لفظِ ''مَحَبَّت‘‘، ''م‘‘ کے زبر کے ساتھ ہے، جیسے: مَوَدَّت، مَضَرَّت اور مَسَرّت وغیرہ، یہ سب عربی الفاظ ہیں، اردو میں عام طور پر ان الفاظ کو ''م‘‘ کے پیش کے ساتھ بولاجاتا ہے، یہ غلط ہے، اسی معنی میں ''ح‘‘کے پیش کے ساتھ لفظ ''حُبّ‘‘بھی بولاجاتا ہے اور ''ح‘‘ کی زیر کے ساتھ ''حِبّ‘‘کے معنی ہیں: ''محبوب‘‘، حدیث مبارک میں حضرت اسامہؓ بن زید کے لیے ''حِبُّ رَسُولِ اللہ (رسول اللہ کے محبوب)‘‘ کے کلمات آئے ہیں۔ (بخاری: 3475)۔
محبت کسی کی چاہت اور پیار کو کہتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں محبت سے لفظِ ''یُحِبُّ‘‘اللہ تعالیٰ کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، فرمایا: ''اور نیکوکار بنو، بے شک اللہ تعالیٰ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے‘‘ (البقرہ: 195)، (2)''بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور نہایت پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘ (البقرہ: 222)، (3)''بے شک اللہ تقویٰ اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘ (آل عمران: 76)، (4) ''بے شک اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘ (آل عمران: 146)، (5) ''بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘ (آل عمران: 159)، (6) ''بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘ (الحجرات: 9)، (7)''بے شک اللہ تعالیٰ اُن سے محبت فرماتا ہے جو اُس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر جہاد کرتے ہیں‘‘ (الصف: 4)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور بعض لوگ اللہ کے غیر کو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسے اللہ سے کرنی چاہیے، جبکہ اہلِ ایمان اللہ سے نہایت شدید محبت کرتے ہیں‘‘ (البقرہ: 165)۔ قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ بھی اپنے اطاعت گزار بندوں سے محبت فرماتا ہے اور اللہ کے اطاعت گزار بندے بھی اُس سے محبت کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ''اے ایمان والو! تم میں سے جو اپنے دین سے برگشتہ ہوجائے گا تو اللہ عنقریب ایسے لوگ لائے گا جن سے اللہ محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے، مومنوں کے لیے سراپا عاجزی، کافروں کے لیے پیکرِ جلال ہوں گے، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے‘ دیتا ہے، اللہ بڑی وسعت والا اور بہت علم والا ہے‘‘ (المائدہ: 54)۔
حدیث پاک میں ہے: ''حضر ت انسؓ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے نبیﷺ سے قیامت کے بارے میں پوچھا اور کہا: قیامت کب آئے گی؟ آپﷺ نے فرمایا: (یہ بتائو!)تم نے قیامت کے لیے تیاری کیا کر رکھی ہے، اس نے عرض کی: (اور تو) کچھ نہیں، مگر اتنی بات ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: تمہارا حشر اُسی کے ساتھ ہوگا جس سے تو محبت کرے گا۔ حضرت انسؓ نے کہا: ہمیں کسی چیز سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جو رسول اللہﷺ کے اس ارشاد سے ہوئی: ''تمہارا حشر اُسی کے ساتھ ہوگا جس سے تو محبت کرے گا‘‘، حضرت انسؓ نے کہا: پس میں نبیﷺ اورابوبکر وعمر (رضی اللہ عنہما)سے محبت کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اس محبت کے باعث میں (آخرت میں)ان کے ساتھ رہوں گا‘ اگرچہ میرے اعمال اُن کے پائے کے نہیں ہیں‘‘ (بخاری: 3688)۔
فرطِ محبت کے اظہار کے لیے ''عشق‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن قرآنِ کریم اور کسی حدیثِ صحیح میں اس لفظ کا استعمال نہیں آیا، عشق پسندیدہ معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور بعض اوقات ہوائے نفس کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ صوفیۂ کرام کے ہاں عشق کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا استعمال پاکیزہ محبت کے غلبے کے اظہار کے لیے ہوتا ہے۔ امام احمد رضا قادری سے سوال ہوا: ''اللہ تعالیٰ کو عاشق اور حضور سرورِ عالمﷺ کو اس کا معشوق کہنا جائز ہے یا نہیں‘‘، آپ نے جواب میں لکھا: ''ناجائز ہے، معنیٔ عشق اللہ تعالیٰ کے حق میں مُحالِ قطعی ہے اور ایسا لفظ جو شریعت میں اللہ کے لیے وارد نہ ہوا ہو، ثبوتِ شرعی کے بغیر اللہ تعالیٰ کی شان میں بولنا قطعی طور پر منع ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ''کلام سے کسی مُحال معنی کا وہم پیدا ہوتو (اللہ تعالیٰ کے لیے)اُس کلام کے پڑھنے کی ممانعت کے لیے کافی دلیل ہے، اگرچہ وہ کلام کسی صحیح معنی کا بھی احتمال رکھتا ہو‘‘ (رَدُّ الْمُحْتَار عَلَی الدُّرِّ الْمُخْتَار، ج: 6، ص: 395)۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے لیے کوئی ایسا ذومعنی کلمہ استعمال کرنا جائز نہیں ہے جس کی مراد بظاہر اچھی ہو، لیکن اس سے کوئی دور کے اہانت آمیزیا نامناسب معنی کا احتمال پیدا ہوتاہویاایسے معنی کا تاثر پیدا ہوجس کی نسبت اللہ کے لیے مُحال ہو، جیسے قرآنِ کریم میں رسول اللہﷺ کے لیے ''رَاعِنَا‘‘کے استعمال سے منع فرمایا گیا ہے۔ آگے چل کر انہوں نے جو لکھا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے: ''اگر بندہ اللہ سے محبت کرے اور وہ محبت اس کے دل میں راسخ ہوجائے اور اس کے ثمرات بھی نظر آئیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے اپنی محبت کو عشق سے تعبیر کرے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے‘‘۔
امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں ایک روایت نقل کی ہے: ''حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس ملک الموت روح قبض کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے اُس سے کہا: کیا آپ نے دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کی جان لے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی فرمائی: کیا آپ نے دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست سے ملاقات کو ناپسند کرے، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرشتۂ اجل سے فرمایا: میری روح قبض کر لے‘‘ (تفسیر کبیر، ج: 4، ص: 175)۔ ایک حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جو اللہ سے ملنا پسند کرے، اللہ بھی اُس سے ملنا پسند فرماتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرے تو اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند فرماتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی: ہم موت کو ناپسند کرتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: ایسا نہیں ہے، جب مومن کی موت کا وقت آتا ہے تو اُسے اللہ کی رضا اوراللہ کے ہاں مومن کے لیے جو اعزازات ہیں، اُن کی بشارت دی جاتی ہے، پھر اس کے نزدیک موت سے زیادہ محبوب چیز کوئی نہیں ہوتی، سو وہ اللہ سے ملنا چاہتا ہے اور اللہ اُس سے ملنا پسند فرماتا ہے‘‘ (بخاری: 6507)۔ میت سے رسول اللہﷺ کی بابت سوال ہوگا: ''تم اس شخص کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے‘‘، مولانا آسی بعد از وفات اس منظر کو چشمِ تصور میں لاتے ہوئے کہتے ہیں:
اب تو پھولے نہ سمائیں گے کفن میں آسیؔ
ہے شبِ گور بھی اس گُل سے ملاقات کی رات
امام احمد رضا اس منظر کی بابت کہتے ہیں:
جان تو جاتے ہی جائے گی، حد تو یہ ہے
کہ یہاں مرنے پہ ٹھہرا ہے نظارا تیرا
مولانا حسن رضا خان نے کہا ہے:
آستانے پہ ترے سر ہو، اَجَل آئی ہو
اور اے جانِ جہاں! تو بھی تماشائی ہو
حدیث قدسی میں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اُن سے محبت میرے ذمۂ کرم پر ہے جو باہم محبت کریں تو میری رضا کے لیے، آپس میں مل بیٹھیں تو میری رضا کے لیے، ایک دوسرے کی ملاقات کے لیے جائیں تو میری رضا کے لیے اور اپنا مال خرچ کریں تو میری رضا کے لیے‘‘ (مسند احمد: 22030)۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا: (1)اللہ کے بعض محبوب بندے ایسے ہیں جو نہ نبی ہیں اور نہ شہید (لیکن)قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اُن کے قرب کو دیکھ کر انبیاء اور شہداء اُن کی تحسین فرمائیں گے، یہ لوگ نورانی منبروں پر ہوں گے، انبیاء اور شہداء پوچھیں گے: یہ کون لوگ ہیں؟ تو انہیں بتایا جائے گا: یہ وہ لوگ ہیں جوکسی مالی طمع ولالچ اور کسی قرابت داری کے تعلق کے بغیر صرف اللہ کی رضا کے لیے آپس میں محبت کرتے تھے‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: 34096)، (2)''ایک طویل حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس دن اللہ کے سائبانِ رحمت کے سوا کسی کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی، اس دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے اشخاص پر اپنی رحمت کا خصوصی سایہ فرمائے گا، (ان میں سے ایک طبقے کا بیان کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:)ایسے دو اشخاص جو محض اللہ کی رضا کے لیے آپس میں محبت کریں، وہ باہم مل بیٹھیں یا جدا ہوں (توصرف اللہ کی رضا کے لیے)‘‘ (بخاری: 660)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''جو لوگ دنیا میں پیشوا بنائے گئے تھے، جب (قیامت کے دن) وہ عذاب دیکھیں گے اوران کے سارے رابطے ٹوٹ جائیں گے تو وہ اپنے پیروکاروں سے لاتعلقی اختیار کریں گے اور (اُن کے) پیروکار کہیں گے: کاش! ہمیں ایک بار دنیا میں لوٹ جانے کا موقع ملے تو ہم بھی اسی طرح ان سے اعلانِ لاتعلقی کریں جس طرح انہوں نے ہم سے تعلق توڑ لیا ہے‘‘ (البقرہ: 166 تا 167)۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''(دنیا میں) جو لوگ ایک دوسرے سے دوستی کا دم بھرتے تھے، آج (قیامت) کے دن ایک دوسرے کے دشمن ہوجائیں گے، مگر متقی لوگوں کا تعلق (آخرت میں بھی) قائم رہے گا‘‘ (الزخرف: 167)، (2) ''بے شک متقین باغات اور (میٹھے)چشموں میں ہوں گے، ان سے کہا جائے گا: تم بے خوف ہوکر سلامتی کے ساتھ ان میں داخل ہوجائو اور ہم ان کے دلوں سے رنجشیں نکال دیں گے، (وہ) بھائیوں کی طرح آمنے سامنے مسند نشین ہوں گے‘‘ (الحجر: 45 تا 47)، (3) ''جس دن ان کے چہرے (جہنم کی)آگ میں پلٹ دیے جائیں گے، تو وہ کہیں گے: کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی اور وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کا کہا مانا تو انہوں نے ہمیں راہِ راست سے بھٹکادیا، اے ہمارے رب! ان کو دُہرا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت فرما‘‘ (الاحزاب: 66 تا 68)۔