گزشتہ دس سال کا عرصہ ملکی تاریخ میں بلا شبہ جوڈیشل ایکٹوازم کا دور تھا۔پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایسی فعالیت اور تحرک نہ اس سے پہلے دیکھنے کو ملا اور نہ ہی آئندہ ایسا دیکھنے کے کوئی امکانات ہیں ۔ آج سے دس سال پہلے 29جون2005ء کو چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری نے ازخود نوٹس کے نام پرعدالتی فعالیت کا بے دریغ استعمال شروع کیا۔ اس کی ضرب کھانے والے آج بھی اپنے زخموں کو ہاتھ لگا لگا کر روتے ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اُن کی تیزی کی سزا دینے کے لیے انہیں دو بار ماورائے آئین انداز میں ہٹانے کی کوشش کی گئی لیکن قسمت کے دھنی تھے‘ بچ نکلے۔ 11دسمبر2013ء کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد عدالتی فعالیت کی رفتار میں کمی ضرور آئی لیکن تسلسل قائم رہا۔ غیر آئینی قرار دیے جانے والے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر بھی انسانی حقوق کے مقدمات میں از خود نوٹس لیتے رہے تاکہ ان کے پیش رو کی روایت اور مقبولیت کا فائدہ انہیںبھی ملتا رہے۔بعد میں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی، پھر چیف جسٹس ناصر الملک اور صرف 23دنوں تک چیف جسٹس رہنے والے جسٹس جواد ایس خواجہ بھی ملازمت کے آخری لمحوںتک عدالتی فعالیت کے اصول پر عمل پیرا رہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم کے نام پر وزرائے اعظم کونوٹس ہوئے بلکہ ایک منتخب وزیر اعظم کو توہین عدالت کی سزا سنائی گئی‘ انہیں نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ پانچ سال کے لیے نا اہلی کا داغ بھی لگ گیا۔کابینہ کے وزراء، سیاستدان اور اداروں کے سربراہان اور بیوروکریٹس بھی کسی نہ کسی قصور کی پاداش میں کٹہرے
میں آتے رہے ۔انسانی حقوق سے متعلق اتنے زیادہ مقدمات زیرسماعت رہے کہ سپریم کورٹ پولیس کا دوسرا دفتر بن کر رہ گیا۔ آئے روز آئی جی صاحبان سے لے کر تفتیشیوں تک کی عدالت میں پیشی معمول بن گئی۔ ایک ایک دن میں کئی کئی از خود نوٹسوں کا اجراء ہوتا تھا۔ ناقدین کو گلہ تھا کہ عدالتی فعالیت کے سہارے جج صاحبان اہم مقدمات میں صرف اپنے ریمارکس اور آبزرویشنز سے میڈیا میں سرخیوں کا عنوان بنتے ہیں؛ یوں مقدمہ چلنے سے پہلے ہی ملزم کا میڈیا ٹرائل ہو جاتا۔ سپریم کورٹ میں براہ راست آنے والے مقدمات کی ابتدائی سماعت کے دوران ہی جج صاحبان ملزمان کے خلاف اور متاثرہ فریق کے حق میں اتنے ریمارکس دے ڈالتے کہ جب مقدمہ دوبارہ ٹرائل کورٹ میں بھیجا جاتا تو نچلی عدالت کا جج سپریم کورٹ کی کارروائی میڈیا پر دیکھ کر پہلے ہی متاثر ہو چکا ہوتا تھا اور پھر اس عدالت سے فیصلہ بھی انہی ریمارکس کے تناظر میں آتا۔ یہی وجہ تھی کہ مشہور مقدمات میں وکلاء کی اکثریت جج صاحبان کے غیر ضروری ریمارکس کو ناپسندیدہ قرار دیتی رہی۔
عوام بھی سوچنے پرمجبور ہو گئے کہ خط نہ لکھنے کامقدمہ ان کے منتخب وزیراعظم کو لے ڈوبا لیکن سوئس بینکوںمیں موجود آصف زرداری کی 60ملین ڈالر کی رقم پھر بھی قومی خزانے میں واپس نہ لائی جا سکی۔رینٹل پاور کا فیصلہ آگیالیکن بجلی نہیں آئی۔ لوڈشیڈنگ کے خلاف از خود نوٹس ہو گیا لیکن ملک پھر بھی اندھیروں سے نہ نکل سکا۔بجلی کی بڑھتی قیمتوں پرازخود نوٹس کا نتیجہ دیکھنا ہو تو اپنا بجلی کابل دیکھ لیں۔پٹرول کی قیمتوں پر جسٹس رانا بھگوان داس کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عوام کی جیبوں سے اربوں روپے زائد وصول کیے گئے‘ مگرایک پیسے کی واپسی نہ ہو سکی اور نہ ہی لٹیروںکااحتساب ہوا۔سی این جی کی قیمتوں پر ازخود نوٹس ہوا تو عوام کوایسی سزاملی کہ دن رات قطاروں میں لگے رہے۔ایساف کنٹینرز سکینڈل میں کسٹمز حکام کی اربوں کی چوری پر ازخود نوٹس ہوا‘ نتیجہ صفر۔ عوامی مفاد کے مقدمات کی لمبی فہرست ہے جنہیں کھنگالا جائے تو جج صاحبان کے ریمارکس کے علاوہ کوئی ٹھوس چیز سامنے نہیں آئے گی۔
