کون کہتا ہے کہ ہم پاکستانیوں میں اِبْدَاع، اِخْتِرَاع اور اِیجاد یعنی Innovation اور Invention کی صلاحیت نہیں ہے؟ ہم بحیثیتِ قوم اتنے باکمال ہیں کہ ہم نے گزشتہ دس سالوں میں ''جدید استعاراتی سیاسی لغات‘‘ کی ایک پوری کتاب مرتب کر لی ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا فریضہ انجام دے گی۔ ہماری اسی انفرادیت میں مخالفین پر چور، ڈاکو، کرپٹ اور لٹیرے وغیرہ کے وہ فتوے ہیں جو ہمارے عالی مرتبت وزیراعظم کسی وقفے کے بغیر روز دہراتے ہیں اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ لوگ یہ باتیں سن سن کر عاجز آگئے ہیں اور ان سے پناہ مانگتے ہیں۔ سابق وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور کا ایک لطیفہ ہے: ''ایک شخص ٹیلی وژن مکینک کی دکان پر گیا اور کہا: میرے ٹی وی میں خرابی پیدا ہوگئی ہے، آپ اسے درست کر دیں‘‘، اس نے پوری فنی مہارت سے ٹی وی کو جانچا اور کہا: ''اس میں کوئی خرابی نہیں ہے‘‘، گاہک نے کہا: ''خرابی تو ہے‘‘، مکینک نے پوچھا: '' کیا خرابی ہے‘‘، گاہک نے جواب دیا: ''اس میں بھٹو صاحب پھنس گئے ہیں، انہیں نکال دیں‘‘، سو ہمارا دائرے کا سفر جاری ہے۔
ہماری سیاسی لغات و اصطلاحات میں گزشتہ تین عشروں سے جو اضافات ہوئے ہیں‘ ان میں سے چند یہ ہیں:
1990 کے عشرے میں ہارس ٹریڈنگ (تجارتِ اسپاں) کی اصطلاح رائج ہوئی اور پاکستانی پارلیمنٹ کے معزز ارکان نے درجۂ انسانیت سے ترقی پاکر یہ نیا اعزاز حاصل کیا۔ واضح رہے کہ سیاسی وفاداریاں مفادات کے عوض بدلنے کا نام ''ہارس ٹریڈنگ‘‘ قرار پایا تھا۔ فارسی میں گھوڑے کو ''اَسپ‘‘ کہتے ہیں، اردو میں اس کی جمع ''اَسپاں‘‘ اور فارسی میں ''اَسپہا‘‘ بھی آتی ہے۔ پھر ''چھانگا مانگا، پی سی بھوربن، اسلام آباد کلب اور سرکاری ریسٹ ہائوسز‘‘ ان معزز مہمانوں کی آرام گاہیں قرار پائے۔
ہماری فقہ کی اصطلاح میں لاپتا فرد کو ''مفقود‘‘ کہا جاتا ہے، اس کے لیے فقہ میں احکام ہیں، لیکن پھر افراد گم ہونے کے بجائے گم کیے جانے لگے، اس کے لیے ''مسنگ پرسن‘‘ کی اصطلاح ایجاد ہوئی، اس میں لاپتا ہونے والے افراد کے نام تو معلوم ہوتے تھے، لیکن کس نے لاپتا کیے، کہاں رکھے، زندہ ہیں یا مردہ ہیں، ان امور کو عالَمِ غیب پر چھوڑ دیا گیا اورہمارا نظامِ عدل بھی اس گرم وادی میں قدم رکھنے سے اپنا دامن بچائے رکھتا ہے۔
دنیا بھر میں عدالتیں اپنے فیصلوں میں آئین، قانون اور عدالتی نظائر کا حوالہ دیتی ہیں، لیکن ہمیں یہ شرف حاصل ہے کہ فیصلوں میں گاڈ فادر، سسلین مافیا اور خلیل جبران کے حوالے دیے جانے لگے، یہ روئے زمین پر پاکستان کے نظامِ عدل کا سرمایۂ افتخار ہیں، بہتر ہو کہ ان حوالوں کو ایوانِ عدل و انصاف کی دیواروں پر نقش کیا جائے تاکہ آنے والے وکلا اور معزز جج صاحبان آئین اور قانون کی کتابیں پڑھنے کے بجائے افسانوں پر توجہ دے کراپنے اسلاف کی روایت کو آگے بڑھائیں۔ اسی طرح فیصلوں کو آئین و قانون اور عدالتی نظائر سے مدلل کرنے کے بجائے '' بلیک لا ڈکشنری‘‘ کے حوالوں سے مزیّن کیا گیا، ہم اس انتظار میں ہیں کہ ان عدالتی نظائر کو کب پاکستانی اور عالمی عدالتوں میں آئیڈیل عدالتی نظائرکے طور پر پیش کیا جائے گا۔
