک بڑی تعداد ثابت ہوئی۔پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما آفتاب شعبان میرانی کے حلقہ
این اے 202 میں توہادی بخش نامی شخص نے ایک ہی پولنگ سٹیشن پر 310 ووٹ کاسٹ کر ڈالے۔ یہ مثال صرف ایک حلقے کے ایک پولنگ سٹیشن کی ہے ‘نہ جانے اس طرح کے اور کتنے ہادی بخش ہوںگے‘ جنہوں نے اپنا کام دکھایا ہوگا۔اسی حلقے کے ایک اور پولنگ سٹیشن پر ثابت ہوا کہ 530ووٹرز ایسے تھے جنہوں نے ایک سے زائد ووٹ ڈالے۔لاہور کا ایک حلقہ ہے این اے 118 جہاں ایک پولنگ سٹیشن میں 142افراد ایسے ووٹ ڈال گئے جو اس حلقے میں رجسٹرڈ ہی نہ تھے۔حلقہ این اے256 کراچی میں گیارہ ہزار سے زائد جعلی شناختی کارڈ نمبراستعمال ہوئے جبکہ اسی حلقے سے نادرا نے اٹھاون ہزار ووٹوں کی تصدیق نہ ہونے کی رپورٹ دے دی اور تو اور فاٹا میں بھی ایک حلقے میں دس ہزار جعلی شناختی کارڈ استعمال کیے گئے۔ نادرا نے تو یہ تک کہ دیا کہ انتخابی عملہ غیر تربیت یافتہ تھا‘ الیکشن کمیشن نے بھی غیر معیاری سیاہی استعمال کی۔ عملہ ضرورت سے زیادہ سیاہی انگوٹھوں
پر تھوپتا رہا جس کے باعث انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق ممکن ہی نہیں رہی۔دوسری جانب الیکشن کمیشن ایک جانب تو دھاندلی کے الزامات کو مسترد کر رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ اعتراف بھی کر رہا ہے کہ کچھ ریٹرننگ افسران نے کمپیوٹرائزڈ نتائج مرتب نہیں کیے اور لوڈشیڈنگ اور انٹرنیٹ کنکشن کی عدم دستیابی کی بنیاد پر دستی رزلٹ تیار کرتے رہے۔شاید اسی لیے عمران خان نے ریٹرننگ افسران کے کردار کو ہی ہدف تنقید بنایا کہ وہ کمپیوٹر چھوڑ کر کیوں ہاتھوں سے رزلٹ تیار کرتے رہے۔ یہ ایسے چشم کشا انکشافات ہیں جو ہر حلقے میں انتخابی عمل کو مشکوک بنا رہے ہیں۔ این اے 125 لاہور میںسعد رفیق کا انتخاب کالعدم قرار دینے کا فیصلہ بھی انہی بنیادوں پر جاری ہوا ہے جہاں جج صاحب نے لکھا کہ ایک شخص نے چھ چھ بار ووٹ کاسٹ کیا ۔ اب یہ ووٹ حامد خان کے تھے یا خواجہ سعد رفیق کے ‘ نادرا تو یہ بتانے سے قاصر ہے لیکن دال میں کالا سب نے دیکھ لیا۔ اقتدار کے لیے ملکی تاریخ میں ہونے والے ریفرنڈم میں تو ایسی کہانیاں سب نے سنی تھیں کہ ووٹرز کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ووٹ بیلٹ بکسوں سے نکلے لیکن عام انتخابات میں ایسی ہیراپھیریوں کا اب سد باب ضروری ہے۔ مجھے یاد ہے مرحوم ضیاء الحق نے اپنے انتخابی ریفرنڈم میں بیلٹ پیپر پر سوال لکھوایاکہ کیا آپ ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے مجھے آئندہ پانچ سال کے لیے صدر دیکھنا چاہتے ہیں ؟ اپنے الیکشن کو انہوں نے اسلام سے مشروط کر دیا‘ اب کون مومن ایسا تھا جو کہتا کہ نہیں مجھے اسلام یا اسلامی نظام نہیں دیکھنا ۔ ایسے ریفرنڈم کا نتیجہ بھر پور ہی آنا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ حکومتی ہمدرد ایسے بچوں کو بھی ووٹ ڈلوانے لے گئے جن کا شناختی کارڈ تک نہ بنا تھا۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں عوام کا جوش و خروش دکھانے کے لیے حکومتی اطلاعتی ادارہ صحافیوں کی ایک ٹیم کو مختلف پولنگ سٹیشنوں پر لے گیا۔میں نے خود یہ منظر دیکھاکہ جی ٹی روڈ پر قائم ایک سکول میں قائم پولنگ سٹیشن میں صحافیوں کی ٹیم پہنچی تو وہاں ہو کا عالم تھا ۔دور دور تک کوئی ووٹر دیکھنے کو نہیں مل رہا تھا ۔ صحافیوں کی ٹیم دیکھ کر انتخابی عملہ بھی پریشان ہو گیا‘ لیکن حکومتی اہلکاروںنے ہمت نہیں ہاری۔ مقامی پولیس والوں نے فوری طور پر جی ٹی روڈ پر ایک پرانی سی مسافر ویگن کو روکا اور تمام سواریوں کوجلدی جلدی اترنے کا حکم دیا ۔اس ویگن میں کچھ دیہاتی خواتین اور بزرگ مرد موجود تھے‘ جو پولیس کے اس کمانڈو ایکشن پر ہکا بکا رہ گئے۔ پولیس والوں نے فوری طور پر ان سادہ لوح دیہاتیوں کی ایک قطار بنوا لی۔پھر حکومتی اہلکاروںنے مسکرا کر ہمیں کہا کہ اب آپ پولنگ سٹیشن پر ووٹرز کے رش کی فوٹیج بنا لیں۔ خیر ریفرنڈم تو ایسے ہی ہوا کرتے ہیں لیکن عام انتخابات سارے عوام کی نمائندگی اور عوام کے مینڈیٹ کا معاملہ ہے جو کسی امانت سے کم نہیں ہوتا ۔اس امانت میں ملاوٹ اور خیانت کرنے والوں کی بھی پکڑ ہونی چاہیے ورنہ قوم کے لیے امین اور خائن میں کوئی تمیز روا رکھنا ممکن نہ رہے گا۔