سورہ بقرہ کی آخری دو آیات فضائل و مناقب اور مسائل و احکام کے اعتبار سے قرآنِ مجید کی عظیم اور اہم ترین آیات میں سے ہیں اور نبی کریمﷺ نے ان آیات کی متعدد فضیلتیں بیان فرمائی ہیں: (1) حضرت ابوذر غفاریؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: سورہ بقرہ کی آخری دو آیات مجھے عرشِ الٰہی کے نیچے موجود ایک خزانے سے دی گئی ہیں اور یہ دو آیات صرف مجھے ہی دی گئی ہیں، مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ آیات نہیں دی گئیں۔ (مسند امام احمد: 21343)، (2) ''حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: شبِ معراج رسول اللہﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں: پانچ نمازیں، سورہ بقرہ کا آخری حصہ (یعنی: آمَنَ الرَّسُوْلُ سے سورت کے اختتام تک) اور آپﷺ کو یہ نوید سنائی گئی کہ آپ کی اُمت میں سے جو لوگ مشرک نہیں ہوں گے تو اُن کی مغفرت کر دی جائے گی‘‘ (مسلم: 173)۔ علامہ نووی لکھتے ہیں: ''مغفرت کا مطلب یہ ہے کہ اُنہیں مشرکوں کی طرح ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رکھا جائے گا، یا تو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے انہیں جہنم میں داخل کیے بغیر اُن کی بخشش و مغفرت فرما دے گا یا اُنہیں ان کے جرائم اور گناہوں سے پاک کرنے کے لیے جہنم میں داخل فرمائے گا اور جب وہ اپنی بداعمالیوں کی سزا بھگت کر پاک صاف ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اُنہیں بھی جنت میں داخل فرما دے گا، جبکہ کفار و مشرکین جہنم کے دائمی عذاب میں گرفتار رہیں گے‘‘ (المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج، ج: 1، ص: 69)۔
(3) ''حضرت ابومسعودؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے رات میں سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لیں، اس کے لیے کافی ہوں گی‘‘۔ شارحین حدیث نے کافی ہونے کے کئی مطالب تحریر فرمائے ہیں: (i) یہ آیات اپنے پڑھنے والے کے لیے تمام جن و انس کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے کافی ہوں گی، (ii) ہر قسم کے آفات وبلیات اور مصائب و حوادث سے حفاظت کریں گی۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے فرماتے ہیں: جو شخص ان آیات کو عشاء کی نماز کے بعد پڑھ لے، وہ اس کے لیے قیام اللیل یعنی تہجد کے قائم مقام ہو جاتی ہیں، رات کو پڑھنے کے جو وظائف رہ جائیں تو یہ ان کی جگہ کفایت کریں گی‘‘
(4)''حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل ایک کتاب تحریر فرمائی اور اس کتاب میں وہ دو آیتیں نازل فرمائیں جن پر سورۂ بقرہ کا اختتام ہوتا ہے، یہ آیات جس گھر میں تین رات تک تلاوت کی جائیں، شیطان اس کے قریب نہیں پھٹکتا‘‘ (ترمذی: 2882)۔
(5) ''حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ جبریل امین رسول اللہﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، اسی اثنا میں اوپر سے ایک آواز سنی، انہوں نے سر اٹھایا اور بتایا کہ یہ آسمان کا ایک دروازہ آج کھولا گیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا، اس دروازے سے ایک فرشتہ نازل ہوا، جبریل امین نے بتایا کہ یہ فرشتہ زمین پر آج نازل ہوا ہے، آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا تھا، اس فرشتے نے نبی کریمﷺ کو سلام کیا اور عرض کیا: آپ دو نوروں کی خوشخبری سن لیں جو صرف آپ ہی کو عطا کیے گئے ہیں، آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیے گئے: وہ دو نور سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری دو آیات ہیں، ان میں سے جو کوئی حصہ آپ تلاوت کریں گے، اللہ تعالیٰ آپ کی مراد کو پورا فرمائے گا‘‘ (مسلم: 806)، (6) ''حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: دوسرے لوگوں پر ہماری فضیلت تین وجہ سے ہے: (i) ہمارے لیے تمام روئے زمین مسجد بنا دی گئی ہے (بشرطیکہ اس پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو)، (ii) اس کی مٹی ہمارے لیے طہارت (تیمم) کا ذریعہ بنادی گئی ہے، (iii) ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی طرح ہیں اور ہم کو سورۂ بقرہ کی آخری آیات عطا کی گئی ہیں جو عرش کے نیچے سے نازل ہوئیں اور جو مجھ سے پہلے کسی کو دی گئی ہیں اور نہ میرے بعد کسی کو دی جائیں گی‘‘ (سنن الکبریٰ للبیہقی: 1023)۔
سورۂ بقرہ کی آخری ان دو آیتوں میں سے پہلی آیت کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ایمان لے آئے رسول اس پرجو اُن کے رب کی طرف سے اُن پر نازل ہوا اور مومن (بھی)ایمان لائے۔ چونکہ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے عقائد، عبادات، عائلی مسائل، مالی معاملات، حرمتِ رِبا، جہاد و قتال، نکاح اور اس سے متعلقات، الغرض انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام مسائل کا احاطہ کیا ہے‘ پس اس آیت کے اختتام پر فرمایا: اللہ کے رسول اور تمام اہلِ ایمان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات پر ایمان رکھتے ہیں اور اُنہیں دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں اور ان کی عملی زندگی بھی اطاعتِ الٰہی کا مظہر ہوتی ہے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کے وہ بنیادی اعتقادات بیان فرمائے ہیں کہ جنہیں تسلیم کرنا اور صمیم قلب سے ان کی حقانیت کا اعتقاد رکھنا ہر صاحبِ ایمان کے لیے لازم ہے۔