عدلیہ بحالی تحریک کے بعد ہماری عدالتیں ایک نئی شان کے ساتھ سامنے آئیں، عدلیہ تحریک کے سرخیل اعتزاز احسن نے کہا: ''اس تحریک نے ہمیں متکبر جج اور متشدّد وکلا دیے‘‘، پھر عالی مرتبت مصنفین نے سارے نظام کو نشانے پر رکھا، وہ ہمارے میڈیا کی زینت بننے لگے، ان کے فرمودات ٹِکر کی صورت میں روزانہ نیوز چینلوں پر چلنے لگے، امریکا، برطانیہ اور یورپ میں شاید ہی عام آدمی کو اپنی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا ججوں کے نام معلوم ہوں، لیکن ہماری قوم کو یہ افتخار ملا کہ ریڑھی ٹھیلے اور چائے سگریٹ کا کیبن چلانے والوں کو بھی ہمارے عالی مرتبت ججوں کے نام حفظ ہو گئے، نظامِ عدل تو ترتیبِ نزولی میں ایک سو انتالیس ممالک کی فہرست میں ایک سو چھبیسویں نمبر پر آ گیا، لیکن عادلوں کا نام ہر ایک کی نوکِ زباں پر جاری ہوگیا۔
ان دنوں ڈیل اور ڈھیل کی اصطلاحات چل رہی ہیں، ''ڈِیل‘‘ کاروباری معاملات طے کرنے کو کہتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں یہ ''سیاسی سودا بازی‘‘ کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اور میڈیا پر ہمارے ماہرین کے کاروبار کا ذریعہ بن گیا ہے۔ ظاہر ہے ڈیل ہمیشہ ''کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر ہوتی ہے، اس میں دو فریق ہوتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں جس ڈیل کا ذکر ہے، اس میں دوسرے فریق کا نام انجانے خوف کی وجہ سے نہیں لیا جاتا، البتہ تفنن طبع کے طور پر اس کے لیے ''نکّے دا ابا‘‘، ''خلائی مخلوق ‘‘، ''محکمۂ زراعت‘‘، ''عالَم غیب‘‘ اور ''راولپنڈی‘‘ کے استعارے استعمال کیے جاتے ہیں۔
پہلے حکومتِ وقت ڈیل کے دعووں کو ردّ کرتے ہوئے بتاتی تھی کہ ہم اور ''وہ‘‘ ایک جان دو قالب ہیں، ہمارا حال اور مستقبل مشترک ہے، ہم ایک آہنی حصار میں محفوظ ہیں، خبردار! کوئی ہمیں میلی آنکھ سے نہ دیکھے، ورنہ نشانِ عبرت بنا دیے جائو گے، اس ناقابلِ شکست ارتباط کو ''ایک صفحے‘‘ کا نام دیا گیا۔ پھر ایک مرحلے پر یہ خبریں گردش کرنے لگیں: ایک صفحہ نہیں رہا، پھٹ گیا ہے، باہمی اعتماد کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے، دستِ شفقت اٹھ گیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب خبریں غیر مَحرم لوگ دیتے رہے، لیکن جو مَحرمِ راز تھے، وہ خاموش رہے۔
پھر ایک وقت آیا کہ وزیراعظم نے خود اعتراف کیا کہ ڈیل کی جا رہی ہے، مجرموں کو دوبارہ مَسندِ اقتدار پر بٹھانے کی سازش ہو رہی ہے، پھر سرکاری بھونپو اس نغمے کو لے کر میڈیا کے بازار میں کود پڑے اور بڑے تفاخر سے اعلان کیا: ''نہ ڈِیل ہوگی، نہ ڈھیل ہو گی‘‘۔ پھر شیخ رشید اور فواد چودھری نے کہا: ''ہمارے سر پر ''دستِ شفقت‘‘ اب بھی قائم ہے اور جو لوگ اس مبارک ہاتھ کو ہمارے سروں سے اٹھا کر اپنے سر پر رکھنا چاہتے ہیں، یہ اُن کی گردن کو دبوچے گا‘‘۔ لیکن کچھ نہ کچھ ہونے کا اعتراف دونوں طرف سے ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے ایسے معاملات میں فیصلہ کُن قوتیں بھی یکسو نہیں ہوتیں، وہ بیک وقت ایک سے زائد متبادل پر کام کر رہی ہوتی ہیں اور انہیں بھی خدشہ لاحق رہتا ہے: ''کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے‘‘۔ جب مارکیٹ میں ایک سے زائد فارمولے گردش کرنے لگیں، ایک سے زائد ہرکارے مختلف سَمتوں میں متحرک نظر آئیں، تو فریقوں کا ایک دوسرے پر اعتماد نہیں رہتا، مایوسی اور بے یقینی کی کیفیت غالب آ جاتی ہے، ڈِیل یا سودے بازی کا عمل رک جاتا ہے۔ ''ڈھیل‘‘ تو ہمارے نظمِ اجتماعی اور ریاست و حکومت کا جزوِ لازم رہا ہے، کبھی دبائو میں لانے کے لیے مُشکیں کَس لی جاتی ہے، اگر دبائو کا حربہ کارگر ثابت نہ ہوا تو پھر ڈھیل سے کام لینا پڑتا ہے۔
