گزشتہ دنوں بھارت جانے کا اتفاق ہوا۔بدیس ہوتے ہوئے بھی وہاں بہت سی جگہوں پر پاکستان کی جھلک نظر آتی ہے۔دونوں ممالک ایک ایسے تاریخی بندھن سے جڑے ہیںجنہیں باہمی عداوتیں بھی ختم نہیں کر سکتیں ۔جامع مسجد دہلی جائیں تو لگے گا لاہور کی بادشاہی مسجد میں ہیں ۔ لال قلعہ دہلی دیکھ لیں تو شاہی قلعہ لاہور کا گمان ہو گا ۔لوگ بھی ہماری طرح کے سانولے اور بھاشا بھی اگرچہ ہندی ہے لیکن اردو کی جڑواں بہن ۔جس نے مغلیہ تاریخ پڑھی ہے وہ تاج محل جائے تو مرحومہ ممتاز محل اپنی رشتہ دار سے کم محسوس نہیں ہو گی۔ دونوں ممالک میں غربت کا معیار شاید اقتصادی اعدادو شمار کے تحت مختلف ہو لیکن بظاہر وہاں بھی بھوکے ننگے لوگ ریستورانوں کے باہر گھنٹوں لائن بنائے صرف دو وقت کی روٹی کے لیے بیٹھے رہتے ہیں جیسے ہمارے یہاں غربت کے مارے لوگ کوڑے کے ڈھیر اور کچرا کنڈیوں سے کھانا تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ بھارتی سیاست میں بھی وہی بد نام زمانہ کلچر نظر آتا ہے جسے ہمارے یہاں سیاسی خدمت کا نام دیا جاتا ہے ۔بھارتی نیتا بھی کرسی کی جنگ اسی جوش و خروش سے لڑتے ہیں جیسے ہمارے سیاسی رہنما ئوں کی مار دھاڑ نظر آتی ہے۔سیاست ایک عبادت ہے ۔یہ نعرہ وہاں بھی معصوم عوام کو ورغلا رہا ہے اور ہم بھی اس
عبادت کا اجر و ثواب وصول کررہے ہیں۔غرض پاکستان اور بھارت کا تقابلی موازنہ کیا جائے تو تہذیب و ثقافت ، زبان و ادب ، معاشرت و معیشت اور سیاست و حکمرانی میں بہت سے عناصر مشترک نظر آئیں گے۔ میں بھارت میں اپنے مختصر قیام میں ہر چیز کاتقابلی موازنہ ہی کرتا رہا۔جس حقیقت نے مجھے سب سے زیادہ متوجہ کیا وہ بھارت میں آئے غیر ملکی سیلانی تھے جو بھارت کے ہر سیاحتی مقام پر بکثرت نظر آئے ۔پرانی دلی کی ٹوٹی پھوٹی گلیاں ہوں یا بازار،مسجد ہو یا مندر، ہر سیاحتی مقام پر غیر ملکی سیاح لطف اندوز ہوتے نظر آئیں گے ۔منی سکرٹ ، ٹائٹ جینزاور اور شارٹس پہنے گورے اور گوریاں جب مقامی بھارتیوں کے درمیان گھومتے ہیں تو سب میں نمایاں نظر آتے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی انہیں نظر بھر کے تو شاید دیکھ لے لیکن گھورتا نہیں ہے ۔اس لیے کہ گوروں کی آمد و جامد بھارتیوں کے لیے معمول کی بات ہے۔ امن و امان کی طرف سے یہ غیر ملکی سیاح اس حد تک مطمئن دکھتے ہیں کہ محض ایڈونچر کی غرض سے سائیکل رکشہ میں بھی سفر
سے گریز نہیں کرتے ۔ بھارتی حکومت نے بھی غیر ملکی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بہت سی سہولیات دے رکھی ہیں ۔ ریلوے سٹیشن اور ایئرپورٹس پر غیر ملکیوں کے لیے علیحدہ سہولتی کائونٹر بنے ہیں ۔ ہر ریل گاڑی میںغیر ملکیوں کے لیے سیٹوں کا علیحدہ کوٹہ مخصوص ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں غیرملکی سیلانیوں کی آمد سے بھارت کو محض سیاحت کی مد میں اربوں روپے سالانہ کی آمدن ہوتی ہے۔ بس اسی ایک کمی کا احساس مجھے شدت سے ہوا۔ایک زمانہ تھا جب پاکستان بھی سیاحوں کی جنت ہو ا کرتا تھا ۔پاکستان کے شمالی علاقے میں غیر ملکی سیاح کھنچے چلے آتے تھے۔آج سے پچیس تیس سال پہلے کا اسلام آباد مجھے اچھی طرح یاد ہے ۔ جب شاہراہ دستور پر ریڈ زون کا وجود بھی نہیں تھا۔ پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک بھی نہیں بنا تھا اور پبلک اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ بالکل پارلیمنٹ ہائوس کے دروازے کے سامنے سے گزرا کرتی تھی۔ اسلام آباد کے ڈپلومیٹک انکلیو میں تمام ممالک کے سفارتخانے تھے۔ اور ٹریفک ان سفارتخانوں کے بالکل سامنے سے گزرا کرتی تھی۔ امریکی سفارتخانہ جہاں اس وقت پرندہ پر نہیں مار سکتا وہاں آپ اپنی موٹر سائیکل پر بھی جا سکتے تھے اور قائد اعظم یونیورسٹی جانے والی سوزوکی گاڑیاں آپ کو امریکی سفارتخانے کے دروازے پر اتارتی تھیں۔صبح کے وقت مختلف سفارتخانوں میں مقیم گورے اور گوریاں نیکر اور ٹی شرٹس پہن کر جاگنگ کے لیے شاہراہ دستور پر نکل آتے تھے ۔ کوئی خود سیر کرتا تھا اور کوئی اپنے کتوں کو بھی سیر کراتا تھا۔ اسلام آباد کی مشہور سراج کورڈ مارکیٹ گوروں کی پسندیدہ مارکیٹ ہوا کرتی تھی۔ہم بھی اس مارکیٹ میں صرف اس نیت سے جایا کرتے تھے کہ یہاں معیاری اشیائے صرف مل جایا کرتی تھیں ۔غرض غیر ملکی سیاح کو اس دور میں نہ تو طالبان کا ڈر تھا نہ کسی اور کا ۔آزادانہ گھوتے تھے۔ لیکن اب تو پاکستان کی سیاحت گویا اجڑ کر رہ گئی ہے۔ مقامیوں کے علاوہ ہماری سیاحتی وادیوں کو کوئی داد حسن دینے والا نہیںہے۔ مقامی سیاح ہی آتے ہیں جو ناکافی سہولیات کا ذکر کرتے ہیں۔ ان حسین وادیوں والے شمالی علاقوں میں اب غیر ملکی سیاح ڈھونڈے نہیں ملتے۔ حسن کی وادیوں میں بس اداسی بال کھولے سو رہی ہے ۔جہاں بھارت میں سیاح چپے چپے پہ نظر آتے ہیں ہمارے یہاںبد قسمتی سے یہ چھپ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔غیر ملکی سفارتخانوں کو اپنی متعلقہ حکومتوں کی جانب سے باقاعدہ ہدایات ملی ہوئی ہیں کہ انہیں پاکستان میں غیر ضروری سفر سے گریز کرنا ہے اور جو یہاں مقیم ہیں انہیںlow profile میں رہنا ہے۔ مزید ستم یہ کہ حا لیہ نلتر ہیلی کاپٹر حادثے میں سیاحت کی غرض سے جانے والے غیر ملکی سفیروں کی ہلاکت جیسے واقعات نے تو پاکستانی سیاحت پر گویا برف ڈال دی ہے۔ بھارت میں اپنے مختصر دورے کے دوران میں نے اپنی دانست میں جو تقابلی جائزہ لیا اس میںغیر ملکی سیاحوں کی بھارت میں موجودگی ایک بہت بڑا اور واضح فرق ہے ۔اس فرق کو علامتی طور پر دیکھا جائے تو ہمیں محسوس ہو گا کہ اس دنیا میں ہم کتنے اکیلے ہیں اور کتنے غیر محفوظ۔ہم برے نہیںنہ ہی ہم سے کوئی نفرت کرتا ہے بس آنے والا پاس آنے سے ڈرتا ہے۔