عربی زبان میں ''عصب‘‘ کے معنی ہیں: ''مضبوطی سے باندھنا‘‘، ''عُصبَہ اور عِصابہ‘‘ ایک مضبوط جماعت کو کہتے ہیں، جیسا کہ برادرانِ یوسف نے کہا تھا: ''یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کے نزدیک ہم سے زیادہ محبوب ہیں، حالانکہ ہم پوری جماعت (عُصبَہ) ہیں‘‘ (یوسف: 8)۔ علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں: ''عصبیت یہ ہے کہ ایک شخص کو اپنی قوم (یا گروہ) کی مدد کے لیے بلایا جائے تاکہ وہ ان کے ساتھ مل کر ان کے مخالف کے مقابل صف آرا ہو، اس بات سے قطعِ نظر کہ مخالف ظالم ہے یا مظلوم‘‘ (لسان العرب، جلد: 10، ص: 167)۔ یعنی حق اور ناحق سے آنکھیں بند کرکے اپنی قوم یا گروہ کی حمایت کے لیے بلایا جائے۔ باپ کی طرف سے اَقارب کو بھی ''عَصَبَہ‘‘ کہتے ہیں، کیونکہ وہ مشکل میں مدد گار بنتے ہیں۔ تعصب درحقیقت ایک فطری جذبہ اور اپنے گروہ سے وابستگی کا نام ہے، خواہ یہ گروہ مذہبی، قومی، لسانی یا سیاسی ہو، اسی بنیاد پر انسان سماجی مخلوق بنتا ہے اور اسی کی وجہ سے اجتماعی زندگی میں حُسن پیدا ہوتا ہے، مگر جب تعصّب اور وابستگی حق و باطل، صحیح و غلط اور خیر و شر کی تمیز سے بالاتر ہو جائے اور اپنے گروہ اور لیڈر کی اندھی عقیدت میں بدل جائے تو یہ دینی اعتبار سے مذموم ہے اور انسان کو بہت سے اخلاقی جرائم میں مبتلا کر دیتا ہے۔
احادیثِ مبارَکہ میں عصبیت کی حقیقت کو بالکل واضح کر دیا گیا ہے: (1) رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے عصبیتِ (جاہلیہ) کی طرف بلایا، وہ ہم میں سے نہیں اور جو شخص عصبیتِ (جاہلیہ) کی خاطر لڑا وہ ہم میں سے نہیں اور جو شخص عصبیتِ (جاہلیہ) پر مرا، وہ ہم میں سے نہیں‘‘ ( ابوداؤد: 5080)، (2) رسول اللہﷺ کے زمانے میں مہاجرین اور انصار کے دو غلام آپس میں لڑ پڑے، مہاجر غلام نے مہاجرین کو مدد کے لیے پکارا اور انصاری غلام نے انصار کو مدد کے لیے بلایا، نبی کریمﷺ ان کی یہ پکار سن کر اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور ناراض ہوکر فرمایا: تم یہ کیا جاہلیت کی طرف بلا رہے ہو۔ (مسلم: 2584)، (3) آپﷺ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہﷺ! ایک شخص اپنی قوم سے محبت کرتا ہے کیا یہ عصبیت ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں! بلکہ عصبیت یہ ہے کہ ایک شخص ظلم میں اپنی قوم کا مددگار بنے۔ ( ابن ماجہ: 3949) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنی قوم اور برادری سے محبت کرنا اور ان سے ظلم کی مدافعت کرنا مذموم نہیں ہے، تعصب وہی مذموم ہے جس میں انسان ظلم میں اپنی قوم کا مددگار بن جائے اور حق کی مخالفت کرے۔ (4) آپﷺ نے ایک خطبے میں فرمایا: ''تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے قبیلے کا دفاع کرے، بشرطیکہ یہ حمایت گناہ کا سبب نہ ہو‘‘ (ابوداؤد: 5079)، (5) آپﷺ نے فرمایا: ''جو شخص ناحق بات میں اپنی قوم کی مدد کرے تو اس کی مثال اُس اونٹ کی سی ہے، جو گہرے گڑھے میں گِر چکا ہے اور اسے اُس کی دم پکڑ کا نکالا جا رہا ہے‘‘ (ابوداؤد: 5076)۔
