پاکستان میں عام آدمی کے لیے تو دولت چھپانا شاید آسان ہو لیکن عوامی نمائندوں کے لیے بہت مشکل ہے۔ آپ صرف کوئی الیکشن ہی لڑنا چاہیں تو سب سے پہلے الیکشن کمیشن آپ کی دولت کی تفصیلات مانگے گا۔ آپ الیکشن جیت جائیں تو جب تک انتخابی اخراجات کی تفصیل جمع نہیں کرائیں گے‘ الیکشن کمیشن آپ کی جیت کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرے گا۔ ہر سال ہر رکن اسمبلی اور سینیٹ بشمول وزیر اعظم‘ وزرا اور مشیروں‘ سے ان کے اثاثوں کی تفصیلات مانگی جاتی ہیں۔ یہ ایک قانونی تقاضا ہے۔ اگر یہ تفصیل مقررہ مدت میں الیکشن کمیشن میں نہ جمع کروائی جائے تو پھر اس رکن کی اسمبلی رکنیت معطل کر دی جاتی ہے۔ اثاثوںکی اس تفصیل میں منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد، بینک اکائونٹس، کیش، پرائز بانڈز، انویسٹمنٹ سرٹیفکیٹس، انشورنس پالیسیاں، گاڑیاں‘ جیولری‘ یہاں تک کہ فرنیچر اور روزمرہ استعمال کی قیمتی اشیا کی تفصیل بھی طلب کی جاتی ہے۔ یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ ملک کے اندر کتنا کاروبار اور پراپرٹی ہے اور ملک سے باہر کتنی۔ انکم ٹیکس ریٹرن میں بھی ایف بی آر کو تمام دولت کی تفصیل دینا ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر انکم ٹیکس اور دولت ٹیکس کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ ان تمام تفصیلات کے ساتھ ایک حلف نامہ جمع کروایا جاتا ہے کہ فراہم کردہ تمام معلومات درست اور مکمل ہیں اور کوئی امر پوشیدہ نہیں رکھا گیا۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں میں بہت سے ایسے مقدمات دیکھے گئے جن میں اراکین اسمبلی کو صرف اس وجہ سے نااہل قرار دے دیا گیا کہ انہوں نے اپنے کوائف یا اپنے اثاثوں سے متعلق معلومات یا تو درست بیان نہ کیں یا پھر پوشیدہ رکھیں‘ یعنی اپنے اثاثے چھپانا یا درست کوائف فراہم نہ کرنا ایسا فعل ہے جس کے تحت کوئی بھی منتخب
عوامی نمائندہ نااہل ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آف شور کمپنیوں کا سکینڈل پانامہ پیپرز کے ذریعے لیک ہوا تو پاکستان کے وزیر اعظم کے خاندان کا نام بھی جلی حروف میں میڈیا کی زینت بنا۔ یہ حقیقت ہے کہ ان دستاویزات کے مطابق کوئی بھی آف شور کمپنی براہ راست نواز شریف کے نام نہیں ہے۔ ان کمپنیوں میں ان کے دونوں بیٹوں حسن نواز‘ حسین نواز اور ان کی بیٹی مریم صفدر کا نام آ رہا ہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کالا دھن کمانے والا اس دولت کو اپنے نام اکٹھا نہیں کر رکھتا۔ کسی حکومتی عہدیدار یا بڑے افسر کی مثال لیں۔ رشوت کا مال وہ اپنی بیوی اپنے بچوں اور اپنے دوستوں (فرنٹ مین) کے نام کرتا ہے اور خود غریب‘ نیک‘ دیانتدار اور پارسا بنا رہتا ہے‘ کیونکہ اس کے اپنے نام کچھ نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کی مثال نواز شریف صاحب نے خود اپنی 5 اپریل کی تقریر میں دی۔ وزیر اعظم کے الفاظ رقم کر رہا ہوں ''میں صرف اتنا کہوں گا کہ کرپشن یا ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے والے نہ تو اپنے نام پر کمپنیاں رکھتے ہیں‘ اور نہ ہی اپنے اثاثے اپنے نام پر رکھتے ہیں‘‘۔ ان کا کہنا درست ہے کہ جب کوئی آف شور کمپنی ان کے نام ہی نہیں تو پھر وہ دولت چھپانے یا ٹیکس چرانے کے مجرم کیسے ہو سکتے ہیں‘ لیکن معاملہ یہاں ختم نہیں ہو جاتا۔ پانامہ لیکس میں جن سربراہان مملکت کا ذکر ہے ان میں سے کوئی بھی براہ راست آف شور کمپنی کا مالک نہیں۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم نے استعفیٰ دے کر پہل کر دی‘ جبکہ الزام یہ تھا کہ ان کی اہلیہ آف شور کمپنی چلاتی تھیں۔ چین کے صدر پر صرف یہ الزام ہے کہ ان کے برادر نسبتی آف شور کمپنی کے ذریعے ٹیکس بچاتے رہے۔ برطانوی وزیر اعظم پر الزام ہے کہ ان کے والد نے ایسی کمپنی قائم کی۔ روس کے صدر پر بھی براہ راست کوئی الزام نہیں صرف یہ کہا گیا ہے کہ اربوں ڈالر کی دولت چھپانے کے عمل سے وہ بھی منسلک رہے ہیں۔
