کراچی کی ایک مسجد کے کیس کے دوران مساجد اور دیندار طبقات کے بارے میں افسوس ناک جملے کہے گئے، مثلاً: ''یہ یوٹیلٹی بلز ادا نہیں کرتے، مکانات بنالیتے ہیں، وغیرہ وغیرہ‘‘۔ اس بارے میں عرض ہے کہ آج کل شرعی حدود وقیود سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے فیصلوں میں شرعی فتوے بھی صادر کیے جاتے ہیں، حالانکہ یہ اُن کا شعبہ نہیں ہے۔ الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! ہم اہلِ مدارس و مساجد باقاعدگی سے یوٹیلٹی بلز ادا کرتے ہیں، مقررہ تاریخ سے پہلے ادا کرتے ہیں، حتیٰ کہ ٹی وی فیس بھی مسجد کے بل میں شامل ہوتی ہے، کوئی چاہے تو کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس سے ریکارڈ طلب کرسکتا ہے، اِکا دُکا نادہندگی یا تاخیر سے ادائیگی کے چند واقعات ہوسکتے ہیں۔ ہمارا فتویٰ ''تفہیم المسائل‘‘اور اخبار میں طبع شدہ موجود ہے کہ دینی پروگراموں کے لیے واجبات ادا کیے بغیر یا متعلقہ ادارے کی اجازت کے بغیر کنڈا لگاکر بجلی لینا ناجائز ہے، لیکن عمومیّت یعنی Generality کے ساتھ اظہارِ خیال کیا گیا۔ کیا کسی تحقیق وتفتیش اور ثبوت وشواہد کے بغیر کسی شعبۂ حیات یا طبقۂ زندگی کو عمومیت کے ساتھ ہدفِ طعن بنانا شریعت، آئین، قانون اور اخلاق کی رو سے جائز ہے؟ مساجد کے ساتھ امام وخطیب اورمؤذن و خادم کے لیے رہائش ضروری ہے، کیونکہ یہ اقامتی منصب ہے، کسی بھی وقت ان کی خدمات کی ضرورت پڑ سکتی ہے، یہ مکانات شخصی نہیں ہوتے، منصب پر فائز شخص کے استعمال کے لیے ہوتے ہیں۔ کیا سرکاری افسران کے لیے رہائشی کالونیاں اور لاجز نہیں ہوتے، انہیں تو بعض اوقات ایک سے زائد من پسند پرائم لوکیشن پر قیمتی پلاٹ بھی الاٹ کیے جاتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس حوالے سے ایک کیس زیرِ سماعت ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انہیں یہ سہولتیں عوام کے ٹیکسوں سے فراہم کی جاتی ہیں جو حکومت جبراً وصول کرتی ہے، جبکہ دینی کاموں کے لیے مسلمان رضا کارانہ طور پر اللہ کی رضا کے لیے عطیات دیتے ہیں، اس میں کسی جبر کا عنصر نہیں ہوتا۔ اس لیے بصد ادب عرض ہے:
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
جسٹس (ر) ثاقب نثار سرکاری کارپوریشنوں کے چیف ایگزیکٹو زکے بڑے مشاہروں پر اہانت آمیز ریمارکس دیتے رہے، تبصرے کرتے رہے، کھڑے کھڑے انہیں معزول کرتے رہے، مگر جاتے ہوئے سپریم کورٹ کے عالی مرتبت جج صاحبان پر مشتمل انتظامی اجلاس بلاکر اپنی پنشن ڈبل کردی، وہ ناجائز تھا اور یہ جائز قرار پایا۔ صدیق ضیاء نے کہا ہے:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی
کیا کوئی ایسا ضابطہ مقرر کیا گیا ہے کہ مسجد کتنے فاصلے پر ہونی چاہیے، پانچوں اوقات میں معمر لوگ کتنے دور تک پیدل جاکر مسجد میں نماز باجماعت پڑھ سکتے ہیں، کیا پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیوں اور سرکاری ہائوسنگ سکیموں کے لیے کوئی ضابطہ موجود ہے کہ کتنی آبادی پر مشتمل حدود کے لیے مسجد، پارک، ہسپتال، قبرستان، سکول، کالج اور یونیورسٹی کے لیے قطعہ ارضی مختص ہونا چاہیے۔ ایسے رہائشی یا رفاہی پلاٹ جو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں یا ہوتے رہے ہیں، ان کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، نیز ایسی بھی مثالیں مل جائیں گی کہ رہائشی پلاٹوں کو ضروری واجبات وصول کرنے کے بعد تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی رہی ہے۔ صبا لکھنوی نے کہا ہے:
آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
کئی فیصلے ایسے ہیں کہ اُن کے سبب ریاست وحکومت پرعالمی ثالثی عدالتوں نے ناقابلِ تصور جرمانے عائد کیے ہیں۔ آسٹریلیا کی ٹیتھیان کمپنی کے ساتھ ریکوڈک معاہدے کی یکطرفہ منسوخی کے بارے میں کہاجارہا ہے کہ چھ ارب ڈالر(تقریباً پونے گیارہ کھرب روپے) جرمانہ عائد کیا گیا ہے، کیا اس پر کسی سے مواخذہ ہوا؟ اسی طرح' 'کارکے‘‘ رینٹل پاور کمپنی کے معاہدے کی یک طرفہ منسوخی پر بھاری جرمانہ عائد کیا جاچکا ہے، کیا اس طرح کے فیصلے صادرکرنے سے پہلے عالمی قوانین اور ان کے نتیجے میں مرتّب ہونے والے اثرات کا مطالعہ کیا گیا تھا؟ ایک راوی کے مطابق پاکستان سٹیل کراچی کی پرائیویٹائزیشن کے معاہدے کی منسوخی پر اب تک حکومت پاکستان عوام کے ٹیکسوں سے تقریباًاسّی ارب روپے کی ادائیگی کرچکی ہے، کیا اس پر کسی سے کوئی مواخذہ ہوا؟ جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں ججوں کی ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ ترقی کے لیے سینیارٹی کا اصول وضع کیا گیا تھا اور اس وقت کی بے نظیر حکومت کا ناطقہ بند کردیا گیا تھا، اب اُسی اصول کو پامال کیا جا رہا ہے ،یہ کس اصول کے تحت ہے یا اس کے لیے کون سا نیا اصول وضع کیا گیا ہے، تو پھر کیا ذاتی پسند وناپسند معیار بن جائے گا۔ خود اعلیٰ عدلیہ بارہا کہہ چکی ہے کہ عدلیہ کی توہین تونہیں کی جاسکتی، لیکن عدالتی فیصلوں، پالیسیوں اور اقدامات پر مثبت یا منفی تبصرہ کیا جاسکتا ہے، ہم نے عدالت کے عطا کردہ اسی اصول کے تحت یہ گزارشات پیش کی ہیں۔
''دی ورلڈ جسٹس پروجیکٹس رول آف لا انڈیکس 2021‘‘ کے سروے کے مطابق دنیا کے 139ممالک میں پاکستان کے عدالتی معیار کو آخر سے 130نمبر دیا گیا ہے، الغرض دنیابھر میں عدالتی معیار کے زوال کے اعتبار سے ہمارا نمبردسواں ہے، یعنی پاکستان کا اسکور0.39ہے۔ جنابِ انصار عباسی کی یہ رپورٹ 19 اکتوبر 2021ء کو ایک قومی روزنامے میں شائع ہوئی تھی۔
سابق چیف جسٹس پشاورہائی کورٹ جسٹس وقار سیٹھ مرحوم نے بی آرٹی پشاور میں کرپشن کی انکوائری کی بابت تفصیلی فیصلہ دیا تھااور اس کیلئے ایف آئی اے کو باقاعدہ ٹی او آرکے ساتھ انکوائری کے احکامات جاری کیے تھے، اس پر ایک سے زائد مرتبہ سٹے آرڈر دیاگیا اور آج تک انکوائری نہ ہوسکی۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر جناب قاسم سوری کو الیکشن ٹریبونل نے نا اہل قرار دیا، اس پرستمبر2019ء میں سٹے آرڈر دیا گیا اور آج تک وہ اسی سٹے آرڈر پر اپنے منصب پر برقرار ہیں، مقدمے کی کارروائی شروع ہی نہیں ہوئی اور اب اُن کی رکنیت کے پانچ سالہ دورانیے میں کم وبیش ڈیڑھ سال کا عرصہ باقی ہے۔
اسلام میں قضا کا منصب نہایت مقدس ومحترم ہے، لوگوں کے حقوق کا مدار عدل وانصاف پر ہے، اسی لیے خلفائے راشدینؓ نے بھی اپنے آپ کو عدالت کے سامنے جواب دہ ٹھہرایا۔ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ایک مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور قاضی نے آپ کو آپؓ کی کنیت ''ابوالحسن‘‘ سے اور آپ کے فریقِ مخالف کو اُس کے نام سے پکارا، تو آپؓ نے فرمایا: ''یہ آپ نے امتیاز برتا‘‘، کیونکہ اہلِ عرب میں کنیت سے پکارنا اکرام کی علامت تھی، اسی طرح قاضی نے آپ کو اپنے برابر بٹھانا چاہا، تو آپؓ نے اُسے بھی ردّ فرمایااور نا انصافی سے تعبیر فرمایا۔
''امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک نصرانی کے مقابل اپنی زِرہ کے مقدمے میں قاضی شریح کی عدالت میں پیش ہوئے۔ قاضی شُریح کو آفتابِ نصف النہار کی طرح یقین تھا کہ زِرہ حضرت علیؓ کی ہے اور وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں، لیکن اسلامی قانونِ عدل کے مطابق ان کے پاس گواہ نہیں تھے، کیونکہ آپؓ نے اپنے بیٹے سیدنا حسنؓ اور غلام قنبر کو بطور گواہ پیش کیا، قاضی نے کہا: بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں معتبر نہیں ہے، اس لیے اُن کے خلاف فیصلہ دیا۔ یہ منظر دیکھ کر نصرانی حیران ہوگیا کہ مسلمانوں کا خلیفہ ایک غیر مسلم کے مقابل مساوی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوا، قاضی نے اُس کے خلاف فیصلہ صادر کیا اور انہوں نے اس فیصلے کو خوشدلی سے قبول کیا۔ اس پر نصرانی نے اعترافِ جرم کیا کہ آپ نے یہ زِرہ لشکر کے کسی آدمی سے خریدی تھی اور پھر آپ کے خاکستری اونٹ سے یہ گر گئی اور میں نے اِسے اٹھا لیا۔ مثالی عدل کا یہ منظر دیکھ کر نصرانی ایمان لے آیا، کلمۂ شہادت پڑھا، حضرت علیؓ نے وہ زِرہ اُسے ہبہ کردی اور اس کا دو ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا۔ پھر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا یہاں تک کہ جنگِ صفین میں جامِ شہادت نوش کیا‘‘۔ (اَلسُّنَنُ الْکُبْریٰ لِلْبَیْہَقِی، ج: 10، ص: 136 تلخیص)‘‘۔ نوٹ: یہاں مشابہت صرف خلیفہ کے عدالت میں پیش ہونے کے اعتبار سے ہے، ورنہ آج کے حکمرانوں کوحضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما سے وہ نسبت بھی نہیں جو ذرّے کو آفتاب اور قطرے کو سمندر سے ہے۔ یہ خلفائے کرام خودعدالت میں پیش ہوئے تاکہ ہر ایک کو معلوم ہوجائے کہ قانون کی نظر میں حاکم اور رعایا برابر ہیں۔
حدیثِ پاک میں ہے: ' 'عبدالرحمن بن ابی بکرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والدنے سجستان کے قاضی عبیداللہ بن ابی بکرہ کو یہ ہدایت نامہ لکھوایا: ''غصے کی حالت میں (کبھی بھی) دو اشخاص کے درمیان فیصلہ نہ کرنا، کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ''تم میں سے کوئی بھی شخص غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے‘‘ (صحیح مسلم: 1717)۔
منصبِ عدالت وراثتِ نبوت ہے، آپﷺ نے اسے بہت تکریم عطا کی ہے، فرمایا: ''عادل حاکم کا (انصاف کرنے میں گزرا ہوا) ایک دن ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ایک حد، جوحق پر قائم کی جائے، زمین کو اتنا پاک کرتی ہے جو چالیس سال کی بارش بھی نہ کرسکے‘‘ (معجم الکبیر للطبرانی: 11932)۔ یہ اس لیے کہ ساٹھ سال عبادت کرنے والا اپنی فلاح کی فکر میں سرگرداں رہتا ہے اورلوگوں کے حقوق کی حفاظت اور مظلوموں کی داد رسی کرنے والاعادل حاکم دوسرے انسانوں کے لیے بارانِ رحمت کی مانند فیض رساں ہوتا ہے اور مظلوموں کی دعائیں لیتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ''جب حاکم اپنی پوری علمی و فکری صلاحیت کو کام میں لاکر فیصلہ کرے اور اس سے(خدانخواستہ) خطا بھی ہو جائے، تب بھی اسے ایک اجر ملے گا‘‘ (صحیح بخاری: 7352)۔ یعنی یہ وہ شعبہ ہے جس میں غیر ارادی خطا پر بھی اجر ہے۔