اسلام توسُّط اور اعتدال کا دین ہے ، افراط وتفریط اور غُلُوّ سے پاک ہے۔ ’’غُلُوّ‘‘ کے معنی ہیں : ’’اظہارِ عقیدت میں حد سے تجاوز کرنا‘‘۔ یہ اہلِ کتاب کا شِعار تھا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اے اہلِ کتاب! تم اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرواور اﷲتعالیٰ کی ذات کے بارے میں صرف حق (اور سچ) کہو، مسیح عیسیٰ بن مریم تو صرف اﷲ کا رسول ہے اور اس کا کلمہ ہے ، جس کو اس نے مریم کی طرف القاء کیا اور اس کی طرف سے روح ہے ، پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور (یہ) نہ کہو کہ (معبود) تین ہیں، (ایسی بات کہنے سے) باز رہو ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، صرف اﷲ ہی اکیلا معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو، (النساء:171)‘‘۔اللہ تعالیٰ نے عیسٰی علیہ السلام کو نبی بنایا اور اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر ظاہری اسباب سے ماوراء انہیں کلمۂ ’’کُن‘‘ یعنی امرِ تکوینی سے پیدا فرمایا۔قرآنِ مجید کی رو سے حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام خود فرماتے ہیں :’’بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایااور اس نے مجھے برکت والا بنایا ، خواہ میں کہیں بھی ہوں اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے ،(مریم:30-31)‘‘۔ ’’اور یہود نے کہا : عزیر (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا: مسیح اللہ کا بیٹا ہے ، یہ ان کی خود ساختہ باتیں ہیں ،(توبہ :30)‘‘۔یعنی یہود ونصاریٰ دونوں مذاہب کے ماننے والوں نے غُلُوّ کیا، حد سے تجاوز کیا اور نبی جو اللہ کا بندۂ خاص ہوتاہے ، اُس کی امتیازی شان کو دیکھ کر اسے اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ یہود نے تفریط سے کام لیا اورنہ صرف عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا انکار کیا بلکہ ان کی عفیفہ (Pious)اور پارسا والدۂ ماجدہ حضرت مریم پر تہمت بھی لگائی ۔ اسلام نے اسی لیے توسط واعتدال کا حکم دیا، ارشادِ رسول ﷺ ہے: ’’میری شان میں مبالغہ آرائی نہ کرو، جیسا کہ نصاریٰ نے(مسیح) ابن مریم کے بارے میں کی ، میں صرف اور صرف اﷲتعالیٰ کا بندۂ خاص ہوں ، سو تم میرے بارے میں یہ کہو: اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ، (بخاری:3445)‘‘۔اور اسی لیے کہا گیا کہ ؎ ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر نَفَس گم کردہ می آید جنید وبایزید ایں جا یعنی اس آسمان کی چھت تلے بارگاہِ مصطفوی سب سے نازک مقامِ ادب ہے کہ جنید وبایزید جیسے اولیائِ کاملین بھی اپنی انا کو فنا کرکے اور پیکر عجز وانکسار بن کر اس بارگاہ میں آتے ہیں اور کہا گیا ع ’’باخدادیوانہ باش وبامحمد ہوشیار‘‘یعنی اظہارِ بندگی میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں دیوانگی اختیار کروکہ اس کی ذات کو جتنا بھی بلند ترین کہوگے اور مانو گے، وہ اس سے بھی بلند ترین ہے ، لیکن ذاتِ محمد ﷺ کے بارے میں ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ آپ ﷺ کو آپ کے مقام سے اتنا نہ بڑھایا جائے کہ مقامِ اُلُوہِیّت عزّ وجلّ سے جا ملے اور نہ اتنا گراؤ کہ ساری نیکیاں برباد ہوجائیں اور نعمتِ ایمان سے محروم ہوجاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کے اپنے مزاجِ مبارک میں بھی یہی اعتدال تھا ۔ طویل نماز پڑھنا اور طویل قرأ ت کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ عمل ہے، لیکن ایک ماںکی اپنے روتے ہوئے بچے کی خاطر بے قراری کے پیشِ نظر آپ ﷺ اپنی پسندیدہ خواہش کے باوجود نماز کو مختصر کردیا کرتے تھے ۔ ارشادِ نبوی ﷺ ہے:(1) ’’میں (بعض اوقات ) نماز(باجماعت) کے لیے کھڑا ہوتاہوں اور طویل نماز پڑھنا چاہتاہوں کہ اچانک میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتاہوں تو میںاس بات کو ناپسند کرتے ہوئے اپنی نماز کو مختصر کردیتا ہوں کہ کہیں (بچے کا رونا) اس کی ماں کے لیے تکلیف کا باعث نہ ہو ، (بخاری:707)‘‘۔ واضح رہے کہ عہدِ رسالت مآب ﷺ میں خواتین بھی باجماعت نماز پڑھتی تھیں اور شاید چھوٹے بچوں کو مسجد میں لے آتی تھیں اور بعض کے گھر بھی مسجدِ نبوی کے قریب تر ہوتے تھے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا:(2) ’’جب تم میں سے کوئی جماعت میں لوگوں کی امامت کرے ، تووہ (بہت طویل نماز نہ پڑھائے بلکہ ) نماز کو (قدرے) مختصر کرے ، کیونکہ جماعت میں شامل لوگوں میں کچھ کمزور ہوتے ہیں، کچھ بیمار ہوتے ہیں اور کچھ بڑی عمر کے لوگ ہوتے ہیں (اور وہ کمزوری ، بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے طویل نماز کی مشقت برداشت نہیں کرسکتے) اور جب تم میں سے کوئی اپنی انفرادی نماز پڑھ رہا ہو ، تو (اپنے ذوق اور استطاعت کے مطابق) جتنی چاہے طویل نماز پڑھے ، (بخاری:703)‘‘ ۔ (3)ابو مسعود بیان کرتے ہیں کہ : ’’ایک شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم میں فلاں شخص کی وجہ سے جو (امامت کرتاہے اور) طویل نماز پڑھاتاہے ، فجر کی نماز سے رہ جاتاہوں ، تو میں نے اس دن کی طرح رسول اللہ ﷺ کو وعظ کے دوران اتنی شدید غضب کی کیفیت میں نہیں دیکھا ،آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو لوگوں کو (دین اور عبادت سے) متنفر کرتے ہیں ، سو تم میں سے جو شخص نماز میں لوگوں کی امامت کرے ، وہ نماز میں اختصار سے کام لے ، کیونکہ مقتدیوں میں کمزور اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جنہیں کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے، (بخاری:702)‘‘۔ اسی طرح اسلام نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں توسط اور اعتدال کی تعلیم دی ہے، اﷲعزّ وجلّ نے ارشاد فرمایا: اور (اﷲتعالیٰ کے محبوب بندے وہ ہیں) جو خرچ کرتے وقت نہ تو فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ ہی بُخل سے کام لیتے ہیں اور ان کا شِعار (ان دونوں انتہاؤں) کے درمیان میانہ روی کا ہوتاہے، (الفرقان:67)‘‘۔ اور یہی بات رسول اللہ ﷺ نے فرمائی :(1) ’’خرچ کرنے میں میانہ روی آدھی معیشت ہے (یعنی معیشت کی آدھی مشکل خرچ میں توازن سے آسان ہوجاتی ہے )، (المعجم الاوسط للطبرانی :6744)‘‘۔ (2)جس نے (خرچ کرنے میں) میانہ روی کو اپنی شِعار بنایا ، وہ کبھی اِفلاس میں مبتلا نہیں ہوگا، (المعجم الکبیر للطبرانی)۔چال ڈھال ، رویّے اور گفتار کے بارے میںاپنے بیٹے کے لیے حضرت لقمان کی حکیمانہ نصیحتوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور (ازراہِ تکبر) لوگوں سے اپنا رُخ نہ پھیرو اور زمین پراِتراتے ہوئے نہ چلو ، بے شک اللہ کسی اکڑنے والے متکبر کو پسند نہیں فرماتااور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو ذرا نیچی رکھو ، بے شک سب سے بُری آواز گدھے کی آواز ہے ،(لقمان:18-19)‘‘۔ امام محمد بن محمد شافعی غزالی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’اِحیا ء ُ علومِالدین‘‘ میں نفسِ انسانی کے اخلاقی واعتقادی عوارض پر طویل فلسفیانہ بحث کرتے ہوئے لکھا کہ نفسِ انسانی میں قدرت نے چار مَلکات ودیعت کیے ہیں :(1)سَبْعِیَّتْ(Predacity)،اسے ہم غضبانی قوت اور درندگی سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ، (2)بَہِیْمِیَّت ْ(حیوانیت Animality)، اسے ہم جنسی آوارگی سے بھی تعبیر کرسکتے ہیںیعنی جنسی خواہش کی تکمیل کا وہ جذبہ جو حدود وقیود کا پابند نہ ہو اور حلال وحرام کی تمیز سے ماوراہو،(3)شَیْطَنَتْ یا اِبْلِیْسِیَتْ،اس سے مراد انسان کے اندر ابلیسی جِبلّت جو حق اورخیر کی ہر سوچ کو رد کرے اور جس میں سرکشی اور تمرُّد ہو (4)مَلَکُوتِیَت یا رَبَّانِیَّت، اس سے مراد انسانی نفس کی وہ پاکیزہ استعداد جو خیر کے ہر پیغام کو قبول کرتی ہے اور اس پر عمل کرتی ہے، یعنی وہ خصلتِ انسانی جو فرشتوں سے مشابہ ہو ۔ امام غزالی ؒلکھتے ہیں کہ : ’’انسانیت کا جوہرِ کمال نفسانیت کی سبعی ، بہیمی اور ابلیسی جِبلّت اور استعداد کو قابو میں لا کر شریعت کے تابع کردینا ہے ، انسانیت کا یہی وہ اَرفَع مقام ہے کہ بقولِ کسے : ع ’’فرشتوں سے بہتر ہے انساںبننا‘‘اور یہی مقامِ انسانیت وآدمیت ہے کہ اﷲتعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنی خلافت کے اعزاز سے نوازا اور مسجودِ ملائک بنایا ۔انسانی جِبلّت کی یہ خصلتیں دو انتہاؤں بخل اور اسراف کے درمیان جب توازن کو اختیار کرتی ہیں ، توبنی آدم شرف وتکریم کے مرتبے کو پالیتاہے ۔الغرض عقائد ، عبادات ، معاملات ، اخلاقیات اور آداب ہر چیز میں اسلام توسُّط ، توازُن اور اعتدال کو پسند کرتاہے اور ان کی ضد افراط وتفریط اور غُلُوّ ہے، جسے آج کل Extremismیا Excessivenessکہا جاتاہے ۔ اور مسلمانوں کے لیے ان اصطلاحات کو نفرت کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتاہے،لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو حدودِ شریعت کا پابند بنائیں ، اسوۂ رسول ﷺ سے ہٹ کر دین میں خیر کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