عوامی نمائندہ اگر کسی حکومت کا‘ مملکت کا سربراہ ہو تو پھر دور پرے کی رشتہ داری بھی Conflict of interest بن جاتی ہے۔ دنیا کی تاریخ بہت سی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں براہ راست ملوث نہ ہوتے ہوئے بھی ان حکمرانوں نے مسند سلطنت کو خیرباد کہہ دیا کیونکہ وہ کوئی بالواسطہ الزام بھی گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ ہمارے وزیر اعظم نے بھی خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے‘ اور تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن بنانے کی بہادری دکھائی ہے‘ حالانکہ پاکستان میں جوڈیشل کمیشن حقائق بتانے کے لیے نہیں بلکہ حقائق چھپانے کے لیے بنتے ہیں۔ پھر وزیر اعظم نواز شریف کے مقدمہ میں یہ امر بھی تشویش کا باعث ہے کہ حکومت کے سربراہ
ہوتے ہوئے ایک ریٹائرڈ جج حکومتی خرچے پر کس طرح وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات کی جسارت کرے گا۔ وزیر اعظم کی نشست پر براجمان رہتے ہوئے وہ لاکھ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کروا لیں، ان تحقیقات کو کبھی منصفانہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ کمیشن کے قیام سے پہلے ہی اپوزیشن جماعتوں کا اسے مسترد کر دینا اس حقیقت کا بین ثبوت ہے۔ نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کا یہ دعویٰ بالکل بجا ہے کہ وہ پرانے سرمایہ کار اور صنعت کار ہیں‘ اور جو دولت ظاہر ہوئی وہ انہوں نے دہائیوں کی محنت سے حاصل کی ہے۔ ظاہر ہے اس دولت کے کمانے میں ان کے والد میاں محمد نواز شریف کا اہم کردار ہو گا۔ یہ دولت شروع سے حسین نواز کے پاس نہیں رہی ہو گی‘ بلکہ دادا اور والد سے ان تک پہنچی ہو گی‘ لیکن پھر سوئی پرانے مقام پر اٹکتی ہے کہ نواز شریف صاحب31 سال قبل پہلی بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے۔ اس وقت سے عملی سیاست میں ہیں۔ جدہ میں اپنی جلا وطنی کے دور میں بھی وہ سیاست نہیں تو کاروبار ضرور کرتے رہے۔ تین بار وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ متعدد بار الیکشن لڑا، لیکن الیکشن کمیشن کے کسی Declaration میں بھی ان کی دولت کا ذکر نہیں ملتا۔ یہاں تک کہ انکم ٹیکس اور ایف بی آر کے ریکارڈ میں بھی وہ اتنے امیر آدمی نہیں‘ جتنا امیر انہیں اپوزیشن یا عوام سمجھتے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں جمع شدہ ان کے سالانہ اثاثوں کے گوشوارے بھی ایسے نہیں کہ ان کی نسبت کسی آف شور کمپنی سے جوڑی جائے۔ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح میاں صاحب نے صرف سیاست کو عبادت سمجھا، اسی طرح سے ان کی اولاد نے کاروبار بھی عبادت سمجھ کر کیا۔ دونوں کو کامیابیاں ملیں۔ ایسے میں مجھے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور ان کے بیٹے ارسلان افتخار کا مقدمہ یاد آرہا ہے۔ وہاں بھی ملک ریاض صاحب نے افتخار محمد چوہدری پر براہ راست الزام نہیں لگایا تھا بلکہ ان کے بیٹے ارسلان پر پیسے لینے اور عدالتی مہربانیوں کی یقین دہانی کا الزام عائد کیا تھا۔ لیکن اولاد مصیبت میں ہو تو والدین کا خون جوش تو مارتا ہے۔ افتخار محمد چوہدری نے بھی اپنے ہی بیٹے کے خلاف از خود نوٹس لے کر عادل قاضی کی مثال قائم کرنا چاہی۔ پھرانہیں باور کرایا گیا کہ وہ خود اپنے بیٹے کا مقدمہ نہیں سن سکتے کیونکہ ججوں کا ضابطہ اخلاق اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی رشتہ دار یا دوست کا مقدمہ سنا جائے۔ چیف صاحب نے اپنے رفیق جج سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی خدمات حاصل کیں۔ جسٹس خواجہ نے ان کے بیٹے کا مقدمہ پہلے نیب کے حوالے کیا‘ لیکن ارسلان افتخارنے اعتراض کیا تو نیب سے تحقیقات واپس لے لیں اور ڈاکٹر شعیب سڈل کو تحقیقات سونپ دیں۔ فریقین نے ایک دوسرے پر الزامات لگائے اور معاملہ ختم ہو گیا۔ چیف جسٹس اس مشکل سے باہر نکل گئے جس کا انہیں سامنا تھا۔ اب یہی مشکل محمد نواز شریف صاحب اور ان کے خاندان کے کیس کی ہے۔ کمیشن تحقیقات کرے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ معاملہ رفع دفع ہو جائے گا۔ اپوزیشن کو اس دوران سانپوں کی نئی پٹاری مل جائے گی۔ میڈیا کے لیے نت نئے ایشوز کی کمی نہیں۔ اور عوام کی تو یادداشت ویسے ہی کمزور ہے۔ بھول جائیں گے اور نئے عزم کے ساتھ ووٹرز کی قطار میں کھڑے ہو جائیں گے۔ بھولے عوام یہ راز کبھی نہ جان سکیں گے کہ ارباب اقتدار خود غریب کیوں نظر آتے ہیں‘ اور ان کی اولاد امیر کیوں ہوتی ہے۔