ملکی تاریخ کے سب سے مشہور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ریٹائر ہوئے دو سال مکمل ہونے کو ہیں۔ وہ اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ خار زار سیاست میں قدم رکھنے کو تیار ہی نہیں بلکہ بے چین ہیں۔ نظریاتی سیاست کا آغاز تو انہوں نے گزشتہ روز ہی کر دیا جب میڈیا اور دانشور طبقے کے نام ایک کھلے خط میں انہوں نے ملکی سیاست اور ملکی نظام کے حوالے سے تجاویز طلب کیں۔ اس خط میں انہوں نے اپنا مدعا بھی بیان کر دیا، لکھتے ہیں: ''ایک متبادل جمہوری نظام کی تلاش ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کے نام پر ہمارے ساتھ جو ہوا وہ ہم نے دیکھ لیا، اب کیوں نہ قائد اعظم کی فکر کی روشنی میں ایک ایسے نظام کی طرف بڑھا جائے جو صدارتی نظام حکومت اور اعلیٰ جمہوری قدروں پر کھڑا ہو۔ عوامی نمائندگان صرف قانون سازی تک محدود رہیں اور دیگر اختیارات عوام الناس کو نچلی سطح پر منتقل کر دیے جائیں ؟‘‘۔ یعنی چیف صاحب چاہتے ہیں کہ ملک میں صدارتی نظام کی راہ ہموار ہو۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اپنی پوری مدت ملازمت کے دوران افتخار محمد چوہدری پارلیمانی جمہوریت کا دم بھرتے رہے لیکن آج اسی نظام کے بارے میں چیف صاحب لکھتے ہیں: ''ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کب تک پارلیمانی جمہوریت کے نام پر نام نہاد اشرافیہ کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھیں گے‘‘۔ انہوں نے صدارتی نظام کے حق میں اور پارلیمانی جمہوریت کے خلاف جو بھی توجیہات لکھی ہیں وہ سو فیصد درست ہیں ۔کون اس بات کا ادراک نہیں رکھتا کہ ملک میں نہ سماجی انصاف ہے اور نہ ہی گڈ گورننس۔ غریب کی غربت کس سے ڈھکی چھپی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ غربت کے مارے لوگوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ کتابیں ان باتوں سے بھری پڑی ہیں
جس میں غربت کا رونا اور اشرافیہ کے خلاف دشنام طرازی کھلے لفظوں میں کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک غریب ہی یہ جان سکتا ہے کہ غربت کی کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ چیف صاحب نے ملک میں انحطاط پذیری کا ذکر کرکے اپنے خط میں کوئی نئی بات نہیں کی۔
اصل میں غور طلب بات یہ ہے کہ 12دسمبر کو جب سابق چیف جسٹس اپنی سیاسی دکان کا افتتاح کریں گے تویہ ان کے لیے بالکل نیا تجربہ ہوگا۔ سیاست کے میدان میں ان کے لیے نہ تو کوئی گارڈ آف آنر ہوگا‘ نہ ہی عدالتی دربان ان کی آمد کا اعلان کریں گے۔ کمرہ عدالت میں جج صاحب کی آمد پر جس طرح سے حاضرین عدالت کے ادب میں دم سادھے کھڑے ہو تے ہیں، ایسا نہیں ہو گا کیونکہ کمرہ عدالت میدان سیاست سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ ایک جج کو تو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہو تا ہے لیکن سیاست کے انداز نرالے ہیں۔ یہاں ہر کام سیاسی انداز میں ہوتا ہے۔ گالیوں کے بدلے مسکراہٹ بھی سیاست، الزامات کا کلنک تو ہر کوئی داغنے کو تیار رہتا ہے۔ سیاست میں ضمیر فروشی کا طعنہ بھی ایسے برداشت کرنا پڑتا ہے جیسے طوائف عصمت کا سودا کرنے کے طعنے پر خاموش رہتی ہے۔ انڈے ٹماٹرکا استعمال تو پرانا ہو گیا، اب سر پھرے عوام مخالفین کے استقبال کے لیے جوتے کے استعمال سے بھی دریغ نہیںکرتے۔ behavioral scienceکاایک اصول ہے کہ کوئی آپ کو ناحق پتھر مارے تو فوراً بدلہ لینے کی کوشش نہ کریں بلکہ وہ پتھر اٹھا کر جیب میں رکھ لیں اور موقعے کا انتظار کریں۔ ہمارے چیف جسٹس کے مخالفین نے بھی بے شمار پتھر اپنی جیبوں میں بھر رکھے ہیں اور کسی ایسے ہی موقعے کی تلاش میں ہیں جب ان کا نشانہ خطا نہ ہو۔ وجہ یہ ہے کہ عدلیہ میں اپنے عہد میں چیف صاحب نے کسی کو نہیں بخشا۔۔۔۔ کیا حکمران، کیا سیاستدان اورکیا بیوروکریٹ ۔ سبھی کو چیف صاحب کے سامنے ملزموں کے کٹہرے میں آنا پڑا۔ اس وقت تو ان کا بس نہیں چلتا تھا کیونکہ توہین عدالت کے قانون میں چھ ماہ کی قید ان کا مقدر ٹھہرتی، سو انہوں نے بھی اپنی جانب آنے والے پتھر اپنی جیبوں میں بھر لیے۔ چیف صاحب تو بہت پہلے ہی اپنی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر چکے تھے، میں نے جب بھی کسی سیاستدان سے چیف صاحب کے اس فیصلے پر رائے جاننا چاہی توسب نے ایک معنی خیز زیر لب مسکراہٹ کے علاوہ کھل کر کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن اپنی مسکراہٹ میں ہی وہ بہت کچھ کہہ گئے، جیسے وہ بھی چیف صاحب کے صرف سیاست میں آنے کا ہی انتظار کر رہے ہوں۔