ان احادیثِ مبارَکہ سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ناحق اور ظلم پر اپنی قوم، قبیلے یاگروہ کی حمایت عصبیتِ جاہلیہ ہے اور یہی وہ خصلت ہے جو انسان کو ظلم پر آمادہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قوم یا گروہ کی اس حدتک بے جا حمایت سے منع فرمایا کہ جس کے نتیجے میں ظلم کو روا سمجھا جائے۔ قرآنِ مجید میں فرمایا: ''اور کسی قوم کی عداوت تمہیں ناانصافی پر نہ ابھارے، عدل کرو، یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے‘‘ (المائدہ: 8) اور فرمایا: ''اور کسی کے ساتھ عداوت تمہیں اس پر نہ اکسائے کہ (اپنے غلبے کے زمانے میں) اُنہوں نے تمہیں مسجد حرام میں آنے سے روک دیا تھا کہ (اب ان پر غلبہ پانے کے بعد) تم بھی ان کے ساتھ زیادتی کرو، تم نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘‘ (المائدہ: 2)۔ ان آیات و احادیث مبارَکہ میں جہاں ظلم پر اپنی قوم، قبیلے یا گروہ کی حمایت کو ''عصبیتِ جاہلیہ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس کی مذمّت فرمائی گئی ہے، وہیں خیر اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد اور ظلم و عدوان کے خلاف صف آرا ہونے کی ترغیب بھی دی گئی ہے اور اس کی تحسین بھی فرمائی گئی ہے۔ اسی طرح تعصُّب بلاشبہ قابلِ مذمت ہے، لیکن دین پر تصلُّب یعنی مضبوطی کے ساتھ قائم رہنا ایک قابلِ تحسین وصف ہے اور دونوں میں فرق کو ہر صورت ملحوظ رکھنا چاہیے، یعنی ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنا درست نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے تعصب کی مذمت کو انتہا پر پہنچاتے ہوئے قرآنِ مجید میں جس شجر کے قریب جانے سے حضرت آدم وحوّا علیہما السلام کو منع کیا تھا‘ اسے بھی فرقہ واریت سے استعارہ قرار دے دیا؛ اگرچہ یہ معنی اجماعِ مفسرین کے خلاف ہے، وہ لکھتے ہیں:
شجر ہے فرقہ واریت، تعصّب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے کہ جنت سے نکلواتا ہے آدم کو
مفہومی ترجمہ: ''یعنی جس شجر کے قریب جانے سے حضرت آدم وحوا علیہما السلام کو منع کیا گیا تھا، وہ فرقہ واریت ہے اور اس کا لازمی نتیجہ تعصب ہے اور یہ نفسیاتی عارضہ انسان کو جنت یعنی اللہ کی نعمتوں سے محروم کر دیتا ہے‘‘۔
ہمارے ملک میں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کا رُخ فرقہ واریت کی طرف موڑ دیا جاتا ہے اور میڈیا میں اس پر مکالمہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ میں ان مکالموں میں شریک ہوتا رہا ہوں اور دو ٹوک شرعی موقف ہر بار بیان کیا، مگر اس کے باوجود ہر بار علماء سے رجوع کرنے کا ایک معنی یہ بھی نکلتا ہے کہ فرقہ واریت کے فروغ میں شاید علماء کا حصہ ہے۔ اسی لیے میں اب اس طرح کے مکالموں اور تبصروں سے اجتناب کرتا ہوں۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سب کا دامن پاک ہے تو پھر ذمہ دارکون ہے۔ مزید یہ کہ عصبیت کی مذمّت کا دائرہ مذہب تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، کیا یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح نہیں ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی عصبیت کے سبب نفرتیں انتہا پر ہیں، ہر جماعت (خواہ وہ اقتدار میں ہو یا حزبِ اختلاف میں) کے منتخب ممبران، اراکین عہدیداران اور ارکان کی حیثیت سیاسی مزارعین کی سی ہے، وہ آنکھیں بند کرکے اور حق اور ناحق سے بے نیاز ہو کر اپنی قیادت کی حمایت پر کمربستہ ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں حق اور ناحق اور عدل وظلم کے معیارات اور پیمانے جدا جدا ہیں، ایسے میں حق اور عدل کی حیثیت ثانوی ہو جاتی ہے۔ سب اپنے اپنے شعبوں میں اپنی اپنی عصبیتوں، پسند و ناپسند اور ترجیحات کا شکار ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ دوسروں کو ہدف بنانا آسان ہوتا ہے اور اپنے گریبان میں جھانکنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''بلکہ انسان اپنے آپ پر خوب آگاہ ہے، خواہ وہ کتنے ہی عذر تراشتا رہے‘‘ (القیامہ: 14 تا 15)، حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا: ''خود اپنا احتساب کرو، قبل اس کے کہ تمہارا احتساب کیا جائے، اپنے خیر و شر کے میزان کو خود جانچو، قبل اس کے کہ تمہارے خیر و شر کو میزانِ عمل میں تولا جائے اور جس دن تمہیں حساب کے لیے طلب کیا جائے گا، اُس مشکل پیشی کے لیے اپنے آپ کو خوب تیار کرو، تم سے اپنی کوئی خوبی یا عیب پوشیدہ نہیں ہے‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ: 34469)۔
پس حق یہ ہے کہ ہر مکتبِ فکر یا گروہ کے لیے‘ خواہ وہ مذہبی، قبائلی، علاقائی یا سیاسی ہو‘ اپنے انتہا پسندوں کی تعین کے ساتھ مذمّت انتہائی دشوار ہے۔ اس لیے ہمارے خطابات اور تقریریں بھی تاثیر سے عاری ہوتی ہیں اور ہماری مذمتیں بھی ہوا میں تیر چلانے کے مترادف ہوتی ہیں‘ جن کاکوئی ہدف نہیں ہوتا۔ ''سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘ کے مِصداق سب اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا ہو جاتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک این جی او نے آئینی و قانونی حکومت کے خلاف خروج یا بغاوت کے موضوع پر کئی سیمینار منعقد کیے، تمام مکاتبِ فکر کے علماء اور دیگر اہلِ علم اور دانشوروں کو بلایا، پھر سب کی منتخب نگارشات ِ قلم کو ایک کتابی شکل میں مُدوَّن کیا۔ میں نے اُن سے گزارش کی کہ یہ مجرد اور غیر اِطلاقی حکم اور موقِف تو آپ نے نقل کر دیے اور آپ کی یہ علمی اور فکری کاوش قابلِ تحسین ہے۔ اب ذرا ایک نشست میں ان سب کو بلا کر ہماری یہ بھی رہنمائی فرما دیں کہ ہمارے ملک کے تناظر میں جو صورتِ حال درپیش ہے، حکومت سے برسرپیکار اور خروج و بغاوت پر آمادہ عناصر کاحکم کیا ہے۔ صرف اسی صورت میں اس ساری علمی اور فکری کاوش کا کوئی عملی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے، ورنہ جو کچھ اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے، وہ ہمارے دینی اور علمی ذخیرے میں نہایت بسط و تفصیل کے ساتھ پہلے سے موجود ہے، سو ہدف کے تعیّن کے بغیر خطاب یا تحریر تو آسان ہے، لیکن اپنے حالات پر تطبیق دشوار امر ہے۔
آج اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ بعض دینی، ملّی اور ملکی امور کے بارے میں قوم یکسو ہو، مذہبی خلافیات کو تو سب ہی کوستے رہتے ہیں اور ہدفِ ملامت بناتے ہیں، لیکن ہمارا ملکی، ملّی اور قومی منظرنامہ یہی ہے، نہ ہمارا کوئی متفقہ ترجیحی قومی ایجنڈا ہے۔
فتحِ مکہ کے موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: سنو! اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کے غرور اور اپنے آباء و اجداد کے تکبر و تفاخر کو دور کر دیا ہے، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ''اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں قومیں اور قبیلے بنایا تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو‘‘ (الحجرات: 13)، اے لوگو! لوگ دو طرح کے ہیں: ایک نیکوکار، پرہیزگار اور کریم النفس، دوسرے کافر اور بدبخت جو اللہ کے نزدیک بے توقیر ہیں۔ (سبل الھدیٰ والرشاد، ج: 5، ص: 242)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے چل پڑا تو اللہ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان فرما دے گا اور جس کا عمل اسے پیچھے چھوڑ دے‘ اس کا نسب اُسے آگے نہیں کر سکتا‘‘ (ابودائود: 3643)۔