عدالتی فعالیت کے اس دور نے شفافیت، قانون کی بالادستی‘ معاشرتی انصاف او ر مساوات کی نئی جہتیں ضرور روشن کرائیں لیکن زیادتی بہرحال زیادتی ہے‘ عدالتی فعالیت عدلیہ کے لیے الزام بن کر رہ گئی۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف جب جنرل مشرف کے دور حکومت میں چارج شیٹ پیش کی گئی تو مرکزی الزام بھی یہی لگا کہ اعلیٰ حکومتی عہدیداران کو سپریم کورٹ بلاکر ان کی تضحیک کی جاتی ہے جس سے نہ صرف حکومتی مشینری کی کاردکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ حکومتی اہلکاروںکامورال بھی ڈائون ہو تا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کی جگہ لینے والے چیف جسٹس‘ جسٹس انوار ظہیر جمالی نے گزشتہ روز نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ کسی ریاستی ادارے کوحدود سے تجاوز نہیں کرنے دیا جائے گا ۔ آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے کوششیں جاری رہیں گی لیکن عدالتی حلقوں کاماننا ہے کہ شاید از خود نوٹس کی لاٹھی کا استعمال اب اس انداز میں نہیں ہو سکے گا جو گزشتہ دہائی میں سپریم کورٹ کا خاصہ رہا ہے۔ویسے بھی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا نے گزشتہ روز ایک قراردادمنظور کی‘ جس میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیار کومحدود کرنے اور از خود نوٹس میں دیئے گئے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینے کے لیے قانون سازی کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ قرارداد پیپلز پارٹی کی جانب سے پیش کی گئی لیکن دلچسپ بات یہ کہ حکومتی بنچوں نے اس کی مخالفت نہیں کی‘ یعنی آنے والے دنوں میں ممکن ہے کہ عدلیہ کے ازخود نوٹس کے اختیارکومحدود کرنے اور اپیل کا حق دینے سے متعلق آئین میں کوئی ترمیم یا نیا قانون سامنے آ جائے ‘ جس سے جوڈیشل ایکٹوازم کا رہا سہا زور بھی ٹوٹ جائے گا ۔ پارلیمنٹ کو بلاشبہ یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 239کے تحت آئین میں کوئی بھی ترمیم کر سکتی ہے‘ لیکن دوسری جانب عدالت کو عدالتی نظر ثانی کا حق ہر دور میں حاصل رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ پارلیمنٹ جوڈیشل ایکٹوازم کے خلاف کوئی آئینی ترمیم لائے یا نئی قانون سازی کرے اور اسے اس بنیاد پر سپریم کورٹ میںہی چیلنج کر دیاجائے کہ یہ نیا قانون عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے ۔
لیکن آئینی ترامیم کو کالعدم قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ کا فوجی عدالتوں سے متعلق حالیہ فیصلہ اس نظریے کو تقویت دے گا کہ اگر عدالت عظمیٰ ایک متوازی عدالتی نظام قائم کرنے والی ترمیم کو جائز قرار دے دیتی ہے تو پھر از خود نوٹس کو محدود کرنے سے متعلق بھی ترمیم عدالتی کسوٹی پر کامیاب ہی ثابت ہو گی۔ایک دور تھا جب فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو پوری سپریم کورٹ یک زبان ہو کر اتفاق رائے سے مسترد کر دیتی تھی ‘ حتیٰ کہ کوئی جج اختلافی نوٹ بھی نہ لکھتا تھا‘ لیکن عدالتی فعالیت کایہ دور اب دم توڑ رہاہے۔ یہ جوڈیشل ایکٹوازم کی ناکامی ہے یا پھر اس کا بلاجوازاور بے دریغ استعمال‘ جس کے نتیجے میں عدلیہ آج اس مقام پر ہے جہاں اسے خود بھی فوجی عدالتوں کے قیام پر مہر تصدیق ثبت کرنا پڑتی ہے اور مقننہ کو بھی عدلیہ کے اختیارات محدود کرنے کے لیے آئینی ترمیم اور قانون سازی بارے سوچنا پڑتا ہے۔