پسِ پردہ کام کرنے والی قوتوں کو حالیہ تجربے نے مایوس بھی کیا اور اہلِ نظر سے لے کرعوام تک وہ موجودہ نظام کی ناکامی کی ذمہ دار بھی قرار پائیں۔ کبھی بلند آہنگ میں اور کبھی زیرِ لب میڈیا پر اس کا ذکر ہوتا ہے، سوشل میڈیا تو اس سے بھرا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کو مخالفین کی توہین، تحقیر، تذلیل اور رُسوائی کے لیے استعمال کرنے کا جو حربہ موجودہ نظام کے کارپردازوں نے ایجاد کیا تھا، اب وہ اُن کے گلے پڑ رہا ہے۔ گویا اب اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
اب یہ ناٹک ہماری پارلیمنٹ میں رچایا جا رہا ہے، اپوزیشن کو کھلی آزادی دے دی گئی ہے کہ وہ تمام خرابیوں کی ذمے دار موجودہ حکومت کو قرار دے، تمام ناپسندیدہ قوانین اور معاہدات حکومت کے سر تھوپ کر عوام کے سامنے اپنے نمبر بڑھائے، گنتی میں شکست کھانے کے باوجود اپنے آپ کو سرخرو سمجھے اور حکومت گنتی میں فاتح قرار پائے، لیکن اس فتح کی شرمساری اُن کے چہروں سے عیاں ہو۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب ایک ''کال‘‘ کی برکات ہوتی ہیں۔ جس کام کو بااختیار لوگ ریاست کے مفاد میں ضروری سمجھتے ہیں، اُسے باہم دست وگریباں پارلیمنٹ کے دونوں فریق اپنا اپنا کردار نبھا کر آخرِ کار انجام دے دیتے ہیں اور گلشن کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ سو ہماری سیاست کی لغت میں ''کال‘‘ ایک نیا اضافہ ہے، یہ ایک ایسی غیبی صدا ہے کہ جسے الہام کی جائے، وہ اس سے سرِ مو انحراف نہیں کرتا۔ شاعر نے کہا تھا:
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو، کہ کرامات کرو ہو
اور فیض احمد فیض نے کہا:
کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں، لہو کا سراغ٭ نہ دست و ناخنِ قاتل، نہ آستیں پہ نشاں٭ نہ سرخیِ لبِ خنجر، نہ رنگِ نوکِ سَناں٭ نہ خاک پر کوئی دھبا، نہ بام پر کوئی داغ٭ کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں، لہو کا سراغ٭ نہ صرفِ خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے٭ نہ دیں کی نذر، کہ بیعانۂ جزا دیتے٭ نہ رزم گاہ میں برسا، کہ معتبر ہوتا٭ کسی علَم پہ رقم ہو کے، مشتہر ہوتا٭ پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو٭ کسی کو بہرِ سماعت، نہ وقت تھا، نہ دماغ٭ نہ مدعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا٭ یہ خون ِخاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا٭
الغرض Call کے معنی بلانے کے ہیں، ظاہر ہے زبان سے بلایا جاتا ہے، لیکن ہماری سیاسی لغت کی کال کی نہ صوت ہے، نہ آہنگ ہے، نہ اس کا ارتعاش فضا میں محسوس ہوتا ہے، نہ سکرین پر نمبر نمودار ہوتا ہے، نہ بولنے والا دعویدار، نہ سننے والا مائل بہ اقرار، یہ عالَمِ غیب کی کرامت ہے، اعجاز ہے، شعبدہ بازی ہے، سحر ہے، کہانت ہے، نہ جانے کیا ہے۔ میر تقی میرؔ نے بہت پہلے کہا تھا:
پتا پتا، بوٹا بوٹا، حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے، گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
مہر و وفا، لطف و عنایت، ایک سے واقف ان میں نہیں
اور تو سب کچھ طنز و کنایہ، رمز و اشارہ جانے ہے
پر یہاں نہ کوئی رَمز جانے اور نہ اشارہ، لیکن پیغام جس کا نہ کوئی سِرا ہے، نہ کوئی کنارہ، نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا، یہ مادّی چیز ہے، لیکن تجریدی خصوصیات کا حامل ہے؛ تاہم اس کی تاثیر غضب کی ہے، جو بھیجتا ہے یا جس کو بھیجا جاتا ہے، وہی جانے، اظہار کی بھی اجازت نہیں، اپنی روح میں جذب کر کے عمل میں ڈھالنا ہوتا ہے اور بس!