یہ حقائق و معتقدات وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرۂ کے پہلے رکوع اور آیت نمبر 177 میں بیان فرمائے ہیں: یعنی اللہ کی ذات پر ایمان، اس کے فرشتوں پر ایمان، اس کی کتابوں پر ایمان، اس کے تمام رسولوں پر ایمان اور اس امر پر ایمان کہ مرنے کے بعد آخرکار پھر زندہ ہو کر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ دین اسلام کے یہ تمام امور ہر مومن اور مسلم کے لیے اساس اور بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا لوگوں کا وہ طبقہ جو ذاتِ باری تعالیٰ کے وجود کا منکر ہے، جیسا کہ دہریے اور ملحدین یا ذاتِ باری تعالیٰ پر کماحقہٗ ایمان نہیں لاتے اور اُس کی ذات و صفات میں اس کے غیرکو اُس کا شریک ٹھہراتے ہیں‘ مثلاً: مشرکین، یا اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کردہ تمام کتابوں کا یا اُن میں سے بعض کا انکارکرتے ہیں، جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے انکار کیا ہے؛ چنانچہ یہود تورات کو تو اللہ کی کتاب مانتے ہیں مگر انجیل اور قرآنِ مجید کے کتاب اللہ ہونے کا انکار کرتے ہیں، جبکہ نصاریٰ تورات و انجیل کو تو اللہ کی کتاب مانتے ہیں مگر قرآنِ مجید کواللہ کی نازل کردہ کتاب تسلیم نہیں کرتے، اِسی طرح وہ طبقہ اور گروہ جو تمام رسولوں اور نبیوں پر ایمان لانے کے بجائے اُن میں تفریق کرتے ہیں، جیسا کہ یہود و نصاریٰ ہیں؛ چنانچہ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تو اللہ تعالیٰ کا رسول مانتے ہیں، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور نبی آخر الزماں حضور اکرمﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار کرتے ہیں اور عیسائی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی نبوت و رسالت کی تو تصدیق کرتے ہیں، مگر وہ نبی کریمﷺ کی رسالت کے منکر ہیں، سو یہ تمام طبقات اُن لوگوں کے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ دین کو ماننے اور اُس کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے بجائے اپنے خود ساختہ مذاہب و ادیان کے پیروکار ہیں؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشعراء میں قومِ نوح، قومِ صالح، قومِ لوط، قومِ شعیب کی بابت فرمایا: انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی، حالانکہ انہوں نے اپنے عہد کے رسول کی براہِ راست تکذیب کی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک رسول کی تکذیب کو سب رسولوں کی تکذیب سے تعبیر فرمایا، کیونکہ سب رسولوں کی تعلیمات کی اساس وحیِ ربانی ہے، ماخذ اور مصدر ایک ہے، پس ایک کو جھٹلانا سب کو جھٹلانے کے مترادف ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم بعض پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایمان اور کفر کے درمیان کوئی راستہ نکالیں‘ وہی لوگ ہیں جو پکے کافر ہیں‘‘ (النسآء: 150)۔
اس آیت کے آخری حصے میں مومنوں اور یہود کے درمیان فرق ان الفاظ میں بیان کیا: ''(مومن جب اپنے رب کے احکام سنتے ہیں تو) کہتے ہیں: ''ہم نے (تیرا حکم) سنا اور قبول کیا، اے پروردگار! ہم تجھ سے بخشش کے طلبگار ہیں اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘، چنانچہ نبی کریمﷺکی حیاتِ طیبہ میں کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا کہ مسلمانوں نے سمع و اطاعت کا حق ادا نہ کیا ہو۔ اس کے برعکس یہود نہایت ڈھٹائی کے ساتھ کہتے تھے: ''ہم نے (نبی کا حکم) سنا اور نافرمانی کی‘‘ (النسآء: 46)۔ ان کی اسی سرکشی کے سبب اللہ تعالیٰ نے ان پر احکام کو سخت بنا دیا اور بعض حلال چیزوں کو حرام قرار دیدیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (1) ''پس یہودیوں کے ظلم کے سبب ہم نے کئی ایسی پاکیزہ چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے اُن کے لیے حلال تھیں اور اس وجہ سے کہ وہ بہت سے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے اور سود لیتے تھے، حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا تھا اور اس وجہ سے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے اور ہم نے ان میں سے کافروں کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘ (النساء: 160 تا 161)، (2) ''اور ہم نے یہود پر ہر ناخن والے جانور کو حرام کر دیا، نیز ان پر گائے اور بکری کی چربی حرام کی، ماسوا اس چربی کے جو اُن کی پشتوں یا آنتوں سے چپکی ہوئی ہو یا ہڈی سے ملی ہوئی ہو، ہم نے انہیں ان کی سرکشی کی بنا پر یہ سزا دی ہے اور بے شک ہم ضرور سچے ہیں‘‘ (الانعام: 146)، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور جب ان سے کہا جاتا ہے: ان تمام کتابوں پر ایمان لائو جو اللہ نے نازل کی ہیں تو وہ کہتے ہیں: ہم اسی کتاب (تورات) پر ایمان لاتے ہیں جو ہم پر اتاری گئی ہے اور اس کے ماسوا (اللہ کی نازل کی ہوئی دیگر کتابوں) کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ (قرآن) حق ہے جو اُن کے پاس (پہلے سے موجود) کتاب کی تصدیق کرنے والا ہے، آپ کہہ دیجیے: اگر تم (تورات پر) ایمان لانے والے ہو تو اس سے پہلے انبیاء کو کیوں قتل کرتے رہے‘‘ (البقرہ: 91)۔ (جاری )