مجھے یاد ہے، جب ارسلان افتخار کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا تو بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض پر توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر کو اس مقدمے کے لیے وکیل استغاثہ مقرر کیا گیا۔ قانون کے مطابق وکیل استغاثہ اپنے گواہوں کی فہرست عدالت میں پیش کرتا ہے۔ چونکہ ملک ریاض کا مقدمہ ارسلان افتخار سے متعلق تھا اور اس کہانی میں ارسلان افتخار کے والد یعنی چیف صاحب کا نام بھی آتا تھا اس لیے عرفان قادر نے گواہوں کی فہرست میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا نام بھی ڈال دیا۔ اس صورت میں دوران ٹرائل چیف صاحب کو بھی کٹہرے میں آنا پڑتا اور یہ عدالتی تاریخ کی ایک نئی مثال ہوتی۔ جج مقدس گائے نہیں ہوتے، پھر بھی ہوتے ہیں، اسی لیے نتیجہ یہ نکلا کہ توہین عدالت کے مقدمہ کی سماعت کرنے والے بنچ نے عرفان قادر سے استغاثہ ہی واپس لے لیا اور چیف جسٹس کو ہزیمت سے بچا لیا گیا۔ ایسی بے شمار مثالیں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس ایک مثال کا ذکراس لیے مقصود تھا کہ سیاست میں آنے کے بعد انہیں ایسا کوئی استثنیٰ دستیاب نہیں ہوگا۔
رہی بات صدارتی نظام حکومت کی تو عرض ہے کہ چیف صاحب کا یہ نظریہ بھی کوئی نیا نہیں۔ شاید چیف صاحب اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ موجودہ سیاسی جماعتوں کی کتابوں میں وہ شاید حرف مکرر ہیں۔ پیپلز پارٹی تو اب تک طعنہ دیتی ہے کہ کہاں ہیں وہ 60 ملین ڈالر جو سوئس بنکوں سے ملکی خزانے میں واپس آنے تھے اور جس کی پاداش میں ایک منتخب جمہوری وزیر اعظم کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا تھا۔ نواز لیگ کی بات کریں تو شاید چیف صاحب نون لیگ کے لیے یا نون لیگ چیف صاحب کے لیے اپنے دل کے کسی کونے میں کوئی نرم گوشہ رکھتی ہو۔ لیکن اس کے با وجود چیف صاحب نون لیگ میں مس فٹ ہی نظر آئیں گے۔ نواز لیگ صدر اسے بناتی ہے جو ان کا 'رفیق ‘ ہو یا 'ممنون ‘ ! چیف صاحب ان دونوں معیاروں پر پورے نہیں اترتے۔ تحریک انصاف تو چیف صاحب سے اتنی بد ظن ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کی جڑ افتخار محمد چوہدری کو ہی سمجھتے ہیں۔ ایسی صورت میں چیف صاحب کے پاس نئی جماعت بنانے کا آپشن ہی باقی رہ جاتا ہے۔ ان کا ایجنڈا بظاہر جاندار ہے۔کون نہیں چاہتا کہ سٹیٹس کو (status quo)کا خاتمہ ہو، حالات بدلیں اور خوشحالی آئے۔ لیکن یہاں بڑے بڑے طرم خان اورمرد آہن آئے اور گئے یا پھراپنے نعروں اور ایجنڈے سمیت سسٹم کا شکار ہو گئے۔ چیف صاحب کی عدلیہ میں اپنے دور حکمرانی میں جتنے قریبی دوست تھے وہ اب ان کے ساتھ کہیں نظر نہیں آتے۔ سیاستدانوں کی تو بات ہی کیا کریں صرف وکلاء برادری سے اعتزاز احسن، طارق محمود، جسٹس اطہر من اللہ، عاصمہ جہانگیر، بابر اعوان، ڈاکٹر باسط ، عرفان قادر، سلمان اکرم راجہ، ایس ایم ظفر، علی ظفر، ڈاکٹر خالد رانجھا، کامران مرتضیٰ اور دیگر بہت سے فعال وکلاء آج اپنے چیف صاحب سے بہت فاصلے پر نظر آتے ہیں۔ اس کا اندازہ اسی وقت ہو گیا تھا جب دو سال پہلے چیف صاحب کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر سپریم کورٹ بار کے صدر نے انہیں روایتی الوداعی عشائیہ بھی دینا گوارا نہ کیا تھا۔ بہرحال، ہم بھی چاہتے ہیں کہ چیف صاحب آئیں اور ہمیں وقت کے غاصبوں اور ظالموں سے نجات دلائیں۔ لیکن ڈر ہے ایسا نہ ہوکہ بقول غالب ؎
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے‘ پہ تماشہ نہ ہوا